اسلام آباد۔5فروری (اے پی پی):یورپی یونین کے تعاون سےغذائیت کے حل کے لئے شراکت داری کو مضبوط بناناکے موضوع کے تحت دو روزہ نیٹ ورکنگ ایونٹ کا انعقاد کیا گیا۔ نیٹ ورکنگ ایونٹ میں سرکاری محکموں، بین الاقوامی اور مقامی سول سوسائٹی تنظیموں، عطیہ دہندگان ، نیٹ ورکس کے ماہرین ، کلیدی اسٹیک ہولڈرز اور پریکٹیشنرزنے شرکت کی تاکہ پاکستان میں غذائی قلت کا مقابلہ کرنے میں درپیش چیلنجز پر اور تجربات کا تبادلہ اور جدید حل تلاش کئے جا سکیں۔
تقریب کی قیادت انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) نے شراکتی تنظیم (ایس پی او) اور میڈیکل ایمرجنسی ریزیلینس فائونڈیشن (ایم ای آر ایف) کے تعاون سے کی۔ یورپی یونین (ای یو) کی مالی اعانت سے چلنے والے”سندھ میں مقامی سول سوسائٹی اور کمیونٹی پر مبنی تنظیموں اور غذائیت کے شعبے میں ان کی صلاحیت کو مضبوط بنانے”کے منصوبے کے فریم میں منعقد ہونے والی اس تقریب نے 15 سی ایس اوز کو سرکاری اداروں، عطیہ دہندگان اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے کے لئے نیٹ ورکنگ کے مواقع کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں یورپی یونین کے وفد کے شعبہ دیہی ترقی اور اقتصادی تعاون کی سربراہ باربرا رکسن نے کہا کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، یورپی یونین ایک دہائی سے زائد عرصے سے سندھ میں غذائیت کے شعبے میں فعال طور پر مصروف عمل ہے۔
اس تناظر میں سی ایس اوز کمیونٹیز کے قریب ضروری خدمات لاکر اس فرق کو پر کرنے کے لئے منفرد پوزیشن میں ہیں۔ ان شراکت داریوں کو مضبوط بنا کر ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ کمیونٹی کی آواز سنی جائے اور ان کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جائے۔یورپی یونین نے مقامی پالیسیوں میں سول سوسائٹی کی شرکت کو فروغ دینے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سمیت عالمی سطح پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شراکت داری کو گہرا کرنے پر زور دیا۔
آئی آر سی کی ڈپٹی ڈائریکٹر پروگرامز لبنی جاوید نے کمیونٹی پر مبنی حل کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور کہاکہ غذائی قلت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس میں نہ صرف تکنیکی مداخلت ہے بلکہ مقامی برادریوں کی شمولیت کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارا کام اس بحران سے نمٹنے اور صحت کے نتائج میں پائیدار بہتری کو یقینی بنانے میں نچلی سطح پر شمولیت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
ایکسلریٹڈ ایکشن پلان (اے اے پی) ٹاسک فورس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر حشام مظہر نے اس اقدام کی کامیابیوں اور سندھ حکومت کی حمایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی مالی اعانت سے چلنے والا سی ایس او مضبوط کرنے کا اقدام بہتر غذائیت کے لئے اے اے پی کے کثیر الجہتی منصوبے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
غذائی قلت کے خلاف ہماری اجتماعی لڑائی میں مقامی سی ایس او اہم ہیں۔ مبارک علی سرور نے الائنس کے اقدامات کا ادارہ جاتی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ اگرچہ اہم پیش رفت ہوئی ہے تاہم غذائیت کی پالیسی کے نفاذ سے متعلق خلا کو دور کرنے کے لئے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریب میں سی ایس اوز، حکومت اور ترقیاتی شراکت داروں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے کے موضوع پر بصیرت افروز پینل مباحثہ کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں ریاض حسین (سی او او، پی پی ایچ آئی)، ڈاکٹر فرحانہ شاہد (گیٹس فائونڈیشن)، داوڑ عدنان شمس (ریپ سنسا) اور احتشام اکرم (ایڈووکیسی) کے ماہر شامل تھے۔ بات چیت اور بصیرت پالیسی کے نفاذ، مقامی حل تلاش کرنے اور حکومت، عطیہ دہندگان اور سی ایس او کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے درمیان خلا کو پر کرنے پر مرکوز تھی۔ ڈاکٹر مہیش کمار ملانی (چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی ہیلتھ) نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ سی بی اوز خدمات کی فراہمی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
وہ ثالث کے طور پر کام کرسکتے ہیں ، صحت کی دیکھ بھال ، غذائیت اور صفائی ستھرائی کی خدمات کو برادریوں کے قریب لانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں 2010 کے سیلاب کے بعد انسانی امداد کے ساتھ یورپی یونین کی غذائیت کے لیے امداد کا آغاز ہوا۔2013 کے بعد سے اس امداد نے ایک واضح اور موثر پالیسی فریم ورک کے اندر غذائیت کی خدمات فراہم کرنے کے لئے سرکاری محکموں اور مقامی تنظیموں کی مدد کرکے ایک طویل مدتی اور پائیدار نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔
یورپی یونین کے تعاون سے سائن پروجیکٹ کے ذریعے آئی آر سی، ایم ای آر ایف اور ایس پی او تکنیکی اور مالی معاونت کے ذریعے 15 مقامی تنظیموں کی استعداد کار کو تقویت دے رہے ہیں تاکہ پالیسی مکالموں کو فروغ دیا جا سکے جس کا مقصد پالیسی سازوں کو ثبوت پر مبنی نتائج سے آگاہ کرنا ہے تاکہ ایسی پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں جو بالآخر سب سے زیادہ مستحق برادریوں کے لئے صحت اور غذائیت کی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنائیں۔