وزیر مملکت برائے مالیات حماد اظہر کی قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر برائے مالی سال 2019-20 کا متن

267

اسلام آباد ۔ 11 جون (اے پی پی) وزیر مملکت برائے مالیات حماد اظہر نے مالی سال 2019-20 کا وفاقی بجٹ منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ وزیر مملکت برائے مالیات حماد اظہر کی قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر برائے مالی سال 2019-20 کا متن حسب ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حصہ اول
جناب سپیکر!
1۔ میں جمہوری حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے اللہ رحمن و رحیم کا شکر گزار ہوں۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے۔ تحریک انصاف نئی سوچ، نئی کمٹمنٹ اور ایک نیا پاکستان لائی ہے۔
2۔ 22 سال کی جدوجہد اور پاکستان کے لوگوں کی مرضی آج ہمیں یہاں لائی ہے۔ اب وقت ہے لوگوں کی زندگی بدلنے کا، عوامی عہدوں سے کرپشن ختم کرنے کا، اداروں میں میرٹ لانے کا، معیشت کو مضبوط کرنے کا اور جو لوگ بھلا دیئے گئے، ان پیچھے رہ جانے والوں کو آگے لانے کا وقت ہے۔
3۔ 1947ءمیں ہمارے بڑوں نے اقبال کے خواب کو حقیقت دی اور پاکستان بنایا۔ 1973ءمیں ہم پھر ایک ساتھ مل گئے اور اس ملک کا آئین بنا۔ اب ہم سب اس ملک اور اس آئین کے محافظ ہیں۔
ہماری معاشی وراثت
جناب سپیکر!
4۔ آیئے اس حکومت کے منتخب ہونے کے وقت پائی جانے والی معاشی صورتحال کو یاد کریں تاکہ پتہ چلے کہ اگر ہم ایک مشکل وقت میں کھڑے ہیں تو آخر یہ کیوں ہوا؟ یہ ایک مالی بحران کے دہانے پر کھڑی ہوئی معیشت تھی۔ مجھے کچھ حقائق بتانے کی اجازت دیجئے:
(1) پاکستان کا مجموعی قرضہ اور ادائیگیاں تقریباً 31,000 ارب روپے تھیں۔
(2) ان میں سے قریباً 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھیں۔ بہت سے کمرشل قرضے زیادہ سود پر لئے گئے تھے۔
(3) گزشتہ دو سال کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے 18 Reserves ارب ڈالر سے گرتے گرتے 10 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے تھے۔
(4) عالمی سطح پر پاکستان کے جاری کھاتوں کا خسارہ (Current Account Deficit) تاریخ کی بلند ترین سطح پر 20 ارب ڈالر جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔
(5) پانچ سال میں Exports میں کوئی اضافہ نہیں ہوا یعنی اضافے کی شرح صفر تھی۔
(6) حکومت کے محصولات اور اخراجات کا فرق یعنی مالیاتی خسارہ 2,260 ارب روپے کی خطرناک حد تک پہنچ گیا تھا۔ اتنا بڑا خسارہ الیکشن کے سال میں مالیاتی بدنظمی کی وجہ سے ہوا۔
(7) بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور 38 ارب روپے ماہانہ کی شرح سے بڑھ رہا تھا۔
(8) سرکاری اداروں کی کارکردگی 1300 ارب روپے کے مجموعی خسارے سے ظاہر تھی۔
(9) پاکستانی روپے کی قدر بلند رکھنے کے لئے اربوں ڈالر جھونک دیئے گئے۔ اس مہنگی حکمت عملی سے exports کو نقصان پہنچا، imports کو سبسڈی ملی اور معیشت کا نقصان ہوا۔ ایسے زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا اور یوں دسمبر 2017ءمیں روپیہ گرنے لگا
(10) ترقی کا زور ٹوٹ رہا تھا۔
(11) چیزوں کی قیمتوں پر دباﺅ بڑھ رہا تھا اور افراط زر یعنی Inflation 6 فیصد کو چھو رہی تھی۔
ہماری حکومت کی حکمت عملی
جناب سپیکر!
5۔ حکومت وقت کی ذمہ داری تھی کہ وہ مناسب اقدامات سے صورتحال کو قابو میں لاتی۔ ہم نے فوری خطرات سے نمٹنے اور معاشی استحکام کے لئے اقدامات کئے جن میں سے چند یہاں پیش ہیں:
(1) Import ڈیوٹی میں اضافے سے جولائی۔ اپریل کے دوران Imports 49 ارب ڈالر سے کم ہو کر 45 ارب ہو گئیں اور تجارتی خسارہ 4 ارب ڈالر کم ہوا۔
(2) وزیراعظم کے سمندر پار پاکستانیوں کو اعتماد دلانے سے Remittances میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
(3) 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھنے والے بجلی کے گردشی قرضے میں 12 ارب روپے ماہانہ کی کمی کر کے اسے 26 ارب روپے ماہانہ پر لایا گیا۔
(4) چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 9.2 ارب ڈالر کی امداد ملی۔ میں اس امداد پر دوست ممالک کا شکر گزار ہوں۔
(5) Exports میں اضافہ لانے کے لئے حکومت نے یہ اقدامات کئے:
٭ صنعتی اور برآمدی شعبے کو رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی۔
٭ کم سود پر قرضوں کی فراہمی۔
٭ خام مال پر عائد Import Duty میں کمی کے ذریعے مجموعی طور پر 10 ارب ڈالر کی رعایت۔
٭ Export Sector کے لئے وزیراعظم کے پروگرام میں تین سال تک توسیع۔
٭ چین سے 313 اشیاءکی ڈیوٹی فری Export کا معاہدہ۔
ان اقدامات کی بدولت موجودہ سال میں برآمدات کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ نٹ ویئر کی برآمد میں حجم میں 16 فیصد، بیڈ ویئر میں 10 فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس میں 29 فیصد، پھلوں اور سبزیوں میں بالترتیب 11 فیصد اور 18 فیصد جبکہ باسمتی چاول کی مقدار میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
(6) IMF سے 6 ارب ڈالر کے پروگرام کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ IMF کے بورڈ کی منظوری کے بعد اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا جس کے یہ فوائد ہوں گے۔
٭ اس پروگرام میں ہونے کی وجہ سے ہمیں انتہائی کم سود پر 2 سے 3 ارب ڈالر کی اضافی عالمی امداد بھی میسر آئے گی۔
٭ مالیاتی نظم و ضبط اور بنیادی اصلاحات کے لئے حکومت کی سنجیدگی نظر آئے گی جس سے عالمی سرمائے کا اعتماد حاصل ہو گا۔
٭ سعودی عرب سے فوری ادائیگی کے بغیر 3.2 ارب ڈالر سالانہ کا تیل Import کرنے کی سہولت حاصل کی گئی تاکہ عالمی کرنسی کے ذخائر پر دباﺅ کم ہو۔ اس کے علاوہ حکومت نے اسلامی ترقیاتی بینک سے 1.1 ارب ڈالر کی فوری ادائیگی کے بغیر تیل Import کرنے کی سہولت چالو کر دی ہے۔
6۔ ان اقدامات کی بدولت اس سال کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں 7 ارب ڈالر کی کمی آئے گی جبکہ آئندہ سال مزید 6.5 ارب ڈالر کی کمی آئے گی۔
7۔ بیرونی استحکام کے علاوہ حکومت نے بعض دیگر اقدامات بھی کئے۔ میں ان میں سے چند اقدامات پر روشنی ڈالوں گا۔
1) Asset Declaration Scheme پر عمل جاری ہے جس سے ٹیکس کا دائرہ وسیع ہو گا اور بے نامی اور غیر رجسٹر شدہ اثاثے معیشت میں شامل ہوں گے۔
2) 95 ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لئے فنڈز جاری کئے گئے۔
3) احتساب کے نظام، اداروں کے استحکام اور طرز حمرانی بہتر بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے جن کا ذکر کرنا چاہوں گا:
٭ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید خود مختاری دی گئی ہے۔ افراط زر کو مانیٹری پالیسی کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
٭ ٹیکس پالیسی کو ٹیکس انتظامیہ سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دونوں کام بہتر طور پر ہو سکیں۔
٭ ایک Treasury Single Account بنایا گیا ہے اور اب حکومت کی رقم کمرشل بینک اکاﺅنٹ میں رکھنا منوع ہے۔
(4 پاکستان بناﺅ سرٹیفکیٹ کا اجراءکیا گیا تاکہ سمندر پار پاکستانی 6.75 فیصد کے منافع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے وطن میں سرمایہ کاری کر سکیں۔
5) FBR نے سرمائے کی کمی دور کرنے کے لئے پچھلے سال کے 54 ارب روپے کے مقابلے میں 145 ارب روپے کے Refund جاری کئے۔
6) پیچھے رہ جانے والوں کو امداد اور سہولت دینے کے لئے اقدامات۔
7) Clean and Green Pakistan اور Billion Tree Tsunami
8) سابقہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے پر خصوصی توجہ
بجٹ 2019-20
جناب سپیکر!
8۔ اب میں سال 2019-20 کے بجٹ کا تذکرہ کروں گا۔ یقیناً بجٹ بناتے وقت حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح اور خوشحالی ہے۔ اس بجٹ کی تیاری کے دوران ہم نے جن رہنما اصولوں کو مدنظر رکھا ہے وہ یہ ہیں:
1۔ بیرونی خسارے میں کمی:
Imports میں کمی جاری رکھتے ہوئے Exports میں اضافے کے ذریعے بیرونی خسارے کو کم کی اجائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ کرنٹ اکاﺅنٹ کا خسارہ رواں مالی سال کے 13 ارب ڈالر سے کم کر کے سال 2019-20ءمیں 6.5 ارب ڈالر تک محدود کیا جائے۔ Exports میں اضافے کے لئے حکومت:
٭ خام مال اور Intermediate Goods کے ڈیوٹی Structure کے حوالے سے سپورٹ کرے گی۔
٭ ٹیکس Refund کا نظام بہتر بنائے گی۔
٭ مقابلے کی سستی بجلی اور گیس فراہم کرے گی۔
٭ Free Trade Agreements کو دوبارہ دیکھا جائے گا اور پاکستان کو بین الاقوامی Value Chain کا حصہ بنایا جائے گا۔
2۔ مالیاتی خسارے میں کمی:
FBR کے Revenue کے لئے 5,500 ارب روپے کا challenging ہدف رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اخراجات میں کمی پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ بنیادی خسارہ 0.6 فیصد تک رہ جائے۔ سول اور عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔
3۔ ٹیکس وصولیوں میں اضافہ
بجٹ 2019-20ءمیں ہماری بنیادی اصلاح ٹیکس میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان میں Tax to GDP کی شرح 11 فیصد سے بھی کم ہے جو علاقے میں سب سے کم ہے۔ صرف 20 لاکھ لوگ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں جن میں سے 6 لاکھ ملازمین ہیں۔ صرف 380 کمپنیاں کل ٹیکس کا 80 فیصد سے بھی زیادہ ادا کرتی ہیں۔ کل 3 لاکھ 39 ہزار بجلی اور گیس کے کنکشن ہیں جبکہ صرف چالیس ہزار سیلز ٹیکس میں رجسٹر ہیں۔ اسی طرح کل 31 لاکھ کمرشل صارفین میں سے صرف 14 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ بینکوں کے مجموعی طور پر تقریباً 5 کروڑ Account ہیں جن میں سے صرف 10 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ایس ای سی پی (SECP) میں رجسٹر ایک لاکھ کمپنیوں میں سے صرف 50 فیصد ٹیکس دیتی ہیں۔ بہت سے پیسے والے لوگ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈالتے۔ نئے پاکستان میں اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔
جب تک ہم اپنا ٹیکس کا نظام بہتر نہیں کریں گے پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ تاریخی طور پر ہم نے صحت، تعلیم، پینے کے پانی، شہری سہولیات اور لوگوں سے متعلق کسی بھی چیز پر مطلوبہ اخراجات نہیں کئے۔ اب ہم اس مقام پر آ چکے ہیں جہاں ہمیں قرضوں اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنا ہو گا۔
4۔ کفایت شعاری:
سول اور عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں سول حکومت کے اخراجات 460 ارب روپے سے کم کر کے 437 ارب روپے کئے جا رہے ہیں جو کہ پانچ فیصد کی کمی ہے۔ عسکری بجٹ موجودہ سال کی سطح یعنی 1150 ارب روپے پر مستحکم رہے گا۔ بچت کے ان مشکل فیصلوں کے لئے میں وزیراعظم عمران خان کے تدبر اور عسکری قیادت خصوصاً آرمی چیف کی سپورٹ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میں یہاں واضح کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کا دفاع اور قومی خود مختاری ہر شے پر مقدم ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اپنے وطن اور لوگوں کے دفاع کے لئے پاک فوج کی صلاحیت میں کمی نہ آئے۔
5۔ کمزوروں کا تحفظ:
اس حوالے سے میں چار پالیسی تجاویز کا ذکر کروں گا۔
(1) کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لئے سبسڈی:
بجلی کے صارفین میں تقریباً 75 فیصد ایسے ہیں جو ماہانہ 300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔ حکومت ایسے صارفین کو لاگت سے بھی کم نرخوں پر بجلی فراہم کرے گی۔ اس کے لئے 200 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
(2) احساس:
حکومت نے غربت کے خاتمے کے لئے ایک نئی وزارت قائم کی ہے جو ملک میں سماجی تحفظ کے پروگرام بنائے گی اور ان پر عملدرآمد کرے گی۔ احساس سے مدد حاصل کرنے والوں میں انتہائی غریب، یتیم، بیوائیں، بے گھر، معذور اور بے روزگار شامل ہیں۔
٭ دس لاکھ مستحق افراد کو صحت مند خوراک فراہم کرنے کے لئے ایک نئی راشن کارڈ سکیم شروع کی جا رہی ہے۔
٭ ماﺅں اور نوزائیدہ بچوں کو خصوصی صحت مند خوراک مہیا کی جائے گی۔
٭ 80,000 مستحق لوگوں کو ہر مہینے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے۔
٭ 60 لاکھ خواتین کو ان کے اپنے سیونگ اکاﺅنٹ میں وظائف کی فراہمی اور موبائل فون تک رسائی۔
٭ 500 کفالت مراکز کے ذریعے خواتین اور بچوں کو فری آن لائن کورسز کی سہولت میسر کی جائے گی۔
٭ معذور افراط کو وہیل چیئر اور سننے کے آلات فراہم کئے جائیں گے۔
٭ تعلیم میں پیچھے رہ جانے والے اضلاع میں والدین کو بچے سکول بھیجنے کےلئے خصوصی ترغیبات دی جائیں گی۔
٭ عمر رسیدہ افراد کے لئے احساس گھر بنانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
٭ احساس پروگرام کے تحت BISP کے ذریعے 57 لاکھ انتہائی غریب گھرانوں کو 5 ہزار روپے فی سہ ماہی نقد امداد دی جاتی ہے جس کے لئے 110 ارب روپے کا بجٹ مقرر ہے۔ افراط زر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سہ ماہی وظیفے کو 5,000 روپے سے بڑھا کر 5,500 روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غریبوں کی نشاندہی کرنے کے لئے سماجی اور معاشی data کو update کیا جا رہا ہے۔ یہ کام مئی 2020 تک مکمل کر لیا جائے گا اور اس دوران 3 کروڑ 20 لاکھ گھرانوں اور 20 کروڑ آبادی کا سروے کیا جائے گا۔ 50 اضلاع میں BISP سے مدد حاصل کرنے والے خاندانوں کے 32 لاکھ بچے 750 روپے فی سہ ماہی وظیفہ حاصل کرتے ہیں جس کا مقصد سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد کم کرنا ہے۔ اس پروگرام کو مزید 100 اضلاع تک توسیع دی جا رہی ہے اور بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 روپے سے بڑھا کر 1000 روپے کی جا رہی ہے۔
صحت سہولت:
اس پروگرام کے تحت غریبوں کو صحت کی انشورنس مہیا کی جاتی ہے۔ مستحق افراد کو صحت کارڈ فراہم کئے جاتے ہیں جن سے وہ پورے پاکستان سے منتخب کردہ 270 ہسپتالوں میں سے کسی میں بھی 720,000 روپے سالانہ تک علاج کروا سکتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں پاکستان کے 42 اضلاع میں 32 لاکھ غریب خاندانوں کو یہ سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔ اگلے مرحلے میں اس پروگرام کو ڈیڑھ کروڑ انتہائی غریب اور پسماندہ خاندانوں تک پھیلایا جائے گا۔ اس پروگرام کا اطلاق پاکستان کے تمام اضلاع بشمول ضلع تھرپارکر اور خیبرپختونخوا کے نئے اضلاع اور معذوروں اور ان کے خاندانوں پر ہو گا۔
انسانی ترقی:
آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، غذائیت، تعلیم، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور حفظان صحت وغیرہ کیلئے 93 ارب روپے مختص کرے گی۔
سستے گھر:
کم آمدن افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ موسمی تبدیلی کی تلافی کرنے کیلئے Billion Tree Tsunami اور کلین اینڈ گرین پاکستان پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔
6۔ افراط زر میں کمی
ہم کوشش کریں گے کہ قیمتوں میں کم سے کم اضافہ ہو۔ لیکن اگر عالمی منڈیوں میں قیمتیں اوپر جانے کی وجہ سے ہمیں قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ صارفین کو ہر ممکن تحفظ دیا جائے گا۔ اس وجہ سے ہم نے کمزور طبقات کو سماجی تحفظ کی فراہمی کیلئے بجٹ مقرر کیا ہے۔ قیمتوں میں استحکام ہمارے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ہم مالیاتی پالیسی اور مانیٹری پالیسی کے ذریعے اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے اتنظامی اقدامات کی بدولت قیمتوں میں اضافے کا مقابلہ کریں گے۔ اس حوالے سے حکومت 2019-20ءمیں مندرجہ ذیل اقدامات کرے گی:۔
٭ بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرض حاصل کرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت اب یہ سہولت استعمال نہیں کرے گی۔
٭ افراط زر کیلئے ہمارا وسط مدتی ہدف 5 سے 7 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ ہم اچھی حکمرانی پر توجہ دیں گے اور بدعنوانی کے مقابلے کیلئے پرعزم ہیں۔ ہم اپنے اداروں کو خود مختاری دیں گے، ان کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے اور ان کی قیادت کا انتخاب قابلیت کی بنیاد پر کریں گے۔
2019-20ءمعیشت کے استحکام کا سال ہو گا۔ تبدیلی کا یہ مشکل مرحلہ ہم کم سے کم وقت میں پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ عوام پر مشکل فیصلوں کے اثرات کم سے کم ہوں۔
ترقیاتی بجٹ
جناب سپیکر!
9۔ اب میں ترقیاتی بجٹ پیش کرتا ہوں جس کے ذریعے معاشی ترقی میں مدد دینے والے Infrastructure کے بڑے منصوبوں کی تعمیر، معاشی ترقی، علاقائی ربط اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سال قومی ترقیاتی پروگرام کیلئے 1,863 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے 951 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے رکھے گئے ہیں جبکہ موجودہ سال میں یہ بجٹ 500 ارب روپے تھا۔
10۔ ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات میں پانی کا نظام، Knowledge economy کا قیام، بجلی کی ترسیل و تقسیم بہتر بنانا، کم لاگت پن بجلی کی پیداوار CPEC، انسانی اور سماجی ترقی میں سرمایہ کاری اور متعلقہ شعبوں میں Public private partnership شامل ہیں۔
11۔ ان میں درج ذیل اہم ہیں:۔
1۔پانی
آبی وسائل کے بہتر استعمال کیلئے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی بنیادی توجہ بڑے ڈیموں اور نکاسی آب کے منصوبوں پر مرکوز ہے۔ اس غرض سے بجٹ میں 70 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے زمین حاصل کرنے کیلئے 20 ارب روپے اور مہمند ڈیم ہائیڈل پاور کیلئے 15 ارب روپے تجویز کئے جا رہے ہیں۔
2۔سڑک اور ریل
ان میں سے کچھ منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا بھی حصہ ہے۔ اس غرض سے تقریباً 200 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے خرچ کئے جائیں گے۔ ترقیاتی بجٹ میں جو اہم منصوبے شامل ہیں وہ یہ ہیں۔
٭ حویلیاں۔تھاکوٹ سڑک کیلئے 24 ارب روپے۔
٭ برہان۔ہکلا موٹروے کیلئے 13 ارب روپے۔
٭ پشاور کراچی موٹروے کے سکھر۔ملتان سیکشن کیلئے 19 ارب روپے۔
اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سوات ایکسپریس وے کو چکدرہ سے باغ ڈھیری تک توسیع دی جائے گی، سمبڑیال۔کھاریاں موٹروے تعمیر کی جائے گی اور میانوالی تا مظفر گڑھ روڈ کو دو رویہ کیا جائے گا۔
3۔توانائی
اس حوالے سے 80 ارب روپے تجویز کئے جا رہے ہیں۔ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کیلئے 55 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
4۔ انسانی ترقی
آئندہ سال کے بجٹ میں انسانی ترقی کیلئے 58 ارب روپے تجویز کئے جا رہے ہیں۔ صحت، تعلیم، ترقیاتی اہداف کا حصول اور موسمی تبدیلی کے حوالے سے انتظامات ان اہم ترین ترجیحات میں شامل ہیں جن کیلئے سال 2019-20ءمیں فنڈز خرچ کئے جائیں گے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے 43 ارب روپے کے ریکارڈ Funds رکھے گئے ہیں۔
5۔ زراعت
زراعت صوبائی محکمہ ہے اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہے۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں اس مقصد کیلئے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
6۔کوئٹہ کا ترقیاتی پیکیج:
بلوچستان کی ترقی کیلئے حکومت نے 10.4 ارب روپے سے ”کوئٹہ ڈویلپمنٹ پیکیج“ کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔ یہ رقم 30 ارب روپے کے پانی اور سڑکوں کے وفاقی منصوبوں کے علاوہ ہے۔
7۔ کراچی کا ترقیاتی پیکیج:
کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کیلئے 45.5 ارب روپے فراہم کئے جا رہے ہیں۔
روزگار کی فراہمی
جناب سپیکر!
12۔ روزگار پیدا کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ یہ نوجوانوں کا ملک ہے۔ روزگار تلاش کرنے والے نوجوان مرد عورتوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ ہمیں ان کی توقعات پر پورا اترنا ہو گا۔ اس سلسلے میں اٹھائے گئے چند اقدامات یہ ہیں:
اپنا گھر:
وزیراعظم کے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے پروگرام سے 28 صنعتوں کو فائدہ ہو گا اور بیروزگاروں کیلئے کام نکلے گا۔ اس مقصد کیلئے لاہور، کوئٹہ، پشاور، اسلام آباد اور فیصل آباد میں زمین حاصل کر لی گئی ہے اور سرمایہ کاری کے انتظامات مکمل کئے جا رہے ہیں۔ اب یہ سلسلہ ملک بھر میں پھیلے گا۔ اس سے کم آمدنی والے لوگوں کو چھت میسر آئے گی، معیشت کا پہیہ چلے گا، Infrastructure Releted بنے گا اور بیرونی سرمایہ کاری آئے گی۔ پہلے مرحلے میں وزیراعظم نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں 25000 اور بلوچستان میں 110,000 ہاﺅسنگ Units کا افتتاح کیا ہے جس میں ماہی گیروں کیلئے کم قیمت ہاﺅسنگ سہولیات بھی شامل ہیں۔
اپنا کام:
کامیاب جوان پروگرام کے تحت نیا کاروبار کرنے اور موجودہ کاروبار کو مزید پھیلانے کیلئے سستے قرضے دیئے جاتے ہیں۔ اس سکیم کے تحت 100 ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے۔
صنعتی شعبے میں روزگار کے مواقع:
صنعتی شعبے میں روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے حکومت صنعتی شعبے کو بہت سی مراعات اور سبسڈی دے رہی ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل اقدامات شامل ہیں:
٭ بجلی اور گیس کیلئے 40 ارب روپے کی سبسڈی
٭ برآمدنی شعبے کیلئے 40 ارب کا پیکیج
٭ حکومت Long term trade financing کی سہولت برقرار رکھے گی۔
زرعی شعبہ:
13۔ اس سال زرعی شعبے میں 4.4 فیصد کمی ہوئی ہے۔ زرعی شعبے کو اوپر اٹھانے کیلئے صوبائی حکومتوں سے ملکر 280 ارب روپے کا پانچ سالہ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے چند اہم نکات یہ ہیں:
(1) پانی سے زیادہ پیداوار کیلئے پانی کا Infrastructure بنایا جائے گا جس میں پانی کی کفایت کے منصوبے بھی شامل ہوں گے۔ اس کے تحت 218 ارب کے منصوبوں پر کام ہو گا۔
(2) گندم، چاول، گنے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے 44.8 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔
(3) مچھلی کے Potential سے استفادہ کرنے کیلئے کیکڑے اور ٹھنڈے پانی کی ٹراﺅٹ کی فارمنگ کے منصوبوں کیلئے 9.3 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔
(4) چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کیلئے گھریلو مرغ بانی اور بھینس کے بچے کو پالنے کی حوصلہ افزائی کیلئے 5.6 ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔
(5) اس کے علاوہ بجٹ 2019-20ءمیں مندرجہ ذیل تجاویز شامل ہیں:
زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے سبڈی:
زرعی ٹیوب ویلوں پر 6.85 روپے فی یونٹ کے حساب سے رعایتی نرخ دیئے جائیں گے۔ بلوچستان کے کسانوں کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے 40:60 کے تناسب سے مشترکہ سکیم شروع کی ہے جس کے تحت کسان سے صرف 10,000 روپے مہینہ بل وصول کیا جاتا ہے اور 75000 روپے تک کا اضافی بل دونوں حکومتیں اٹھا رہی ہیں۔
Crop loan انشورنس:
چھوٹے کسان کیلئے فصل خراب ہونے کی صورت میں نقصان کی تلافی کیلئے انشورنس سکیم مہیا کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے بجٹ 2019-20ءمیں 2.5 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
سرکاری اداروں کی اصلاح
14۔ ہر سال ہمارے حکومتی اداروں میں زبردست گھاٹا پڑتا ہے اور یہ نقصان معیشت کی پیداواری صلاحیت، جدت طرازی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں رکاوٹ ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ شعبہ حکومت کے اصلاحی پروگرام کا اہم جزو ہو گا۔ اس سلسلے میں Corporatization، پرائیویٹائزیشن اور Restructuring پر مبنی ایک تفصیلی پروگرام پیش کیا جائے گا۔ اس سال LNG سے چلنے والے دو بجلی گھروں اور چند چھوٹے اداروں کی نجکاری کی جائے گی جس سے 2 ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ پاکستان سٹیل ملز کو چلانے کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں سے رابطے کئے گئے ہیں اور موبائل فون کے لائسنس سے 1 ارب ڈالر تک متوقع ہیں۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات:
جناب سپیکر!
15۔ اس وقت بجلی کا گردشی قرضہ 1.6 کھرب روپے ہے۔ اسی طرح گیس کا گردشی قرضہ 150 ارب روپے ہے۔ گردشی قرضہ بلوں کی وصولی نہ ہونے اور ترسیل و تقسیم کے دوران ضائع ہونے والی توانائی کی بنا پر جمع ہوتا ہے۔ گردشی قرضے کی وجہ سے حکومت مہنگا قرض لے کر ان Inefficient companies کو چلانے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے موجودہ حکومت نے کئی ایک اقدامات کئے ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ بجلی اور گیس کے صرف پر نظرثانی کی گئی تاکہ صارف پر اس کا اثر کم سے کم ہو۔
2۔ بجلی کے بل ادا نہ کرنے اور بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف ایک منظم مہم شروع کی گئی جس کی بدولت پچھلے 6 ماہ میں 80 ارب روپے کی وصولیاں کی گئیں۔
3۔ تقریباً 3 ہزار میگاواٹ بجلی کی ترسیل میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے ذریعے 80 فیصد Feeders پر لوڈ شیڈنگ ختم کر دی گئی۔
4۔ مالی مشکلات دور کرنے کیلئے حکومت سبسڈی کے بقایا جات کی ادائیگی کر رہی ہے۔
16۔ اوپر بیان کئے گئے اقدامات کی بدولت گردشی قرضے میں اضافہ 38 ارب ماہانہ سے کم ہو کر 24 ارب تک آ گیا ہے۔ اگلے چوبیس ماہ میں ایسے مزید اقدامات سے گردشی قرضے کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی جس کی بدولت توانائی کا نظام یکسر بدل جائے گا۔
خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع:
17۔ وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا میں نئے شامل ہونے والے قبائلی اضلاع کے جاری اور ترقیاتی اخراجات کیلئے 152 ارب روپے فراہم کے گی۔ اس میں 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی شامل ہے جس کیلئے وفاقی حکومت 48 ارب روپے دے گی۔ یہ دس سالہ پیکیج ایک کھرب روپے کا حصہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہیا کریں گی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری:
18۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری ہماری مستقل ترجیح ہے۔ CPEC کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں نئے شعبے شامل کئے گئے ہیں جن میں اقتصادی ترقی، زراعت اور خصوصی اکنامک زونز بنانے کے ذریعے صنعتی ترقی کا حصول شامل ہیں۔ ریلوے کے شعبے کو ترقی دینے کیلئے ML-1 منصوبے کیلئے رقوم مختص کی گئی ہیں۔
اینٹی منی لانڈرنگ:
19۔ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے۔ اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور معاشی نقصان بھی ہوتا ہے۔ trade-based money laundring کے خاتمے کیلئے ایک بالکل نیا نظام تجویز کیا جا رہا ہے۔
اداروں کی صلاحیت میں اضافہ
20۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو افراط زر کو قابو میں رکھنے کیلئے مانیٹری پالیسی بنانے میں وسیع تر خود مختاری دی جا رہی ہے۔
21۔ treasury single account بنایا گیا ہے اور حکومت رقوم کمرشل بینک اکاﺅنٹ میں رکھنے کی ممانعت کر دی گئی ہے۔
سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف:
22۔ وفاقی حکومت کے ملازمین اور پنشنرز کیلئے درج ذیل ریلیف اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔
٭ سول حکومت کے گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین اور افواج پاکستان کے تمام ملازمین کو 2017ءکے BPS کے مطابق running basic pay پر 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاﺅنس دیا جائے گا۔
٭ گریڈ 17 سے 20 تک کے سول ملازمین کو 5 فیصد ایڈہاک ریلیف الاﺅنس دیا جائے گا۔
٭ گریڈ 21 اور 22 کے سول ملازمین کی تنخواہو ں میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا کیونکہ انہوں نے ملکی معاشی صورتحال میں بہتری کی خاطر یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
٭ وفاقی حکومت کے تمام سول اور فوجی پنشنرز کی net pension میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
٭ معذور ملازمین کا special conveyance allowance، 1000 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 2000 روپے ماہانہ کیا جا رہا ہے۔
٭ وزراء،وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری کے ساتھ کام کرنے والے سپیشل پرائیویٹ سیکرٹری، پرائیویٹ سیکرٹری اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی سپیشل تنخواہ میں 25 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
٭ اس کے علاوہ کم از کم اجرت بڑھا کر 17,500 روپے ماہانہ کی جا رہی ہے۔
مالی سال 2019-20ءکے بجٹ تخمینے:
جناب سپیکر!
23۔ اب میں مالی سال 2018-19ءکے لئے بجٹ تخمینے پیش کرنا چاہوں گا۔
(1) مالی سال 2019-20ءکے لئے بجٹ تخمینہ 7,022 ارب روپے ہے جو کہ جاری مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ 5,385 ارب روپے کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔
(2) مالی سال 2019-20ءکے لئے وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6,717 ارب روپے ہے جو کہ 2018-19ءکے 5,661 ارب روپے کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔
(3) ایف بی آر کے ذریعے 5,555 ارب آمدن متوقع ہے جس کے مطابق Tax to GDP Ratio 12.6 فیصد ہے۔
(4) وفاقی Revenue Collection میں سے 3,255 ارب روپے ساتویں N.F.C ایوارڈ کے تحت صوبوں کو جائیں گے جو کہ موجودہ سال کے 2,465 ارب روپے کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہیں۔
(5) مالی سال 2019-20ءکے لئے Net Federal revenues کی مد میں 3,462 ارب روپے کا تخمینہ ہے جو کہ جاری مالی سال کے 3,070 ارب روپے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے۔
(6) اس طرح وفاقی بجٹ خسارہ 3,560 ارب روپے ہو گا۔
(7) مالی سال 2019-20ءکے لئے صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423 ارب روپے ہے۔
(8) مالی سال 2019-20ءکے لئے مجموعی مالی خسارہ 3,137 ارب یا جی ڈی پی کے 7.1 فیصد ہو گا جو کہ 2018-19ءکے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.2 فیصد پر تھا۔
حصہ دوم
جناب سپیکر!
اب میں اپنی تقریر کا دوسرا حصہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو ٹیکس تجاویز پر مشمتل ہے
اس سال پاکستان نے سابقہ حکومتوں کی طرف سے متعارف کروائی گئی ناقص ٹیکس پالیسیوں کے بدترین اثرات کا سامنا کیا، ان پالیسیوں کو پاکستانی عوام کی تائید حاصل نہ تھی۔ پچھلی حکومت نے اضافی ٹیکس ریلیف فراہم کیا جس سے ٹیکس بیس میں 9 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پچھلے پانچ سال کے دوران حکومت نے ٹیکس محصولات میں اضافہ کے لئے صرف ٹیکس ریٹ میں اچانک تبدیلیوں کی اپروچ کا سہارا لیا اور زیادہ مستعد، مساویانہ اور مضبوط ٹیکس نظام کے قیام میں ٹیکس بیس میں اضافہ کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔
نتیجاً جناب سپیکر! اس وقت 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 19 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور ان میں بھی ٹیکس جمع کروانے والوں کی تعداد 13 لاکھ ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ سیلز ٹیکس فائلرز کی تعداد صرف ایک لاکھ 41 ہزار ہے، ان میں سے صرف 43 ہزار اپنے گوشواروں کے ساتھ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح 12 فیصد ہے جو نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں کم ترین شرحوں میں سے ایک ہے جبکہ موجودہ اخراجات کے لحاظ سے ضروری ہے کہ ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا 20 فیصد ہو۔ اسی تناظر میں موجودہ حکومت نے ٹیکس اصلاحات کا ایسا ایجنڈا ترتیب دیا ہے جس کے ذریعے سخت فیصلے کئے جائیں گے، جو نہ صرف macroeconomic stability بلکہ آنے والی نسلوں کی خاطر قومی یکجہتی کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہیں۔
جناب سپیکر!
میں آغاز میں، اس معزز ایوان کو مالی سال 2019-20ءکے مجوزہ ٹیکس اقدامات کے بنیادی اصولوں کے بارے میں مختصر طور پر بریف کرنا چاہوں گا، یہ اقدامات حکومت کے (درمیانی مدت) medium term پالیسی فریم ورک کا حصہ ہیں۔ اس فریم ورک کی بنیادی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ (درمیانی مدت) medium term کے دوران جمع ہونے والے محصولات اور حقیقی پوٹیشنل میں فرق کو کم کیا جائے۔ مالی سال 2018-19ءمیں حکومت نے tax expenditure کی حد 972.4 ملین (972 ارب 40 کروڑ) روپے کی ٹیکس سہولیات دیں۔ یہ اخراجات ان بے شمار ٹیکس استثنیات (exemptions) اور رعایتوں کا نتیجہ ہیں جو معیشت کے مختلف شعبوں کو مہیا کی جا رہی ہیں۔ جہاں ان استثنیات (exemptions) اور رعایتوں کے نتیجہ میں ایک طرف تو ترغیب ملتی ہے تو دوسری طرف ان کے نتیجہ میں distortion بڑھ جاتی ہے اور ٹیکس محصولات کا ایک بڑا حجم ضائع ہو جاتا ہے۔ ان استثنیات (exemptions) اور رعایتوں میں کمی سے نہ صرف محصولات میں اضافہ ہو گا بلکہ ٹیکس نیٹ میں بھی اضافہ ہو گا۔ ٹیکس کے خلاءکو کم کرنے کی کوششیں دو حصوں پر مشتمل ہیں: (1) استثنیات (exemptions) اور رعایتوں میں مرحلہ وار کمی، (2) ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح کو مرحلہ وار مساویانہ بنانا اور special procedure پر نظرثانی کرنا، ہماری توجہ مو¿ثر اور خوف سے پاک ٹیکس compliance کو یقینی بنانا ہے۔ ٹیکس گزار اور ٹیکس کلکٹر کے مابین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے رابطہ کاری کو متعارف کروایا جائے گا تاکہ دونوں میں بالمشافہ رابطے کی جگہوں کو virtual ذرائع اختیار کرکے کم سے کم کیا جائے۔ اس سے ٹیکس گزار اور ٹیکس کے محکمے کے مابین اعتماد کا فقدان کم ہو گا اور ٹیکس compliance کی لاگت بھی کم ہو گی۔ ٹیکس کے نظام میں جمود توڑنے کے لئے فرضی ٹیکسیشن (Taxation) کی بجائے حقیقی آمدن پر ٹیکسیشن اور غیر ضروری ود ہولڈنگ ٹیکسز کے خاتمے جیسے اقدامات تجویز کئے جا رہے ہیں، اس کا فطری نتیجہ ”کاروبار کرنے میں آسانی کے انڈیکس“ میں پاکستان کی رینکنگ بہتر ہونے کی صورت میں انشاءاﷲ نکلے گا۔ آنے والے سالوں میں ٹیکس بیس میں اضافے کے لئے معیشت کو دستاویزی شکل دینا سب سے اہم ہو گا جس کے لئے حکومتی اداروں کے پاس موجود ڈیٹا اور جمع کرائے گئے گوشواروں میں موجود ڈیٹا کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا۔
حکومت نے ایسیٹ ڈکلیئریشن آرڈیننس، 2019ءکے نفاذ کے ذریعے اصلاحات کا پیکیج متعارف کروا دیا ہے تاکہ غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس نظام میں شامل کیا جائے اور ٹیکس تعمیل (compliance) کی حوصلہ افزائی سے معاشی بحالی و نمو (economic revial and growth) کے مقاصد پورے ہوں۔
جناب سپیکر!
اب میں اس ایوان کے سامنے ریلیف اور ٹیکس کے اقدامات پیش کرنا چاہتا ہوں جو اس بجٹ میں تجویز کئے گئے ہیں، ان کا آغاز کسٹم ڈیوٹی سے کروں گا۔
جناب اسپیکر !
-1 اب میں ٹیکس اقدامات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
کسٹمز (Customs)
-2 ماضی میں ملکی ٹیکسوں سے ملنے والے کم ریونیو کی وجہ سے کسٹم ٹیرف کو imports سے ریونیو حاصل کرنے کے لئے بے دردی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا۔ فی الوقت پاکستان میں اوسطاً کسٹمز ٹیرف اور imports کے مرحلے کے حوالے سے ریونیو بہت زیادہ ہیں جبکہ imports سے حاصل ہونے والے ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ import شدہ خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ملکی اور برآمدی دونوں صنعتوں کی مسابقت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ حکومت کو یہ مکمل یقین ہے کہ ایکسپورٹس اور ملکی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لئے کسٹمز ٹیرف کی ریشنلائزیشن ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے 1600 سے زائد ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی، خام مال کے ضمن میں اس بجٹ میں مستثنیٰ کی جا رہی ہے۔ اس اقدام سے تقریباً 20 بلین روپے کے ریونیو کا نقصان ہوگا لیکن صنعتی ترقی کے بدلے میں بہت زیادہ فوائد کی توقع ہے۔ حکومت کسٹمز ٹیرف کے اصلاحاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے جسے مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔
-3 ٹیکسٹائل کا شعبہ اہم ہے اور حکومت کی پالیسی ہے کہ اس شعبے کو ٹیکسٹائل مشینری کے پارٹس اور آلات پر ڈیوٹی سے exemption دے کر معاونت فراہم کی جائے۔ اسی طرح لچکدار دھاگے اور غیر بنے کپڑے پر ڈیوٹی بھی کم کی جائے گی۔
-4 ملک کے تعلیمی شعبے میں کاغذ کا استعمال انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کی قیمت سے تعلیم کی مجموعی لاگت پر اثر پڑتا ہے۔ کاغذ کی پیداوار کے لئے استعمال ہونے والے بنیادی خام مال جیسے برادہ اور کاغذ کے سکریپ کو کسٹم ڈیوٹی سے exemption دینے کی تجویز ہے اور مختلف اقسام کے کاغذ پر ڈیوٹی 20 فیصد سے 16 فیصد تک کم کی جائے گی۔ اس سے ملک میں کاغذ اور کتابوں کی قیمتوں میں کمی آئے گی اور پرنٹنگ کی صنعت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ قرآن کی اشاعت کے لئے خصوصی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
-5 غیر روائتی exports میں اضافے کے لئے لکڑی کے فرنیچر اور ریزر کی پیداوار میں استعمال ہونے والی کچھ اشیاءپر ڈیوٹی کم کی جا سکتی ہے، مقامی جنگلات کو بچانے اور فرنیچر کے پیدا کنندگان کی حوصلہ افزائی کے لئے لکڑی پر ڈیوٹی 3 فیصد سے کم کر کے 0 فیصد اور لکڑی کے مصنوعی پینلز پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ ریزر کے exports کے لئے اسٹیل کی پٹیوں پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی جا رہی ہے۔
-6 گھریلو اشیاءکی صنعت، پرنٹنگ پلیٹ کی صنعت، سولر پینلز کے اسمبلرز اور کیمیکل انڈسٹری کے مداخل کی لاگت کو کم کرنے کے لئے ان کے مداخل پر ڈیوٹیز جیسا کہ گھریلو اشیاءکے پارٹس/اجزائ، ایلومینیم کی پلیٹوں، دھاتی سطح والی اشیاءاور ایسیٹک ایسیڈ (ascetic acid) پر ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی غرض سے تیل صاف کرنے والے ہائیڈرو کریکر پلانٹس کی تنصیب کے لئے استعمال ہونے والے پلانٹ اور مشینری پر ڈیوٹی سے exemption دینے کی تجویز ہے۔
-7 زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لئے prohibitive regulatory duties کے استعمال سے imports تو کم ہوئیں لیکن ان میں کچھ اشیاءٹرانزٹ ٹریڈ میں چلی گئیں اور پھر انہیں واپس سمگل کیا گیا۔ تجویز ہے کہ ٹائر، وارنش اور خوراک کی صنعت میں خوراک کی تیاری کے حوالے سے ڈیوٹی کے ڈھانچے کو منطقی بنایا جائے تاکہ ان اشیاءکو سمگلنگ میں منتقل ہونے سے بچایا جائے اور ضائع ہونے والے محصولات کو حاصل کیا جائے۔
-8 بڑھتی ہوئی cost of living کے باعث عام آدمی کا گزارہ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ عام آدمی کے لئے ادویات کی قیمتوں میں کمی کی غرض سے دوائیوں کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی 19 بنیادی اشیاءکو تین فیصد امپورٹ ڈیوٹی سے exemption دینے کی تجویز ہے۔
-9 ایکسپورٹس کی حوصلہ افزائی کے لئے برآمدی سہولیات کی مختلف سکیموں ک سادہ اور خودکار بنایا جا رہا ہے تاکہ انسانی عمل دخل کم سے کم ہو اور تیز رفتار عمل شفاف طریقے سے انجام پائے۔ یہاں یہ تذکرہ کرنا انتہائی اہم ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران را مٹیریل کی امپورٹ پر ایکسپورٹس کو سہولیات فراہم کرنے کی مختلف سکیموں کے تحت برآمد کنندگان کو ڈیوٹی کی مد میں 124 ارب روپے کی رعایتیں دی گئیں۔ ایکسپورٹرز کے وقت کی بچت کے لئے تجویز ہے کہ ان کی طرف سے فراہم کی جانے والی اشیاءاور پیداوار کی شرحوں کو حتمی تصدیق کی شرط کے ساتھ عارضی طور پر قبول کیا جائے اور ان کے امپورٹ آرڈرز کی تکمیل میں تاخیر نہ کی جائے۔
-10 منی لانڈرنگ ایک لنعت اور بری شہرت کا باعث ہے نیز اس سے معاشی نقصان ہوتا ہے۔ تجارتی بنیاد پر منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لئے ایک مکمل نیا نظام تجویز کیا جا رہا ہے۔ منی لانڈرنگ اور کرنسی کی اسمگلنگ کے خلاف قانونی اقدام کرنے کے لئے ایک نیا علیحدہ ڈائریکٹوریٹ آف کراس بارڈر کرنسی موومنٹ قائم کر کے FATF کے منصوبہ عمل کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کے عزم کی عکاسی کی گئی ہے۔ سرحدی علاقوں میں اسمگلنگ کے خلاف اقدام کو مزید مضبوط بنانے کے لئے کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں اس کی روک تھام کے لئے علیحدہ سے کلکٹریٹس قائم کئے گئے ہیں۔
-11 حکومت کو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے بعض سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اس حقیقت کا احساس کرتے ہوئے کہ امپورٹس کے مرحلے میں ڈیوٹی اور ٹیکس میں کئے جانے والے کسی بھی اضافے کا صارفین پر بوجھ پڑتا ہے اس لئے ہم نے امپورٹ مرحلے کے حوالے سے محصولات کے ضمن میں کم از کم اقدامات برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ اضافی کسٹمز ڈیوٹی کی شرح موجودہ شرح سے بالترتیب 2 فیصد سے 4 فیصد اور 6 فیصد اور 20 فیصد کے ٹیرف سلیبز پر 7 فیصد اضافہ کیا جائے جو بنیای طور پر لگژری آئٹمز سمیت پرتعیش اشیاءپر مشتمل ہیں۔ فی الوقت ایل این جی کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے چونکہ ایل این جی نے فرنس آئل کی جگہ لے لی ہے جس پر سات فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہے اس لئے اب ایل این جی کی امپورٹ پر پانچ فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔
سیلز ٹیکس (Sales Tax)
جناب سپیکر!
حکومت نے غریب طبقے کی بڑی اکثریت کے فائدے کے لئے محصولات اکٹھا کرنے کی غرض سے جنرل سیلز ٹیکس کے ریٹ کو 17 فیصد تک بڑھانے کا آپشن اختیار نہیں کیا۔ ریلیف کے کچھ اقدامات حسب ذیل ہیں :
ریلیف کے اقدامات
اینٹوں کے بھٹوں پر فکسڈ سیلز ٹیکس
اس وقت اینٹوں کے بھٹوں سے 17 فیصد کے ریٹ سے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ تجویز ہے کہ سیلز ٹیکس کے ریٹ کو 17 فیصد سے کم کر کے capacity اور جگہ کے حساب سے فکس کیا جائے۔ یہ دیہی علاقوں کی صنعت ہے جہاں دستاویزی تقاضے کو پورا کرنا مشکل ہے۔ اس لئے اس اقدام سے کم لاگت پر compliance کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
ریستورانوں اور بیکریز کی طرف سے سپلائی کی جانے والی غذائی اشیاءپر سیلز ٹیکس کی کم کردہ شرح
کھانے اور دیگر اشیائے خوردونوش کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاءجیسے گوشت، سبزیاں، آٹا وغیرہ کو دستاویزی شکل میں لانا مشکل ہے اور اس کاروبار کے لوگوں میں ٹیکس چوری کا رجحان بڑھتا ہے اس لئے ٹیکس اتھارٹیز کی طرف سے کم سے کم اخراجات کے ساتھ Compliance کی حوصلہ افزائی کے لئے تجویز ہے کہ ریستوران اور بیکری میں فراہم کی جانے والی چیزوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 7.5 فیصد پر لایا جائے جس میں سے ان پٹ ٹیکس کو ایڈجسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
خشک دودھ (پاﺅڈر) پر سیلز ٹیکس کی کم کردہ شرح
اس وقت خشک دودھ کی متعدد اقسام کے لئے سیلز ٹیکس کے ریٹ یکساں نہیں ہیں۔ ایک جیسی مصنعات پر ٹیکس کی شرحیں عائد ہیں، اس لئے اس فرق کو ختم کرنے کے لئے تجویز ہے کہ دودھ اور کریم، خشک اور بغیر فلیور والے دودھ پر یکساں 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔
PMC اور PVC کی افغان ایکسپورٹ پر پابندی کا خاتمہ
PMC اور PVC کی افغان ایکسپورٹ پر پابندی کے خاتمے کے لئے تجویز ہے کہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو زیرو ریٹ پر یہ اشیاءایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس اقدام سے متذکرہ بالا اشیاءکی ملک میں مقامی طور پر پیداوار کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ایکسپورتس میں بھی اضافہ ہوگا۔
Extra Tax کے حوالے سے اصلاحات
اس وقت متعدد اشیاءپر معیاری سیلز ٹیکس کے علاوہ 2 فیصد اضافی ٹیکس بھی عائد ہے جیسا کہ بجلی اور گیس کے آلات، فوم، کنفیکشنری، اسلحہ اور ایمونیشن، لبریکنٹس، آٹو پارٹس، ٹائرز/ٹیوبز وغیرہ۔ ٹیکس کی مکمل پوٹینشل کے ساتھ وصولی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تجویز ہے کہ ان اشیاء(ماسوائے آٹو پارٹس) کو سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ءکے تیسرے شیڈول (ریٹیل پرائس ٹیکسیشن) میں منتقل کر دیا جائے۔ آٹو پارٹس جو کہ درمیانی نوعیت کی حامل ہیں اور صنعتوں میں اتعمال ہوتی ہیں۔ تجویز ہے کہ ان پر عائد اضافی ٹیکس کو واپس لے لیا جائے تاکہ مقامی صنعت کی لاگت پیداوار میں کمی آئے۔
سابقہ قبائلی علاقوں کے لئے exemption
فاٹا اور پاٹا کے انضمام کے بعد supplies کے حوالے سے exemptions میں پانچ سال کی توسیع دی گئی تھی تاکہ معاشی سرگرمیاں بڑھیں۔ تجویز ہے کہ صنعتی خام مال اور پلانٹ و مشینری کی امپورٹ پر بھی ٹیکس exemption کو ان علاقوں تک وسعت دی جائے۔ مزید برآں ان علاقوں میں تمام گھریلو اور کاروباری صارفین اور 31 مئی 2018ءسے پہلے قائم ہونے والی صنعتوں کو بجلی کی فراہمی پر سیلز ٹیکس کے لئے exemption دینے کی تجویز ہے۔ اس exemption کا اطلاق ان علاقوں میں واقع اسٹیل ملوں اور گھی ملوں پر نہیں ہوگا۔
موبائل فونز کی امپورٹ پر تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس کا خاتمہ
اس وقت کاروباری امپورٹ پر تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد ہے جس کی وجہ سے ٹیکس کے بوجھ میں غیر ضروری طور پر اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے لئے تجویز ہے کہ موبائل فونز کی امپورٹس پر تین فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کر دیا جائے۔ اس سے مبائل فونز کی امپورٹ پر عائد ٹیکس میں کمی آئے گی۔
3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس میں اصلاحات ۔ پٹرولیم مصنوعات
اس وقت ویلیو ایڈیشن ٹیکس سے استثنیٰ OMCs کی طرف سے امپورٹ کی جانے والی صرف ان اشیاءپر موجود ہے جن کی قیمتیں ریگولیٹ کی جاتی ہیں۔ تجویز ہے کہ OMCs کی طرف سے امپورٹ کی جانے والی تمام پٹرولیم مصنوعات جیسے فرنس آئل پر بھی exemption دی جائے۔
قانون میں سادگی اور special procedure کا خاتمہ
کئی سالوں سے سیلز ٹیکس قانون میں کئی سطحوں پر مشتمل ٹیکسیشن اور اس کے تحت قانون سازی کی شمولیت سے یہ ایک پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کے بغور مطالعے کے بعد سپیشل پروسیجر رولز کو ختم کر کے سیلز ٹیکس ایکٹ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح سے چند بے حد ضروری SROs کو چھوڑ کر تمام SROs اور STGOs کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔
ریونیو تجاویز
SRO1125(I)/2011 کے نقائص کا خاتمہ
SRO1125(I)/2011 کے ذریعے پانچ برآمدی شعبوں یعنی ٹیکسٹائل، چمڑے، کارپٹس، کھیلوں کے سامان اور سرجیکل سامان کی پیداوار اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاءپر سیلز ٹیکس کو زیرو ریٹڈ کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد ریفنڈ کی ادائیگی میں تاخیر کا خاتمہ کرنا تھا۔ تاہم زیرو ریٹنگ کی وہ سے ملکی پیداوار اور صنعت کا ایک بڑا حصہ ہونے کے باوجود ان اشیاءکی ملکی فروخت میں ٹیکس کی مقدار صرف چھ ارب روپے ہے جو کہ 1200 ارب روپے کی پیداوار کا ایک فیصد بھی نہیں۔ تیار شدہ اشیاءپر کم کردہ شرحوں سے بھی محصولات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان نقائص کو دور کرنے اور محصولات کی مد میں ہونے والے نقصان کو روکنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے گئے ہیں:
SRO 1125 کو منسوخ کر دیا جائے، اس طرح 17 فیصد کی معیاری شرح کو بحال کر دیا جائے۔
ٹیکسٹائل اور چمڑے کی تیار شدہ اشیاءاور تیار شدہ کپڑے کی مقامی سپلائز پر سیلز ٹیکس کو 17 فیصد تک بڑھا دیا جائے تاہم ایسے پرچون فروش جو رئیل ٹائم میں اکاﺅنٹنگ کا انتخاب کریں گے، انہیں ریٹ میں رعایت دی جا سکتی ہے جو 15 فیصد تک ہو سکتی ہے۔
یوٹیلٹیز کی مد میں زیرو ریٹنگ کا خاتمہ، دوسری طرف ان شعبوں میں سیلز ٹیکس کے ریفنڈ کو خودکار بنایا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان پٹس پر ادا کیا گیا سیلز ٹیکس فوری طور پر ریفنڈ ہو۔ ریفنڈ پے منٹ آرڈرز (RPOs) کو فوری طور پر ادائیگی کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھیجا جائے گا۔ جہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ برآمدات کی رقم وصولی کے ساتھ ہی اس ریفنڈ کو ادا کر دیا جائے۔
٭ روئی (Grinned cotton) کو اس وقت سیلز ٹیکس سے exemption حاصل ہے‘ تجویز ہے کہ اس پر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔
سٹیل کے شعبے کے لیے عمومی قانون کی بحالی
اس وقت سٹیل کے شعبے سے سیلز ٹیکس بجلی کے بلوں پر 13 روپے کلو واٹ ہاور کے حساب سے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ billet بنانے کے لیے استعمال ہونے والے سکریپ پر 5600/MT کے حساب سے سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو adjustable ہے۔ شپ بریکرز کے لیے import کیے جانے والے جہاز سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں۔ تاہم جہاز توڑ کر حاصل کی جانے والی شپ پلیٹس پر 9300/MT کے حساب سے ٹیکس نافذ ہے۔ مزید برآں قبائلی علاقوں میں قائم سٹیل انڈسٹری سیلز ٹیکس سے exempt ہے اور دیگر علاقوں کے سٹیل یونٹس ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان پیچیدہ قوانین سے چھٹکارا پانے اور اس شعبے سے پوٹینشل ریونیو حاصل کرنے کے لیے‘ تجویز ہے کہ:
1۔ سپیشل پروسیجر کا خاتمہ کیا جائے اور ان اشیاءکو نارمل ٹیکس قانون کے تحت لایا جائے۔
2۔ rods, ingots, Billet شپ پلیٹس اور دیگر ایسی اشیاءپر سیلز ٹیکس کی صورت میں 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) عائد کی جائے۔
3۔ ان اشیاءپر FED لگانے کی وجہ سے فروخت پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔
4۔ بجلی کے استعمال کی بنیاد پر پیداوار کے حوالے سے کم سے کم standards کا بھی تعین کیا جا رہا ہے۔
CNG ڈیلرز کو گیس سپلائی کی فکسڈ ویلیو میں اضافہ
اوگرا کی جانب سے CNG قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کے بعد سے CNG کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ تاہم اس تناسب سے ٹیکس کی شرحوں کو rationalize نہیں کیا گیا۔ اس لیے تجویز ہے کہ CNG ڈیلرز کے لیے ویلیو ریجن Iکے لیے 64.80 روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر 74.04روپے فی کلو گرام اور ریجن IIکے لیے 57.69 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 69.57 روپے فی کلوگرام کردیا جائے۔ واضح رہے کہ اس اقدام سے سی این جی کی قیمت میں بہت معمولی اضافہ ہوگا کیونکہ سی این جی کی مارکیٹ قیمت اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔
retailers کے قوانین میں تبدیلی
سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے لیے retailers کو مختلف سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سطح Iکے retailers : 17 فیصد یا ٹرن اوور کا 2 فیصد۔ سطح II بجلی کے ذریعے ٹیکس کا نفاذ: تجویز ہے کہ ٹرن اوور ٹیکس کا خاتمہ کردیا جائے۔ سطح I کے retailers کو FBR کے آن لائن سسٹم سے منسلک کردیا جائے گا۔ نظام سے منسلک دکانوں سے اشیاءکی خریداری اور انوائسز طلب کرنے پر 5 فیصد تک سیلز ٹیکس کی واپسی کی صورت میں فائدہ دیا جائے گا۔ ایسی دکان جس کا سائز 1000 مربع فٹ یا اس سے زائد ہوگا اسے بھی سطح I کے retailers میں شامل کیا جائے گا۔
چینی پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ
اس وقت چینی پر 8 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔ اس شعبے میں وسیع معاشی مواقع موجود ہیں لیکن یہاں سے جمع ہونے والا ٹیکس صرف 18 ارب روپے ہے جوکہ اس کے حقیقی پوٹینشل سے بہت کم ہے۔ ٹیکس میں خلاءکو کم کرنے اور اس کے ریٹ کو دیگر اشیاءسے ہم آہنگ کرنے کے لیے تجویز ہے کہ چینی پر سیلز ٹیکس کو بڑھا کر 17 فیصد کردیا جائے۔ تاہم ریٹ میں اس اضافے کے اثر سے صارفین کو جزوی طور پر بچانے کے لیے‘ یہ تجویز ہے کہ چینی کو ان اشیاءمیں سے نکال دیا جائے جن کی غیررجسٹرڈ افراد کو فروخت سے اضافی 3 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں امید ہے کہ چینی کی قیمت میں صرف 3.65 روپے فی کلوگرام اضافہ ہوگا۔
چھٹے شیڈول کے تحت exemptions پر نظرثانی
چکن‘ مٹن‘ بیف اور مچھلی کے گوشت سے semiprocessed اور cookedاشیاءکی کھپت میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اشیاءعمومی طور پر خوشحال افراد کے استعمال میں آتی ہیں‘ تجویز ہے کہ ان اشیاءپر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا جائے۔
کاٹیج انڈسٹری کی exemption
کاٹیج انڈسٹری کی exemption کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہو رہا ہے‘ تجویز ہے کہ مندرجہ ذیل کو شامل کرنے کے لیے اس کی دوبارہ سے تشریح کی جائے‘ یکم جولائی 2019ءسے کاٹیج انڈسٹری سے مراد وہ صنعت ہوگی جو
رہائشی علاقوں میں قائم ہو
جہاں زیادہ سے زیادہ مزدور کام کر رہے ہوں، اور
سالانہ ٹرن اوور بیس لاکھ روپے سے زائد نہ ہو
سونے، چاندی، ہیرے اور زیورات کی سیلز ٹیکس ایکٹ ، 1990ءکے آٹھویں شیڈول میں شمولیت
بہترین عالمی پریکٹس کو بنیاد بناتے ہوئے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے، تجویز ہے کہ سونے ، چاندی، ہیرے اور زیورات کی Local Sale پر قیمتی دھات اور زیورات کی بنوائی کم شرح سے سیلز ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ Jewelers سیلز ٹیکس میں شامل ہو سکیں
سنگ مرمر کی صنعت کیلئے سپیشل پروسیجر
ٹیکس کی موجودہ شرح 1.25 روپے فی یونٹ ہے تجویز ہے کہ اس شعبے میں بھی فروخت پر 17 فیصد کی شرح نافذ کی جائے
ICT قانون میں شامل ہونے والی دفعات
تجویز ہے کہ ایسی خدمات جو صوبائی قوانین میں قابل ادائیگی ٹیکس ہیں اور وہ ICT قانون میں موجود نہیں انہیں ان کے مطابق ICT قانون میں شامل کیا جائے۔ ایسی خدمات جن پر پہلے ہی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ ہے انہیںICT قانون میں شامل نہیں کیا جائے گا تاکہ دوہرے ٹیکس سے بچا جاسکے۔
کاروبار کرنے میں آسانی کیلئے اقدامات
سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990ءکی دفعہ -58 ڈائریکٹرز وغیرہ کو ادا شدہ واجبات کی وصولی کا اختیار
اس اقدام سے ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر کو اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ کمپنی کیلئے ادا شدہ ٹیکس کمپنی سے وصول کرسکے
سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کو سادہ بنانا- کاروبار کرنے میں آسانی
سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے پروسیجر کو آسان بنایا جارہا ہے تاکہ ٹیکس کلکٹرز اور ٹیکس گزاروں کے درمیان رابطہ کم سے کم ہو اور نادرا کے ای سہولت مرکز کے ذریعے سیلز ٹیکس رجسٹریشن ممکن بنائی جاسکے
وفاقی حکومت کے قانون سازی کے بوجھ میں کمی
کابینہ ڈویژن کی ہدایت پر اہم اختیارات وفاقی حکومت کے پاس رہیں گے۔ ایسی تجاویز تیار کی گئی ہیں کہ پروسیجر کے معاملات کے حوالے سے الفاظ ”وفاقی حکومت“ کو ”بورڈ“ یا ”انچارج وزیر کی منظوری سے بورڈ“ سے بدل دیا جائے
ڈی رجسٹریشن اور بلیک لسٹنگ
ٹیکس گزاروں کی سہولت کیلئے ڈی رجسٹریشن کے حوالے سے قواعد میں ترمیم کی جارہی ہے۔ اب ڈی رجسٹریشن کے پروسیس کے دوران گوشوارے فائل کرنا لازمی نہیں ہوگا۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے تجویز ہے کہ ڈی رجسٹریشن کے order پر اپیل کی اجازت دی جائے
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (Federal Excise Duty)
محصولات کے اقدامات
جناب سپیکر!
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کئے گئے ہیں
Fizzy Drinks پر FED میں اضافہ
مختلف اشیاءپر ٹیکس کے ریٹس میں ہم آہنگی کیلئے اور چینی والے مشروبات کی consumption کم کرنے کیلئے کولڈ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 11.25 فیصد سے بڑھا کر 14 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
گھی/کوکنگ آئل پر FED میں اضافے کیلئے نارمل طریقہ کار کی بحالی
بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو ہے۔ producers کو ویلیو ایڈیشن پر ایک روپیہ فی کلو گرام کے حساب سے اور درآمد شدہ خوردنی آئل کی ویلیو ایڈیشن پر 40 روپے فی کلو کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ٹیکسز کی collection حقیقی پوٹیشنل کے مقابلے میں انتہائی کم ہے:اس امر کے باوجود خوردنی تیل کی 27 فیصد پیداوار مقامی ہے۔ مقامی پیداوار پر صرف آدھا ارب ٹیکس وصول ہوا ہے جیسا کہ imports پر اس ٹیکس کی مقدار 42 ارب روپے ہے۔
تجویز ہے کہ خوردنی تیل/ گھی/کوکنگ آئل پر FED بڑھا کر 17 فیصد کر دی جائے اور ویلیو ایڈیشن ٹیکس کے بدلے میں 1 روپیہ فی کلو گرام ٹیکس کو ختم کر دیا جائے نیز خوردنی بیجوں پر رعایتی ریٹس کو بھی ختم کر دیا جائے۔ ایسا گھی/ کوکنگ آئل جو ریٹیل پیکنگ میں کسی برانڈ نام سے فروخت ہوتا ہے تجویز ہے کہ اس پر ریٹیل پرائس 17 فیصد کے برابر سیلز ٹیکس عائد کیا جائے۔ یہ بھی تجویز ہے کہ سیلز ٹیکس موڈ میں نارمل FED قانون کو بحال کیا جائے، جس کے تحت انڈسٹری حقیقی ویلیو ایڈیشن پر FED ادا کرتی ہے۔
نان ایئرئیٹڈ (Non-earated) /فلیورڈ جوسز، سیرپ اور سکوائشز پر FED کا اطلاق
صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریٹیل پرائس کے 5 فیصد کے برابر FED متعارف کروانے کی تجویز ہے۔
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 1.5روپے فی کلو گرام نافذالعمل ہے۔ تجویز ہے کہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھا 2 روپے فی کلوگرام کر دی جائے۔
LNG پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی
LNG کی import پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 17.18 روپے فی 100 مکعب فٹ سے بڑھا کر مقامی گیس کے برابر 10 روپے فی MMBTU کرنے کی تجویز ہے۔
کاروں پر FED
فنانس ضمنی دوسرے ترمیمی ایکٹ 2019ءکے ذریعے 1700 سی سی اور اس سے زائد انجن کیپیسٹی کی حامل گاڑیوں پر 10 فیصد کی شرح سے FED کے سکوپ کو وسیع کیا جائے اور اس تناظر میں مندرجہ ذیل slabs متعارف کروائی جا رہی ہیں، 0 سے 1000 سی سی، 2.5 فیصد کی شرح سے 1001 سی سی سے 2000 سی سی، 5 فیصد کی شرح سے، اور 2001 سی سی اور اس سے زائد پر 7.5 فیصد FED وصول کی جائے گی۔
سگریٹس پر FED میں اضافہ
سگریٹس پر FED متعین ریٹس پر لاگو ہوتی ہے۔ ان شرحوں کو قیمتوں کے لحاظ سے ہر سال بڑھانا پڑتا ہے۔ FED کو مندرجہ ذیل طریقے سے بڑھانے کی تجویز ہے۔ روایتی طور پر سگریٹس کو دو سلیبز میں تقسیم کر کے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے لیکن 2017ءمیں ایک تیسری سلیب بھی متعارف کروائی گئی تھی تاکہ کم قیمت والی غیرقانونی مارکیٹ کو راغب کیا جا سکے، لیکن اس کے مطلوبہ نتائج export نہیں ہوئے۔ بالائی سلیب پر 4500 روپے فی 1000 سٹکس(sticks) سے بڑھا کر 5200 روپے فی 1000 سٹکس(sticks) تک ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ زیریں سلیب کیلئے موجودہ سلیب کو ضم کر کے 1650 روپے فی 1000 سٹکس(sticks) کے لحاظ سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔
تجویز ہے کہ 2018-19ءکے تخمینے 114 ارپ روپے کے مقابلے میں 147 ارب روپے کا ہدف حاصل کیا جائے۔ اس حوالے سے قوت برداشت، لچک وغیرہ کا پوری طرح سے خیال رکھا جائے گا۔
انکم ٹیکس (Income Tax)
جناب سپیکر
International best practices سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکسز معاشی لین دین کی ڈاکیومینٹیشن (documentation) کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس بجٹ کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ڈاکیومینٹیشن کو فروغ دیا جائے اور ان لوگوں سے ٹیکس وصول کیا جائے جو اسے افورڈ کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ ٹیکس ودہولڈنگ اور مفروضوں پر مبنی قوانین سے جمع کئے جائیں۔ جیسا کہ آپ اس فنانس بل میں تجویز کردہ ترامیم کی صورت میں دیکھیں گے کہ عائد ٹیکس سے بچنے کے نیم قانونی کلچر کو فروغ دینے کی بجائے اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ وہ تمام لوگ جن پر قانونی طور پر آمدن کے گوشوارے جمع کروانا لازم ہے وہ گوشوارے جمع کروائیں اور قانون کے مطابق قابل ٹیکس آمدن پر ٹیکسز ادا کریں۔ یہ اس ملک کے ٹیکسیشن کے نظریے میں ایک بڑی اہم تبدیلی ہے۔ ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ وہ تمام لوگ جن پر ٹیکسز لاگو ہوتے ہیں انہیں گوشوارے جمع کروانے چاہیئں اور واجب الادا ٹیکسز ادا کرنے چاہیئں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ٹیکس فائلرز پر بھی اضافی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔ ہم آمدن گوشوارے جمع کروانے کیلئے غیر شخصی بنیادوں پر بہت سادہ اور خود کار طریقہ کار متعارف کروا رہے ہیں۔ ان دو ضروری اقدامات سے ہمارے ٹیکس قانون میں بنیادی نقائص دور ہوں گے۔
مزید برآں بدترین بجٹ پریشر کے باوجود کمپنیوں کےلئے کارپوریٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا تاکہ کارپوریٹائزیشن کو فروغ دیا جا سکے۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کے اندر بزنس مین کی آمدن پر عائد ٹیکس کے ریٹ کو غیر کارپوریٹ سیکٹر میں کاروبار چلانے والے افراد پر عائد ٹیکس ریٹ سے کم رکھا جائے۔
ریلیف کے اقدامات/ کاروبار کرنے کی آسانی
ریفنڈ بانڈز کا اجرائ
رکے ہوئے انکم ٹیکس ریفنڈز کے باعث کاروباری افراد کیلئے پیدا ہونے والے کیش کے مسائل کو دور کرنے کیلئے FBR کی FBR کی ریفنڈ سیٹلمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے ذریعے ٹیکس ریفنڈ بانڈز جاری کرنے کی تجویز ہے۔ ایف بی آر FBR ریفنڈ سیٹلمنٹ کمپنی لمیٹڈ کو پرومیسری نوٹ جاری کرے گا جس میں ریفنڈ کلیم جمع کروانے والے کی تفصیلات اور اسے واجب الادا ریفنڈ کی رقم کی تفصیلات موجود ہوں گی۔ رواں مالیاتی سال کے دوران اس طرح کے ماڈل پر سیلز ٹیکس ریفنڈ کے حوالے سے عمل کیا گیا ہے، اس طریقے سے کاروباری برادری کے خدشات کو کامیابی سے دور کیا گیا ہے۔
گوشوارے جمع کروانے کی مقررہ تاریخ کے بعدATL میں شمولیت
سابقہ حکومت میں قانون میں ایک دفعہ متعارف کروائی ہے جس کے تحت کوئی بھی فرد جس نے مقررہ تاریخ تک ٹیکس گوشوارے نہ جمع کروائے ہوں اس کا نام ٹیکس گوشواروں کی فعال فہرست (Active Taxpayers List) میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کوئی بھی فرد جس نے مقررہ تاریخ کے بعد گوشوارے جمع کروائے ہوں، وہ نان فائلرز ہی شمار ہو گا اور اس پر ٹیکس ریٹ لاگو ہوں گے، یہ ایک ناانصافی تھی اور اس فرد کیلئے بہت پریشانی کا باعث تھی جو گوشوارے جمع کروانے کے باوجود نان فائلرز ہی شمار ہو۔ مقررہ تاریخ کے بعد ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے، اے ٹی ایل میں نام شامل نہ ہونے کی شرط کو ختم کیا جا رہا ہے۔
جائیداد کی خریداری پر پابندی کا خاتمہ
سابقہ حکومت نے یہ پابندی عائد کی تھی کہ کسی نان فائلرز کے نام پر پچاس لاکھ روپے سے زائد کی جائیداد کو رجسٹر یا ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جائیداد کی خریداری پر اس پابندی کے مطلوبہ نتائج export نہیں ہوئے، اس کے ساتھ ساتھ اسے عدالت میں قانونی طور پر چیلنج بھی کر دیا گیا ہے۔ اس لئے غیر منقولہ جائیداد کی خریداری پر عائد یہ پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے۔
نئے گریجوایٹس کو ملازمت فراہم کرنے والے افراد کے لئے ٹیکس کریڈٹ
حکومت کی اس پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نئے گریجوایٹس کو ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں، ایسے گریجوایٹس کو ملازمت فراہم کرنے والے افراد کو ایک نیا ٹیکس کریڈٹ دینے کی تجویز ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق شدہ یونیورسٹیوں اور اداروں سے حال ہی میں گریجوایشن مکمل کرنے والے نوجوانوں کو ملازمت فراہم کرنے والے افرادکو ادا کردہ سالانہ تنخواہ کے حساب سے ٹیکس Rebateدیا جائے گا۔ یہ ٹیکس Rebateکاروباری اداروں کی طرف سے اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی مد میں کلیم شدہ اخراجات کے علاوہ ہو گا۔ ایسے افراد جنہوں نے یکم جولائی 2017ءکے بعد گریجوایشن مکمل کی ہو گی انہیں ٹیکس Rebateکے مقصد کے لئے نیا گریجوایٹس تصور کیا جائے گا۔
ریونیو کے اقدامات
تنخواہ دار اور غیرتنخواہ دار افراد کے لئے ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ
فنانس ایکٹ 2018ءمیں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں طرح کے افراد کے لئے ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں کمی کی گئی تھی۔ اس سے پیشتر قابل ٹیکس آمدن کی کم از کم حد 4لاکھ روپے تھی۔ فنانس ایکٹ 2018ءکے ذریعے اس کم از کم حد کو تین گنا بڑھا کر 12لاکھ روپے کر دیا گیا، اس کے نتیجے میں محصولات کی مد میں 80ارب روپے کا بڑا نقصان ہوا۔ عام طور پر قابل ٹیکس آمدن کی کم سے کم حد اس ملک کی فی کس آمدن کے تناسب سے ہوتی ہے اور اس طرح کے غیر معمولی اضافے کی مثال نہیں ملتی۔ اس لئے تجویز یہ ہے کہ قابل ٹیکس آمدن کی کم سے کم حد پر نظرثانی کر کے اسے تنخواہ دار طبقے کے لئے 6لاکھ روپے اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے 4لاکھ روپے کر دیا جائے۔
تجویز ہے کہ 6لاکھ روپے سے زائد آمدن والے تنخواہ دار افراد کے لئے 11قابل ٹیکس 5 slabsفیصد سے 35فیصد تک کے پروگریسو ٹیکس ریٹس کے ساتھ متعارف کروائے جائیں۔ 4لاکھ روپے سے زائد آمدن والے غیرتنخواہ دار افراد کے لئے آمدن کی آٹھ سلیبز5فیصد ٹیکس ریٹ کے ساتھ متعارف کروائے جائیں۔
کمپنیوں کے لئے ٹیکس ریٹ کا 29فیصد پر تعین
فنانس ایکٹ 2014ءسے قبل کمپنیوں کے لئے ٹیکس کی شرح 35فیصد تھی۔ ٹیکس کی شرحوں میں ٹیکس سال 2014ءسے ٹیکس سال 2018ءتک ہر سال ایک فیصد کمی کر کے اسے 30فیصد تک لایا گیا۔ کمپنیوں کے لئے ٹیکس ریٹ کو2018ءمیں 30فیصد سے ٹیکس سال 2023ءمیں 25فیصد تک کم کرنے کی تجویز تھی۔ اس وقت ٹیکس کی شرح 29فیصد ہے۔ چونکہ ٹیکس ریٹ میں پہلے ہی 35فیصد سے 29فیصد تک نمایاں کمی کی جا چکی ہے اور ملک کے معاشی حالات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے تجویز ہے کہ کمپنیوں کے لئے ٹیکس ریٹ کو اگلے دو سال کے لئے 29فیصد پر فکسڈ کر دیا جائے۔
گفٹ کی وصولی آمدن تصورہو گی
غیر ظاہر کردہ ذرائع آمدن سے اکٹھی ہونے والی دولت کو جوازفراہم کرنے کے لئے استعمال ہونےوالے طریقوں میں سے ایک عام طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری کو کسی گفٹ کی وصولی ظاہر کیا جائے۔ اس حوالے سے ڈیٹا کے تجزئیے سے پتہ چلتا ہےکہ انکم ٹیکس گوشواروں کے مطابق تحائف کی مالیت256ارب روپے سے بھی زائد ہے۔ اس Loopholeکے خاتمے کے لئے تجویز ہے کہ وصول ہونےوالے گفٹ کو دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ تاہم قریبی رشتہ داروں سے وصول ہونے والے تحائف پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔
Brought forward lossesاور depreciationکو سپر ٹیکس کے لئے آمدن کے حساب کے وقت شمار نہیںکیا جائے گا
سپر ٹیکس ایکٹ 2015ءکے ذریعے متعارف کروایا گیا تھا۔ یہ تمام بینکنگ کمپنیوں اور ایسے دیگر افراد پر لاگو ہوتا ہے جن کی آمدن 50کروڑ روپے سے زائد ہو۔ سپر ٹیکس کے لئے واجب الادا رقم کے حساب کے وقت depreciationاور سابقہ کاروباری نقصانات کو شامل نہیں کیا جاتا۔ تاہم بینکنگ کمپنیوں کی صورت میں انہیں شامل کیا جاتا ہے۔ ٹیکس کے حوالے سے ایک جیسے برتاﺅ کو یقینی بنانے کے لئے تجویز ہے کہ بینکوں کے لئے بھی قانون کو دوسرے اداروں کے مطابق کیا جائے۔
ٹیکس کریڈٹ میں کمی اور ٹیکس سال 2019ءکے بعد اس کا خاتمہ
اس وقت ایسے تمام صنعتی ادارے جو توسیع، وسعت، بیلنسنگ، ماڈرنائزنگ اور تبدیلی کے لئے مشینری خریدنے پرسرمایہ کاری کرتے ہیں انہیں مشینری کی قیمت خرید کے 10فیصد کے برابر ٹیکس کریڈٹ کی اجازت ہوتی ہے۔ ٹیکس کریڈٹ کی اس سہولت کو فنانس ایکٹ 2010ءکے ذریعے متعارف کروایا گیا تھااور یہ 30جون 2015ءتک دستیاب تھی۔ اگرچہ یہ سہولت پہلے ہی اپنی افادیت کھو چکی تھی پھر بھی سابقہ حکومت نے اس میں 2021ءتک توسیع کر دی تھی۔ ڈیٹا کے تجزئیے سے پتہ چتا ہے کہ اس ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ کئی ایسی کمپنیوں کی طرف سے بھی آیا ہے جو ان مراعات کے بغیر بھی مشینری پر یہ سرمایہ کاری کرتیں۔ تجویز ہے کہ ٹیکس سال 2019ءکے لئے ٹیکس کریڈٹ کو مشینری کی قیمت خرید کے 10فیصد سے کم کر کے 5فیصد کر دیا جائے اور اس کے بعد اس کریڈٹ کو ختم کر دیا جائے تاہم اس کریڈٹ کی brought forwardایڈجسٹمنٹ جاری رہے گی اور صنعتوں کو initial depreciationکی سہولت بھی میسر رہے گی۔
مقامی رائلٹی پر ٹیکس کی واپسی
کسی بھی non residentشخص کو رائلٹی کی رقم کی ادائیگی پر ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے تاہم کسی residentشخص کو رائلٹی کی رقم ادا کرنے کی صورت میں ایسا ودہولڈنگ ٹیکس نہیں کاٹا جاتا۔ اب مقامی اداروں کی نمو و ترقی میں اضافہ ہو گیا ہے جورائلٹی سے آمدن حاصل کررہے ہیں لیکن ایسے افراد کی حقیقی آمدن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کے لئے یہ تجویز ہے کہ رائلٹی کی مجموعی رقم پر 15فیصد کی شرح سے residentافراد سے ودہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کی جائے۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لئے ٹیکس کی درستگی
فی الحال غیر منقولہ جائیداد پر کیپٹل گین کو جائیداد رکھنے کی مدت کی بنیاد پر علیحدہ طورپرٹیکس لگایا جاتا ہے۔ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ کیپٹل گین سے ہونے والی آمدن پر عمومی ٹیکس کی شرح کے مطابق عام ٹیکس کے نظام کے تحت ٹیکس لگایا جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی تجویز کیا جارہا ہے کہ
1۔ کیپٹل گین کے لئے خالی پلاٹ کی صورت میں دس سال کے اندر فروخت اور تعمیر شدہ مکان کی صورت میں پانچ سال کے اندر فروخت کی مدت مقرر کی جائے۔
2۔ پہلے سال میں فروخت کی صورت میں عام آمدن کے مطابق ٹیکس لاگو ہو گا۔
3۔ سال کے بعد فروخت کی صورت میں تین چوتھائی آمدن پر ٹیکس لیا جائے گا۔
اس وقت اگر غیر منقولہ جائیداد کا ایک خریدار جائیداد کی ڈی سی مالیت اورایف بی آر مالیت کے مابین فرق پر 3فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے تو اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ رقم کے مذکورہ فرق پر سرمایہ کاری کے ذریعے کی وضاحت کرے۔ یہ غیر ظاہر کردہ رقم کو وائٹ کرنے کا ایک مستقل طریقہ ہے جو بین الاقوامی ٹیکس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ تجویز پیش ہے کہ ایسی رقم پر 3فیصد کی شرح پر ٹیکس واپس لے لیا جائے۔
ایف بی آر نے بڑے شہروں میں غیر منقولہ جائیداد کے valuation tableمتعارف کرائے ہیں۔ بورڈ کی طرف سے مشتہر کردہ شرح اب بھی اصل مارکیٹ قیمت سے کافی کم ہے۔ اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیر منقولہ جائیداد کے لئے ایف بی آر کی شرح اصل مارکیٹ قیمت کے قریب ہو یا تقریباً80فیصد لے جائے۔ جیسا کہ غیر منقولہ جائیداد کی ایف بی آر مالیت میں ہونے والے اضافہ سے حقیقی خریدار اور فروخت کنندہ پر ٹیکس لگانے کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ یہ تجویز ہے کہ غیر منقولہ جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2فیصد سے 1فیصد تک کم کر دی جائے۔
اس وقت جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس صرف اس صورت میں لگا جاتا ہے جب جائیداد کی مالیت چار ملین روپے سے زائد ہو۔ اس ٹیکس سے بچنے کے لئے رقم کو توڑ کر چار ملین روپے سے بھی کم کیا جاتا ہے جبکہ جائیداد کی اصل قیمت 4ملین روپے سے زائد ہوتی ہے۔ اس حد کے غلط استعمال کی روک تھام کیلئے جائیداد کی قیمت کا لحاظ رکھے بغیر خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی تجویز دی جارہی ہے۔
ٹیکس، تشخیص اور فعال ٹیکس گزاروں فہرست میں شامل نہ ہونے والوں کے گوشوارے فائل کرنا
نان فائلر کیلئے کاروبار کرنے کی زیادہ لاگت کا تصور سب سے پہلے فنانس ایکٹ 2014 میں متعارف کرایا گیا تھا اور نان فائلرز کیلئے الگ اور زیادہ شرحوں کو مقرر کیا گیا تھا تاہم اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ اب نان فائلر اپنی آمدن کے ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا انتخاب کرسکتا ہے اور اس طرح زیادہ ٹیکس جمع کرانے سے دستبردار ہوسکتا ہے۔ اگرچہ اس اقدام کا مقصد فائلرز کی تعداد کو بڑھانا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس اقدام سے اضافی ریونیو بڑھانے پر توجہ منتقل ہوگئی۔ اس کے علاوہ ایسے افراد جنہیں اپنے گوشوارے جمع کرانے کی ضرورت نہیں تھی یا جنہوں نے ابھی اپنا کاروبار شروع کیا تھا انہیں بھی زیادہ ٹیکس جمع کرانے سے بچنے کیلئے گوشوارے جمع کرانے کی ضرورت تھی۔
اس غلط فہمی کو ختم کرنے کیلئے نان فائلرز زیادہ ٹیکس ادا کرنے اور مخصوص بے قاعدگیوں کو دور کرنے کے ذریعے کسی بھی مصیبت سے بچ سکتے ہیں۔ اس طرح انہیں ”نان فائلر“ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بجائے ایک نئی اسکیم جو ایسے افراد پر توجہ مرکوز کرتی ہے جن کے نام فعال ٹیکس گزاروں کی فہرست ((ATL میں شامل نہیں، متعارف کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ یہ اسکیم اس وقت زیادہ ٹیکس دینے والے نان فائلر کے حوالے سے ایک اہم تبدیلی کی داعی ہے جس میں فعال ٹیکس گزاروں کی فہرست ((ATL میں شامل نہ ہونے پر نہ صرف سزا دی جاتی ہے بلکہ ایسے افراد سے گوشوارے جمع کرانے کیلئے ایک موثر طریقہ کار بھی متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ”دسویں شیڈول“ کے عنوان سے ایک نیا شیڈول قانون میں متعارف کرانے کی تجویز ہے جس میں ان لینڈ روینیو ڈیپارٹمنٹ کا وضع کردہ طریقہ اختیار کرنے کی پیکش کی جائے گی تاکہ ایسے افراد گوشوارے جمع کرائیں جو آمدن تو کماتے ہیں لیکن اپنی آمدن کے گوشوارے جمع نہیں کراتے۔
مخصوص افراد کیلئے حتمی ٹیکس سے کم از کم ٹیکس نظام میں منتقلی
موجودہ نظام کے تحت transactions میں شامل لوگوں کو اپنے اصل منافع پر ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بجائے ترسیلات زر پر جمع کردہ یا منہا کردہ ٹیکس کو ان کی ٹیکس کی حتمی ذمہ داری سمجھا جائے گا چونکہ منہا کردہ ٹیکس ہی حتمی ٹیکس ہوتا ہے اس لئے ایسے افراد آڈٹ کی جانچ پڑتال سے محفوظ رہتے ہیں۔ فی الوقت حتمی ٹیکس کا نظام کمرشل درآمد کنندگان، برآمد کنندگان، اشیا کے کمرشل سپلائرز، ٹھیکیدار، انعامات سے آمدن کمانے والے افراد، پٹرولیم مصنوعات کے فروغت کنندگان، بروکریج یا کمیشن سے آمدن حاصل کرنے والے لوگ اور سی این جی ایسٹیشنز سے کمائی کرنے والے افراد کیلئے دستیاب ہے۔ ایسے افراد کو ٹیکس کے باقاعدہ نظام میں لانے کیلئے ان transactions سے جمع کردہ یا منہا کردہ ٹیکس کو exporters، انعامات جیتنے والوں اور پٹرولیم مصنوعات کے فروخت کنندگان کے علاوہ کم از کم ٹیکس سمجھا جائے گا، یہ اقدام حتمی ٹیکس نظام کو مرحلہ وار نافذ کرنے کی جانب ایک اہم پی رفت ہے۔
dividend سے آمدن حاصل کرنے والے افراد کیلئے ٹیکس کی شرح
dividend سے آمدن پر ٹیکس کو الگ سے شمار کیا جاتا ہے اور یہ عمومی ٹیکس نظام کے تحت آمدن کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔ منافع سے آمدن کیلئے عمومی شرح 15 فیصد ہے جسے بہت کم خیال کیا جاتا ہے کیونکہ منافع پر آمدن حاصل کرنے کیلئے اخراجات نہیں کئے جاتے ہیں۔ فی الوقت منافع پرآمدن پر بہت کم شرح سے ٹیکس لگایا جاتا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ کمپنیاں پہلے ہی مکمل شرح سے ٹیکس ادا کرتی ہیں تاہم ایسی کمپنیاں جو مستثنیٰ ہیں یا دستیاب ٹیکس کریڈٹ اور الاﺅنس کی وجہ سے کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتیں۔ ان کیلئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسی کمپنیوں سے حاصل کردہ منافع سے آمدن پر عمومی ٹیکس کے برعکس 25 فیصد ٹیکس لگایا جاسکتا ہے
عمارات پر initial depreciation کی واپسی
عمارات کی عمومی زندگی کا دورانیہ تیس سال سے زیادہ ہوتا ہے تاہم ہر سال10 فیصد کی شرح سے عمارات کی فرسودگی کی اجازت دی جاتی ہے اور پہلے سال initial depreciation کی 15 فیصد کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ اس طرح عمارت کی کل لاگت کا 25 فیصد فرسودگی کے طور پر پہلے سال کلیم/دعویٰ کیا جاتا ہے جو عمارات کی اصل اور عمومی زندگی کے مکمل طور پر برعکس ہوتا ہے اس لئے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ عمارات پر initial depreciation کے الاﺅنس کو ختم کر دیا جائے۔
قرض پر منافع کی آمدن پر ٹیکس
فی الحال قرض پر منافع کی آمدن پر علیحدہ سے پانچ ملین ، پانچ سے پچیس ملین اور پچیس ملین سے زائد قرض پر منافع پر بالترتیب 10 فیصد، 12.5 فیصد اور 15 فیصد کی شرح پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ متعلقہ منافع پر 15 فیصد،17.5 فیصد اور 20 فیصد کی شرح سے نظر ثانی کرنے کی تجویز ہے۔
قرض پر منافع کی کٹوتی کی شرح پر بھی نظرثانی کرکے 10 فیصد سے 15 فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ مزید برآں مذکورہ بالاالگ شرحوں کا 36 ملین روپے تک قرض پر منافع پر اطلاق ہوگا اور 36 ملین روپے سے زائد قرض پر منافع کی رقوم کل آمدن کا حصہ ہوں گی اور عمومی شرح پر ٹیکس لگے گا۔
ڈیلر کے ذریعے منافع منتقل کرنے سے اجتناب کرنے کے اقدامات
یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ مینو فیکچررز اپنے ساتھیوں کو کمیشن ایجنٹس/ڈیلرز مقرر کرتے ہیں جنہیں وہ اپنے اصل ٹیکس ادا کرنے کی ذمہ داری سے اجتناب کرنے کیلئے زائد کمیشن کی شکل میں اپنے منافع کی رقم منتقل کرتے ہیں۔ اس لئے تجویز ہے کہ سپلائیز کی کل رقم کے 0.2 فیصد سے زائد ادا کردہ کمیشن کی رقم کی اجازت نہیں ہوگی جس تک یہ ڈیلر سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے تحت رجسٹرڈ نہ ہو۔
10 ملین سے 5 ملین روپے کی غیرملکی ترسیل کے ذریعے سرمایہ کاری کے ذریعہ کی وضاحت نہ کرنے کی حد میں کمی
فنانس ایکٹ2018 کے ذریعے 10 ملین روپے کی حد عائد کی گئی تھی تاکہ foreign transactions کی صورت 10 ملین روپے کے sources پوچھنے کی اجازت نہیں تھی چونکہ عام مزدوروں کی remittances کا حجم بہت کم ہوتا ہے اس لئے یہ تجویز ہے کہ foreign remittances کے ذریعے سرمایہ کاری کے ذریعہ کی وضاحت کرنے کیلئے حد 10 کروڑ سے 5 کروڑ روپے کی جائے۔
بینکنگ اور انشورنس کمپنیوں کی اصلاحات
بینکنگ اور انشورنس کے نظام میں تبدیلیاں لائی جارہ ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو ان سیکٹرز کی حقیقی آمدن پر ٹیکس لگانے میں مدد ملے گی
Corrective measures
بینکنگ دستاویز کے ذریعے جائیداد کی خریداری
جائیداد کی خریداری یا فروخت کے لین دین کی اصل قیمت جاننے کیلئے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ غیرمنقولہ جائیداد کی صورت میں 5 ملین روپے سے زائد اور منقولہ جائیداد کی صورت میں ایک ملین یا اس سے زائد کی جائیداد کے لئے ضروری ہوگا کہ اسے بنک چیک کے ذریعے سے خریدا جائے اور اس شرط کے خلاف ورزی کی صورت میں ایسے اثاثوں پر depreciation بھی دستیاب نہیں ہوگی اور capital gain کیلئے اس کی قیمت خرید کو صفر تصور کیا جائے گا
گوشوارے جمع نہ کرانے پر قانونی کارروائی
قانونی کارروائی کے عمل کو آسان بنانے کی تجویز ہے۔ یہ بھی تجویز دی جاتی ہے کہ قانونی کارروائی کیلئے سپیشل جج کی عدالت میں مقدمہ کیا جائے اور مذکورہ شخص کی گرفتاری بھی ممکن ہوسکے گی۔
مخصوص شعبہ جات کیلئے سادہ اور آسان ٹیکس گوشوارے
ٹیکس بیس کووسیع کرنے کیلئے معیشت کے مخصوص شعبہ جات کی جانب سے گوشوارے جمع کرانے اور قابل ادا ٹیکس کے تعین کے حوالے سے قواعد وضو ابط کو آسان اور سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے ایک نئے شعبہ کے قیام کی تجویز ہے جو ٹیکس کے دائرہ کار اور ادائیگی ، ریکارڈ کیپنگ کیلئے مخصوص قواعد وضوابط کی صراحت کرنے، چھوٹے کاروبار، تعمیراتی کاروبار، میڈیکل پریکٹیشنرز، ہسپتال، تعلیمی ادارے اور وفاقی حکومت کی جانب سے بتائے گئے کسی بھی شعبہ کے حوالے سے گوشوارے جمع کرانے اور تشخیص کیلئے طریقہ کار وضع کیا جا سکے گا۔
100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ کرنے کیلئے ٹرسٹ اور ویلفیئر اداروں کی منظو ری
مخصوص شرائط کی تکمیل کے بعد غیر منافع بخش تنظیموں ، ٹرسٹ اور ویلفیئر اداروں کو سو فیصد ٹیکس کریڈٹ دینے کی اجازت ہے۔ قانون کے تحت کمشنر کے ذریعے منظور شدہ غیر منافع بخش تنظیموں(NPOs) کو 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ دینے کی اجازت ہے جب NPOs کی منظوری کی شرط موجود ہو تو ٹرسٹ اور و یلفیئر اداروں کیلئے ایسی شرط کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ ٹرسٹ اور ویلفیئر اداروں کو چاہئے کہ وہ 100 فیصد ٹیکس کریڈٹ کی سہولت حاصل کرنے کیلئے Status NPO کی منطو ری حاصل کریں۔
خود مختار چارٹرڈ اکا¶نٹنٹ سے موازنہ کے ڈیٹا کا حصول
Transfer Pricing کا ایک عمومی طریقہ ہے جس میں sisterکمپنیوں کے ذریعہ سے منافع کم ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں لین دین میں اصل مارکیٹ کی قیمت کو یقینی بنانے کیلئے ڈیٹا کا جامع موازنہ کرنے کی ضرورت ہے چونکہ اس قسم کا ڈیٹا آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا اس لئے تجویز یہ ہے کہ کمشنر کو ایک خود مختار چارٹراکا¶نٹنٹ فرم سے ایسا ڈیٹا حاصل کرنے کیلئے اختیار دینا چاہئے۔
AOP کے رکن سے AOP کے ٹیکس کی وصولی۔
موجودہ قانون کے تحت افراد کی ایسوسی ایشن کے ایک رکن کی جانب سے قابل ادا ٹیکس ایسوسی ایشن سے وصول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس، افراد کی ایسوسی ایشن کی طرف سے قابل ادا ٹیکس اس کے رکن سے وصول نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنانے کیلئے یہ تجویز ہے کہ جہاں افراد کی ایسوسی ایشن کی جانب سے قابل ادا ٹیکس کسی بھی فرد سے وصول کیا جا سکتا ہے جو ایسوسی ایشن کا رکن ہو۔
آڈٹ اور تشخیص کی علیحدگی
یہ تجویز پیش کی جاتی ہے کہ آڈٹ کی تکمیل اور آڈٹ رپورٹ کے اجراءکے عمل کو آڈٹ کی بنیاد پر آمدن کی تشخیص سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ قانون کے تحت آڈٹ اور تشخیص کی شرائط کو الگ کرنے کے ذریعے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ آڈٹ اور تشخیص کے فرائض کار الگ اور خود مختار افسران کے ذریعے انجام دیئے جائیںگے تاکہ ٹیکس گزاروں سے غیر جانبدار رویہ کو یقینی بنایا جائے۔
کاروبار میں شریک افراد کیلئے کاروباری لائسنس
فی الوقت صرف ٹیکس گزاروں کو چاہئے کہ وہ ٹیکس کے مقاصد کے تحت بورڈ سے رجسٹرڈ ہوں۔ کاروبارسے آمدن حاصل کرنے والے افراد جو ٹیکس کے زمرے میں
نہیں آتے انہیں رجسٹرڈ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایک قابل اعتماد ڈیٹا بیس تشکیل دینے کیلئے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ کاروبار سے آمدن کمانے والے ہر ایک شخص حتیٰ کہ ٹیکس سے زمرے سے کم ہو اسے چاہئے کہ وہ نادرا سہولت مراکز کے ذریعے بورڈ سے کاروباری لائسنس حاصل کریں۔ واضح رہے کہ اس اقدام کا مقصد کم آمدن والے کاروبار سے گوشوارہ اور ٹیکس لینا نہیں بلکہ قومی معیشت کی documentationکرنا ہے۔
اختتامی کلمات
حکومت ملک کو مالیاتی مشکلات سے نکالنے کی پوری کوشش کر رہی ہے جبکہ یہ مشکل کسی اور کی لائی ہوئی ہے۔ ایک آسان راستہ تو یہ بھی تھا کہ ہر مقامی اور بین الاقوامی ذریعے سے بہت سا قرضہ پکڑ لیا جاتا مگر حکومت جلد بازی کے حل نہیں چاہتی بلکہ ہم نے ملک کی خاطر مشکل راہ کا انتخاب کیا ہے جیسا کہ پہلے کہا گیا ہم نے مالی انتظام کے ہر شعبے جیسے Macro Policy Reform سے لے کر Business Flow تک اور قرض کی وسط مدتی پالیسی تک ہر معاملے کا احاطہ کیا ہے۔ پہلا ایک آدھ سال سخت ہوگا مگر پھر پائیدار بنیادوں پر ہماری محنت کا پھل ملنا شروع ہو جائے گا جس کا فائدہ سب لوگوں کو ہوگا جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا ہے ” یقین، نظم، اور کام کی لگن کے ساتھ ایسا کچھ نہیں جو آپ حاصل نہ کر سکیں“