مشیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ کا قومی اقتصادی سروے کے اجراءکے موقع پر عبدالرزاق داود، مخدوم خسروبختیار، حماد اظہر، اسد عمر، ڈاکٹرثانیہ نشتر اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب

133

اسلام آباد ۔ 11 جون (اے پی پی) وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ و محصولات ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ حکومت نے مالیاتی ڈسپلن کو قائم رکھتے ہوئے سخت انداز میں حکومتی اخراجات کو کم کیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار پرائمری بیلنس مثبت ہو گیا ہے، معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کیلئے وسائل کی فراہمی وزیر اعظم عمران خان کا وژن ہے، اسی وژن کے تحت حکومت نے احساس پروگرام کے بجٹ میں دوگنا اضافہ کیا، حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں ٹیکس آمدنی میں 17 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، اگر وباءنہ پھیلتی اور اسی طرح معاملات چلتے تو ٹیکس آمدنی میں 27 فیصد اضافہ متوقع تھا، محصولات اکھٹاکرنے میں 750 سے لیکر800 ارب روپے کے خسارہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جی ڈی پی کی شرح نمو منفی صفر اعشاریہ چار فیصد رہی، صنعت منفی دو اعشاریہ چھ چار فیصد ہے، زراعت دو اعشاریہ چھ چار فیصد، خدمات کا شعبہ منفی تین اعشاریہ چار فیصد، ٹرانسپورٹ منفی سات اعشاریہ ایک فیصد اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ کی کارگردگی منفی بائیس اعشاریہ نو فیصد رہی، مالی خسارہ جی ڈی پی کا چار فیصد رہا۔ جمعرات کویہاں قومی اقتصادی سروے کے اجراءکے موقع پر مشیرتجارت عبدالرزاق داود، وفاقی وزیراقتصادی امورمخدوم خسروبختیار، وفاقی وزیرصنعت وپیداوار حماد اظہر، وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسدعمر،وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹرثانیہ نشتر، چئیرپرسن ایف بی آر نوشین جاویدامجد اورسیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتصادی بحران ورثے میں ملا تھا، اقتدارسنبھالتے وقت برآمدات میں جمود تھا، زرمبادلہ کے ذخائر صرف 9ارب ڈالر رہ گئے تھے، حکومت کیلئے معیشت کو چلانا مشکل ہوگیا تھا ، پاکستان پرقرضوں کا بوجھ 30000 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ ان مشکل حالات میں حکومت نے مالیاتی نظم وضبط کو برقراررکھتے ہوئے مشکل فیصلے کئے ، حکومت نے برآمدات کے فروغ پرتوجہ دی، اس مقصد کیلئے برآمدی شعبہ کو مراعات دی گئیں ۔ حسابات جاریہ کے خسارہ کو 20 ارب ڈالر سے کم کرکے رواں سال اسے تین ارب ڈالر کی سطح پر لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے، رواں سال پانچ ہزار ارب روپے کے قرضوں کی واپسی کی گئی ہے ، حکومت نے مالیاتی ڈسپلن کو قائم رکھتے ہوئے سخت انداز میں حکومتی اخراجات کو کم کیا اورملکی تاریخ میں پہلی بار پرائمری بیلنس مثبت ہوگیاہے، حکومت نے سٹیٹ بنک سے قرضہ نہ لینے کی پالیسی اپنائی ، گزشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے سٹیٹ بنک سے ایک روپیہ قرضہ نہیں لیا۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے کہاکہ حکومت نے عوام کی فلاح کیلئے وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے ضمن میں محصولات کے نظام میں بہتری کیلئے کام کیا، حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں ٹیکس آمدنی میں 17 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم کورونا وائرس کی وباءکی وجہ سے محصولات اکھٹاکرنے میں مسائل پیدا ہوئے ، اگریہ وباءنہ پھیلتی اور اسی طرح معاملات چلتے تو ٹیکس آمدنی میں 27 فیصد اضافہ متوقع تھا ۔ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ حکومت نے تجارت اورسرمایہ کاری کے فروغ کیلئے جامع انداز میں کام کیا، تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ، حکومت نے برآمدات میں اضافہ کیلئے برآمدکننگان کو سہولیات دیں۔ انہوں نے کہاکہ معاشرے کے غریب اورکمزورطبقات کیلئے وسائل کی فراہمی وزیر اعظم عمران خان کا وژن ہے ، اسی وژن کے تحت حکومت نے کمزور طبقہ پر خصوصی توجہ دی، کم اورمحدودوسائل کے باوجود حکومت نے معاشرے کے غریب اورکمزورطبقہ کیلئے احساس پروگرام کے بجٹ میں دوگنا اضافہ کیا اور پروگرام کے بجٹ کو90 ارب روپے سے بڑھا کر 192 ارب روپے تک پہنچا دیا گیا۔ حفیظ شیخ نے کہاکہ حکومت نے سابق قبائلی علاقہ جات کیلئے 152 ارب روپے مختص کئے۔ نان ٹیکس آمدنی میں اضافہ کیلئے جامع اقدامات کئے گئے اور گزشتہ سال اس ضمن میں 1100 ارب روپے کی بجائے 1600 ارب روپے اکھٹے کئے گئے ۔ وزیراعظم کے مشیرنے کہاکہ کورونا وائرس کی وباء سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے، آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے کہ اس وباءسے ترقی پزیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، و باءکی وجہ سے عالمی طلب کم ہونے سے پاکستانی برآمدات میں کمی آئی، اس وباءسے سے ملک کے مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی) کو تین ہزار ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا، وباءسے جی ڈی پی میں تین سے ساڑھے تین فیصد کے نقصان کا اندازہ ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وباءکی وجہ سے پاکستان میں محصولات اکھٹاکرنے میں مشکلات کا سامناکرنا پڑاہے، ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4700 ارب روپے کی بجائے 3900 ارب روپے تک رہی، محصولات اکھٹاکرنے میں 750 سے لیکر800 اب روپے کے خسارہ کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔اس ماحول میں حکومت مزید بوجھ عوام پر نہیں ڈالنا چا ہتی بلکہ حکومت کوشش کررہی ہے کہ کاروبار اورلوگوں کوسہولیات فراہم کی جائے تاکہ معیشت کا پہیہ دوبارہ سے چل سکے۔وزیراعظم کے مشیر نے کہاکہ کورونا وائرس کی وباء سے معیشت اور لوگوں کو بچانے کیلئے حکومت نے جامع اقدامات کئے ، شہریوں اورکاروبارکے فروغ اورتحفظ کیلئے وزیراعظم نے 1240 ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا، اس کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک کے ذریعہ کاروبار کو چلانے کیلئے کئی پروگرام شروع کئے گئے ، وباءکے معاشی اثرات کے ضمن میں ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں کو فی خاندان بارہ ہزار روپے کی نقد امداد دی جارہی ہے ، ابھی تک ایک کروڑ خاندانوں کو پیسے دئے جاچکے ہیں، یہ دنیا بھر میں نقدامداد کا سب سے بڑا پروگرام ہے اور پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ پاکستان نے اپنے شہریوں کی بلا امتیاز مدد کی ہے، اس پروگرام سے مجموعی طورپر کل دس کروڑ پاکستانی شہریوں کو فائدہ ہواہے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے بھی اقدامات کررہی ہے، حکومت نے گندم کی خریداری کیلئے دو سو اسی ارب روپے مختص کئے ، یہ رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنی ہے، کسانوں کی فلاح کیلئے گندم خریداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ حکومت نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کا روبارکی ترقی کیلئے بھی اقدامات کیے ، اس ضمن میں چھوٹی صنعتوں کیلئے تین ماہ کی بجلی کی قیمت حکومت دے رہی ہے ، حکومت نے بل موخر نہیں کئے بلکہ ان کی ادائیگی کررہی ہے تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو بحال کرنے میں مدد ملے ، اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے فروغ اورکسانوں کی فلاح کیلئے پچاس ارب کی خصوصی سکیم لائی گئی، یوٹیلیٹی سٹورز کو ایک کروڑ خاندانوں تک رسائی دینے کی ہدایت کی گئی ، اس ضمن میں یوٹیلیٹی اسٹورز کیلئے مزید پچاس ارب روپے مختص کئے گئے، یہ رقم کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کیلئے خرچ کی گئی، گزشتہ رمضان میں اٹھائیس ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ انہوں نے کہاکہ نیا پاکستان ہاوسنگ سکیم کے تحت کمزور طبقہ کو گھر بنانے میں سہولت کیلئے 30 ارب روپے رکھے گئے، اس سکیم کے تحت ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ، تعمیراتی شعبے کیلئے مکمل پیکج دیا گیا، شعبے کیلئے ٹیکسوں کو کم کیا گیا، تعمیرات کے ضمن میںچھوٹی آمدنی والے لوگوں کیلئے کم ٹیکس میں بھی 90 فیصد چھوٹ دی گئی۔ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ مالی سال کے آخری مہینوں میں ریونیو زیادہ اکھٹا ہوتا ہے مگر کورونا نے تمام معاملات الٹا کردیے ہیں۔ معیشت کے مختلف اشاریوں میں کمی بیشی کے تخمینوں سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ مختلف اداروں کے تخمینوں میں فرق کی وجہ ہے کہ ہر ادارہ اس وبا سے اپنے انداز میں اندازہ لگا رہا ہے، سٹیٹ بنک، پائیڈ، وزارت خزانہ ہمارے اپنے ادارے ہیں اور یہ پیشہ ورانہ طور پر تخمینہ لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے کہاکہ مالی سال میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 88 فیصد رہی ، موجودہ حکومت نے جو قرضے لئے ہیں وہ زیادہ ترماضی کے قرضوں اورسود کی ادائیگی کیلئے لئے ہیں،تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے سال کے دوران پانچ ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کئے ، آنیوالے مالی سال میں مزید تین ہزار ارب روپے واپس کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ مورگیج کی ادائیگی کیلئے حکومت نے تیس ارب روپے رکھے ہیں، کم آمدنی والے لوگوں کیلئے گھروں کی تعمیر کیلئے لینڈ بنکس بنائے جائیں گے۔ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کلیدی معاشی اشاریوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمو منفی صفر اعشاریہ چار فیصد رہی، صنعت منفی دو اعشاریہ چھ چار فیصد ہے، زراعت دو اعشاریہ چھ چار فیصد، خدمات کا شعبہ منفی تین اعشاریہ چار فیصد، ٹرانسپورٹ منفی سات اعشاریہ ایک فیصد اور مینوفیکچرنگ کے شعبہ کی کارگردگی منفی بائیس اعشاریہ نو فیصد رہی، مالی خسارہ جی ڈی پی کا چار فیصد رہا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی کوشش ہے کہ اگلے بجٹ میں لوگوں کو مزید مراعات دی جائے ، سماجی تحفظ کے پروگراموں کو مزید فروغ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کوشش کریں گے کہ کوئی نیاٹیکس عائد نہ ہو اور لوگوں کو اقتصادی مراعات دی جائیں، انہوں نے کہاکہ ہمیں اداروں کی کارکردگی کو بڑھانا ہوگا، معلومات اکھٹا کرنے کے معیار میں بہتری لانا ہوگی ۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ دو سو ممالک نے مل کر آئی ایم ایف کو بنایا ہے اور اس کو بنانے کا مقصد مالی استحکام یقینی بنانا ہے، آئی ایم ایف ایک بنک کی طرح کام کرتاہے اور ہر بنک کی طرح وہ چاہتے ہیں کہ جس کو وہ قرضہ دے رہے ہوں وہ ملک قرضہ واپس کرسکے، کورونا وائرس میں سب سے پہلے آئی ایم ایف نے ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر کی معاونت فراہم کی ہے، اسی طرح کاروبار اور تعمیرات کو مراعات دینے میں بھی آئی ایم ایف نے ہماری مدد کی، ہم نے ان سے تعلق اپنے فائدے کیلئے جوڑا ہے، تاکہ دنیا دیکھے کہ پاکستان مالی نظم و نسق سے چلتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنے اخراجات کم کریں گے، برآمدات بڑھائیں گے، لوگوں پر اخراجات بڑھائیں گے یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ ملکی تاریخ میں پہلی بارآمدنی سے اخراجات کم رہے ہیں، یہ بہت مشکل کام تھا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کے عوام کے نمائندہ ہیں، عوامی فلاح وبہبود اورملکی ترقی وخوشحالی ان کا وژن ہے، اسی وژن کے تحت سماجی تحفظ کے پروگراموں میں وسعت لائی گئی ۔ ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے شرح تبادلہ کے پورے نظام میں استحکام متعارف کرایا، ماضی میں مصنوعی بنیادوں پر ڈالر کو سستا رکھا گیا جس کی وجہ سے درآمدات اورحسابات جاریہ کے ایک بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ابکئی مہینوں سے شرح تبادلہ میں استحکام ہے۔ حکومت کے اقدامات کے نتیجہ میں ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ایک سو ستائیس فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس ریونیو کا ہدف ایک ہزار ایک سو ارب تھا، اس ہدف کے مقابلے میں پانچ سو ارب روپے اضافی جمع کئے گئے۔قرضوں سے متعلق سوال پرانہوں نے کہاکہ 2019ءمیں ساڑھے سات ہزار ارب روپے کے قرضے لئے گئے جن میں سے پندرہ سو ارب روپے اخراجات جبکہ بقیہ ماضی کے قرضے واپس کرنے کیلئے لئے گئے، انہوں نے کہاکہ قرضے بڑھنے کی بنیادی وجہ شرح تبادلہ ہے ،حکومتی اخراجات کی وجہ سے قرضے نہیں بڑھے۔