اسلام آباد ۔ 10 جون (اے پی پی) کاروباری برادری کا پاکستان اسٹیل ملز میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے حکومتی فیصلے کاخیر مقدم، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ملک میں صنعتکاری خصوصاً اسٹیل کے شعبہ میں تبدیلی کی بنیاد ہے، کاروباری برادری نے پاکستان اسٹیل ملز کے 9 ہزار 300 ملازمین کی فراغت کے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ملک میں صنعتکاری خصوصاً اسٹیل کے شعبہ میں تبدیلی کی بنیاد ہے۔ بدھ کو ایک بیان میں یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے چیئرمین افتخار علی ملک نے کہا کہ نجکاری وقت کی ضرورت ہے کیونکہ حکومت کا کردار اچھی قانون سازی اور اصلاحات تک محدود ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیل مل کے مجموعی نقصانات اور واجبات 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں جبکہ پاکستان سٹیل میں کام نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو سٹیل کی درآمدات کی مد میں زرمبادلہ کی صورت میں سالانہ 2.5 ارب ڈالر کے خسارہ کا سامنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سٹیل کو صرف پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ہی منافع بخش ادارہ بنایا جا سکتا ہے۔ افتخار ملک نے کہا کہ ہمارے ملک کی تقریبا ً11 کروڑ آبادی 25 سال سے کم عمر ہے اور ہر سال 30 لاکھ نوجوان افرادی قوت میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان کارکنوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے ہمیں 10 فیصد سالانہ شرح نمو کی ضرورت ہے جبکہ موجودہ شرح نمو کے باعٹ 20 لاکھ نوجوان ہر سال بے روزگاروں میں شامل ہوں گے اور اگر نوجوانوں کو روزگار نہ ملے تو وہ منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سرکاری شعبہ کا ترقیاتی پروگرام جی ڈی پی کے تین فیصد سے بھی کم ہے جبکہ انفراسٹرکچر کو مطلوبہ سطح پر اپ گریڈ کرنے کے لئے ہمیں جی ڈی پی کے 10 فیصد کے مساوی سالانہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور یہ نجی شعبہ کے اشتراک سے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہی ممکن ہے۔ کوریا ، جاپان اور چین انفراسٹرکچر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بہترین مثالیں ہیں۔ افتخار ملک نے پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کے معاملہ پر حکومت کی مخالفت بند کریں کیونکہ یہ مخالفت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ حکومت پاکستان سٹیل کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی پر ماہانہ 700 ملین روپے خرچ کر رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے دور میں 2015ء میں پاکستان سٹیل ملز بند ہونے کے بعد سے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں اب تک 35 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان کے معاشی وژن کی تعریف کرتے ہوئے افتخار علی ملک نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت اپنا کردار مالک اور آپریٹر سے تبدیل کر کے پالیسی ساز کا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سٹیل ایک سفید ہاتھی ہے اور ایسے وقت میں جب ملک کی معاشی صورتحال خراب ہو رہی ہے اس سے چھٹکارا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے اور اس حوالہ سے وزیر اعظم عمران خان کا کردار قابل تعریف ہے۔ انہوں نے معاشرے کے تمام طبقات پر زور دیا کہ وہ آگے بڑھیں اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے بعد کا دور پاکستان کے کیلئے بڑا چیلینجنگ ہوگا لیکن اس میں معیشت کی ترقی کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔ اگر نجی شعبہ وسط ایشیائی ریاستوں ، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں قریبی روابط قائم کرے اور حکومت اس ضمن میں حائل تجارتی رکاوٹوں کو دور کرکے برآمدی صنعت کو معاونت فراہم کرے تو حالات کے معمول پر آنے کے بعد پاکستان اپنی برآمدات میں نمایاں اضافہ کو یقینی بنا سکتا ہے۔