یوم استحصال کشمیر کے موقع پر سفارتخانہ پاکستان برسلز میں ویبینارکا انعقاد

263

اسلام آباد۔4اگست (اے پی پی):سفارت خانہ پاکستان برسلز نے یوم استحصال کشمیر کی مناسبت سے ایک ویبینار کا انعقاد کیا، جس میں بھارت کے زیرِ تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ اپنی بھرپور حمایت کا اظہار کیا گیا۔

ویبینار کا مقصد ہندوستانی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آبادیاتی ری انجینئرنگ کو اجاگر کرنا تھا۔

ویبینار کے پینلسٹ میں فل بینین، سابق ایم ای پی، لارڈ واجد الطاف خان، سابق ایم ای پی اور برنلے کے بیرن خان، مزمل ایوب ٹھاکر، صدر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ، جناب علی رضا سید، چیئرمین ای یو کشمیر کونسل، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی، کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر ڈاکٹر مبین شاہ اور یورپی یونین، بیلجیئم اور لکسمبرگ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان شامل تھے۔

اِس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سفیرِ پاکستان نے شرکاء کو بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کے بارے میں آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی طور پر منسوخ کر کے بھارت نے 80 لاکھ بے گناہ کشمیریوں کی آزادیوں اور شہری حقوق پر قدغن لگا کر مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بنا دیا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 5 اگست 2019 کے بعد کی قانون سازی بشمول نئے ڈومیسائل قوانین کو نافذ کر کے بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے متنازعہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے،مقررین نے بھارت پر زور دیا کہ وہ معصوم کشمیریوں کے ساتھ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری غیر انسانی سلوک بند کرے۔ مقررین نے بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے بھارتی ریاستی جبر کو ختم کرنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے انعقاد کے لیے عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔

ویبینارکو سفارتخانے کے سوشل میڈیا ہینڈلز پر ل براہ راست دکھایا گیا جس میں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن کے علاوہ مقامی ماہرین تعلیم، میڈیا اور اسکالرز کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی ۔