1947 میں ڈی آئی خان میں پاکستانی پرچم کشائی کی عظیم الشان تقریب ، اے پی پی کے نمائندہ خصوصی کا 10 سالہ بچے کی حیثیت سے صبح آزادی کا آنکھوں دیکھا حال

241

نیویارک۔13اگست (اے پی پی):مملکت خداداد پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے افراد کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت اے پی پی کے نیویارک میں نمائندہ خصوصی افتخار علی جن کی عمر قیام پاکستان کے وقت 10 برس تھی ،ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیں 1947 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں قیام پاکستان کی تقریبات کے مشاہدہ کا نادر موقع میسر آیا۔ افتخار علی نے تاریخی لمحات کے حوالے سے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کہا کہ77 سال پہلے وہ یادگار لمحہ میرے ذہن میں اس طرح نقش ہے جیسے یہ کل ہی پیش آیا ہو۔

اب ان کی عمر 87 سال ہے ،انہوں نے اپنے والد کے ساتھ ایک 10 سالہ بچے کے طور پر اس تاریخی واقعہ کا مشاہدہ کیا جو ایک سرکاری عہدیدار تھے اور دریائے سندھ کے کنارے واقع اس خوبصورت کھجور کے درختوں سے بھرے شہر میں خدمات انجام دے رہے تھے۔اس وقت کے اعلیٰ ترین ضلعی عہدیدار ڈپٹی کمشنر ڈی آئی خان کے دفتر کے کشادہ لان میں ہزاروں افراد جمع تھے ،یونین جیک کو عمارت سے اتار دیا گیا اور پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعروں کی گونج میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا۔ ڈی آئی خان اگست کے گرم اور مرطوب مہینے میں حیرت انگیز طور پر ٹھنڈا تھا۔ ہجوم میں جنوبی اور شمالی وزیرستان سے ملحقہ ایجنسیوں کے محسود اور وزیر نمایاں تھے جنہوں نے قائد کے پیغام پر لبیک کہا اور پاکستان سے اپنی وفاداری کا عہد کیا۔ یہ دن ڈی آئی خان میں کئی مہینوں کے مظاہروں اور ریلیوں کے بعد آیا جن میں انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ زیادہ تر مظاہرے اور مارچ جن میں سے اکثر کی قیادت مسلم لیگ کے رہنما خان عبدالقیوم خان کر رہے تھے ، منظم اور پرامن تھے۔

ڈی آئی خان میں کافی ہندو آبادی تھی ، ان میں سے کچھ بہت امیر لوگ بھی شامل تھے۔ 14 اگست 1947 سے کچھ دن پہلے برلا کے ڈکوٹا طیاروں نے درجنوں پروازوں میں ہندوئوں کو دہلی پہنچا دیا۔ ایک ورچوئل ایئر برج قائم کیا گیا تھا۔ ہر گھنٹے یا کچھ گھنٹے بعد ایک طیارہ ڈیرہ کی فضائی پٹی پر اترتا اور اڑان بھرتا رہا۔ مشاہدات کے مطابق ڈپٹی کمشنر ہائوس میں تقریب کی کارروائی ختم ہوتے ہی لوگوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر چومنا شروع کر دیا، چاروں طرف جشن کا سماں تھا۔ پورے شہر کو پاکستان کے جھنڈوں سے سجایا گیا تھا۔ ایک مقامی فوٹوگرافر بہادر خان نے یوم آزادی کی تقریبات ریکارڈ کیں اور تصاویر اپنی دکان کے باہر آویزاں کیں۔ ان تصاویر کو دیکھنے کے لیے ان کی دکان کے ارد گرد سینکڑوں لوگ جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد سب لوگ قائداعظم محمد علی جناح کی ریڈیو پر پہلی نشریاتی تقریر سننے کے لیے گھروں کو چلے گئے جنہوں نے پاکستان کی ایک خود مختار ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ ریڈیو پر ان کی آواز اگرچہ دھیمی تھی لیکن ایمان، اتحاد، تنظیم کا پیغام واضح تھا۔ یوم آزادی سے پہلے ایک اور اہم واقعہ کا ذکر کرتے ہو ئے انہوں نے بتایا کہ برطانیہ کا ریفرنڈم جس میں صوبہ سرحد (اب کے پی کے ) کے لوگوں کے پاس ایک انتخاب تھا: پاکستان یا ہندوستان کو ووٹ دینا۔ وہاں پولنگ سٹیشن پر سینکڑوں لوگ قطار میں کھڑے تھے۔جب لوگوں کے ایک حصے نے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے شروع کیے تو برطانوی افسران نے ان سے کہا کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور اس کے آس پاس انتخابی مہم چلانے پر پابندی تھی لیکن ووٹ بھاری اکثریت سے ریاست پاکستان کے حق میں تھا۔ افتخار علی نے بیان کیا کہ انہوں نے قائداعظم کے شہر کے دورے کے ایک سال بعد 1949 میں ڈی آئی خان چھوڑدیا۔ بوائے سکائوٹس کے دستے کا حصہ بننا میرے لیے انتہائی اعزاز کی بات تھی جس نے فوج اور پولیس کے دستوں کے ساتھ اپریل 1948 میں بابائے قوم کو ان کی آمد پر سلامی دی۔ ہم اس ڈائس سے بھی گزرے جہاں وہ سلامی لینے کے لیے کھڑے تھے۔ ہر کوئی بہت جذباتی تھا اور قائد کو اپنے درمیان دیکھنے کا مشتاق تھا۔ ہماری خوشی اس وقت دوبالا ہو گئی جب قائد نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے ہوئے ڈائس کے سامنے کھڑے تمام 30 بوائے سکائوٹس سے مصافحہ کیا ان جذبات کو الفاظ میں بیان کرنا واقعی مشکل ہے۔ آزادی کی طلوع سحر آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے جب ڈی آئی خان کے لوگ نوزائیدہ مملکت کے مستقبل کے بارے میں پرامید تھے اور بالآخر ان کو اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔