مولانا فضل الرحمن کا دھرنہ بے وقت کی راگنی ہے، وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر بھرپور انداز میں اجاگر کرنا ملک دشمن عناصر کو ہضم نہیں ہوا، وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کا بیان

170

اسلام آباد ۔ 23 اکتوبر (اے پی پی) وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنہ بے وقت کی راگنی ہے، وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں جس پرزور انداز میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا وہ ملک دشمن عناصر کو ہضم نہیں ہوا، مولانا بھی ان میں سے ایک ہیں، مولانا کے دھرنے کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹا کر دھرنے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش ہے، ایسا صرف ملک دشمن اور کشمیر کی آزادی کے مخالفین ہی کر سکتے ہیں۔ بدھ کو اپنے بیان میں وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا کہ ہر سال کشمیری عوام 27 اکتوبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں، حکومت پاکستان نے بھی اس سال کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ 27 اکتوبر کو یوم یکجہتی منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کا مقصد مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانا ہے، مولانا کے دھرنے کا مقصد قطعی طور پر ملک دشمنی اور کشمیر دشمنی کے مترادف ہے، حالات کی سنگینی یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت خلاف ورزیاں کر رہا ہے جس میں عام شہری شہید ہو رہے ہیں ،ایسے وقت میں یکجہتی کی بہت ضرورت ہے ۔غلام سرور خان نے سوال کیا کہ کیا دشمن کے ساتھ اس کشیدگی کے موقع پر دھرنے کی ضرورت ہے؟اس دھرنے کے تحت ملک کو کمزور کرنے کی سازش کی جارہی ہے، اس دھرنے کا فائدہ بھارت کو براہ راست ہوگا اور دوسری جانب میڈیا اور سوشل میڈیا کشمیر ایشو کی بجائے دھرنے پر متوجہ ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے رواں ماہ اکتوبر کی 27تاریخ کو حکومت کے خلاف بلاجواز  ‘آزادی مارچ’ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ہر سال اسی روز 27اکتوبر کو کشمیری عوام بھارت کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے بھی اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 27اکتوبر کوملک بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ مولانا فضل ا لرحمان اسی روز آزادی مارچ منانے جا رہے ہیں جو ان کی حب الوطنی اور کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ محبت کے دوہرے معیار کا واضح عکاس ہے۔وزیراعظم عمران خان نے بین الاقوامی فورم پر جس طرح اسلام کا مقدمہ لڑا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور شاید یہی بات مولانا کو ہضم نہیں ہو پا رہی۔