۔ 3رکنی بنچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے ،،ازخود نوٹس ، دائر اختیار سمیت قانونی اور آئینی معاملات کے لئے 13 رکنی بنچ تشکیل دیا جائے ، وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ

256
3رکنی بنچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے ،،ازخود نوٹس ، دائر اختیار سمیت قانونی اور آئینی معاملات کے لئے 13 رکنی بنچ تشکیل دیا جائے ، وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ

اسلام آباد۔4اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپر یم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے پارلیمان، حکومت ،اتحادی جماعتوں، بار کونسلز اور سول سائٹی کے مطالبے پر غور نہیں کیا،ازخود نوٹس ، دائر اختیار سمیت قانونی اور آئینی معاملات کے لئے 13 رکنی بنچ تشکیل دیا جائے ۔

وہ منگل کو سپر یم کورٹ کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے دو صوبوں میں الیکشن کے حوالے سے مختصر فیصلہ دیا ہے، تین رکنی بنچ نے پارلیمان، حکومت ،اتحادی جماعتوں، بار کونسلز اور سول سائٹی کے مطالبے پر غور نہیں کیا ، اہم آئینی اور قانونی معاملہ ہے اس پر پارلیمان ، اتحادی حکومت کی طرف سے بھی رائے سامنے آئی تھی کہ جن دو ججز نے اپنے آپ کو کیس سے الگ کیا تھا ان کے علاوہ فل کورٹ بنایا جاتا ۔

انہوں نے کہا کہ آج کے فیصلے سے ملک میں جاری سیاسی اور آئینی بحران مزید سنگین اور گہرا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج سپر یم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی چھ رکنی بنچ بنا دیا گیا جس کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن کریں گے ، جو اس بات کا ثبوت ہے اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے ازخود نوٹس سے متعلق فیصلے کے بارے کل جو دلائل دیئے وہ درست تھے ۔ وفاقی وزیر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن نے عدالت عظمی میں بحث کی کہ قانون اور آئین کا تقاضا ہے کہ پہلے مقدمے کی پہلے سماعت کریں اور بعد والے کو بعد میں کریں ، یکم مارچ کو جب فیصلہ آیا تو ہمارا موقف تھا کہ 1/2023 ازخود نوٹس کو 184 تھری کے دائرہ سے باہر قرار دیدیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو صوبوں میں الیکشن کے حوالے سے اس انتہائی اہم آئینی معاملے پر چار معزز ججز نے پٹیشن مسترد کیں جبکہ تین معزز ججز نے پٹیشن کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے الیکشن کرانے کی بات کی ۔ انہوں نے کہا کہ نو رکنی بنچ میں ججز فائل میں بنچ سے الگ ہونے والے دو ججز کا نہ عبوری فیصلے اور نہ تفصیلی فیصلے میں نام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو ایک اور راستہ بتا یا کہ ملک سکیورٹی اور معاشی مشکلات کا شکار اگر اس میں آئینی مسئلہ بھی شامل کر دیا جائے تو اور مشکلات پیدا ہونگی ،اٹارنی جنرل نے مشورہ دیا کہ باقی چھ ججز پر مشتمل ایک بنچ بنا دیا جائے لیکن ہماری وہ استدعا رد کر دی گئی ، پاکستانی قوم کو اندیشہ ہے کہ عدالت عظمی میں تقسیم ہے ،اسے کو ختم کرنے کی ذمہ داری ادارے کے سربراہ کی ہوتی ہے ،اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے فل کورٹ بنا دیتے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور پارلیمان نے قرار داد کے ذریعے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ اجتماعی سوچ کی طرف بڑھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کیس کی باقی تفصیلات آرہی ہیں اور اس کو ہم دیکھ رہے ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ازخود نوٹس کے کیسز کی سماعت سے روکا تو ایک سرکلر کے ذریعے اسے رد کیا گیا ، اب ضرورت پیش آئی کہ فیصلہ سنانے کے بعد چھ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ہے ، محسوس ہورہا ہے کہ عدالت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ، ہاتھ جوڑ کر استدعا کروں گا اپنے گھر ،ادارے کو متحد کریں ، سپر یم کورٹ کے باہر ترازو کے پلڑے برابر دکھائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی رٹ مطالبہ کرتی ہے کہ تمام معاملات کے لئے 13 رکنی بنچ بٹھائیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمان بھی ایک بڑا ادارہ ہے ، عدالت عظمی بھی بڑا اداہ ہے ،ان میں ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے ، چیف جسٹس سے بار ہا استدعا کی کہ عدالت عظمی کو اکٹھا رکھیں ا ، یہ عدالت پانچ سے چھ نہیں بلکہ 15 ججز کی عدالت ہے ۔ادارے کی توقیر ، تقدس ، وقار کے لئے 13 رکنی بنچ بیٹھ کر قانونی اور آئینی امور کا حل نکالے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ادارہ ہے ،سپریم کورٹ نے اس کا اعتراف کیا ہے، اداروں کو بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے تعاون کریں ۔