اسلام آباد ۔ 24 جون (اے پی پی) پی آئی اے طیارہ حادثہ کی عبوری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔اس حادثہ میں جاں بحق ہونے والے 90 مسافروں کے اہل خانہ کو دس لاکھ روپے فی کس دے دیئے گئے ہیں،اس حادثہ میں 29 گھر مکمل تباہ ہوئے، مکمل رپورٹ بھی اس ایوان میں پیش کی جائے گی’ ڈپٹی سپیکر نے رپورٹ قائمہ کمیٹی کو بھجوادی۔بدھ کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے ایوان میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طیارہ حادثہ میں 97 افراد شہید ہوئے، اسی رات ایک ٹیم تشکیل دی جو سینئر ترین افراد پر مشتمل بورڈ تھا ۔ اسی رات یہ بورڈ کراچی پہنچا اور اس نے اپنی تحقیقات کا آغاز کردیا۔ بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ 72 سالوں میں 12 واقعات ہوئے ہیں۔ سابق تمام حادثات کی بروقت انکوائری ہوئی نہ رپورٹ سامنے آئی’ نہ حقائق عوام تک پہنچے۔ آج تک عوام اور مرنے والوں کے لواحقین میں تشنگی جاری رہی کہ ان واقعات کے ذمہ دار کون تھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی اور کورونا وائر س کی وبا کی صورتحال کے باوجود انکوائری بورڈ نے احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کئے۔ انہوں نے کہا کہ جس کمپنی نے جہاز بنایا وہ، حکومت فرانس کا نمائندہ اور ایک امریکی بھی اس میں موجود تھا ۔ دس غیر ملکی افراد میں سے چار ملکی افراد تھے جبکہ پائلٹ بھی سٹیک ہولڈرز تھے اس لئے اس بورڈ کو بڑھایا۔ اس انکوائری بورڈ میں ایئر بلیو کے دو پائلٹ جو اے تھری جہاز اڑاتے تھے انہیں شامل کیا گیا ۔ بین الاقوامی پائلٹ ایسوسی ایشن کو خط لکھا ایک اے تھری پائلٹ اور ٹیکنیشن بھجوایا جائے تاکہ اس کی شفاف تحقیقات ہوسکیں۔ اے تھری کا سب سے بڑا نیٹ ورک ترکش کمپنی کے پاس ہے اسے شامل کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ بالکل شفاف اور غیر جانبدار انکوائری ہورہی ہے اور اس کی عبوری رپورٹ آج ایوان میں پیش کررہے ہیں۔ مکمل رپورٹ بھی اس ایوان کی سامنے پیش کی جائے گی۔ غلام سرور خان نے کہا کہ تمام تر وجوہات، محرکات اور معاوضے کی تفصیلات اس میں شامل ہوں گی۔ 29 گھر اس حادثہ میں مکمل تباہ ہوئے۔ ان کا ازالہ بھی کیا جائے گا، متاثرہ افراد کو متبادل رہائش گاہیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ کسی کے دکھوں کا مداوا اللہ کے سوا کوئی نہیں کرسکتا مگر جس حد تک ہم کرسکتے تھے وہ کرنے کی کوشش کی۔ جو افراد جاں بحق ہوئے ان میں 90 افراد کو فی کس 10 لاکھ روپے فراہم کیے گئے ہیں ۔ ایک گھر کی بچی بھی شہید ہوئی اس کو بھی معاوضہ دیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بد قسمت طیارہ فضائی پرواز کے لئے سو فیصد ٹھیک تھا۔ طیارے میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں تھا ۔ سات مئی کو اس طیارے نے پہلی پرواز کی۔ پانچ پروازیں لاہور کراچی، کراچی لاہور کے لئے تھیں۔ ایک پرواز شارجہ کے لئے تھی۔ انہوں نے کہا کہ پائلٹ اور معاون دونوں طبی طور پر صحت مند تھے۔ پائلٹ نے کسی تکنیکی خرابی کی نشاندہی نہیں کی۔ رن وے پر لینڈ کرنے کے وقت جہاز کو 2500 فٹ کی اونچائی پر ہونا چاہیے تھا۔ رن وے سے دس ناٹیکل میل پر لینڈنگ گیئر کھولے گئے۔ لینڈنگ سے قبل جہاز کی اونچائی 7500 فٹ تھی۔ پائلٹ کی اس جانب توجہ مبذول کروائی گئی۔ جہاز کا انجن تین بار رن وے پر رگڑیں کھاتا ہے’ اس کے بعد پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ اٹھا لیا ۔ اس معاملے پر کوتاہی کنٹرول ٹاور کی بھی تھی۔ جہاز جب دوبارہ ٹیک آف کیا تو انجن میں خرابی پیدا ہوچکی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں وہ جہاز کے گرنے کے بعد ہوئیں۔ بچنے والے شخص نے سب سے پہلے اپنی ماں سے بات کی۔ پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریقہ کار کو مد نظر نہیں رکھا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے پی آئی اے سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا ۔ بدقسمتی سے چار پائلٹس کی ڈگریاں جعلی نکلی تھیں۔ سیاستدان، سرکاری اداروں میں بہت سے اداروں میں جعلی ڈگریوں کے کیس آئے۔ پاکستان میں ایل ٹی وی اور ایچ ٹی وی لائسنس کے لئے کسی امتحان کی ضرورت نہیں، صرف پیسے سے لائسنس مل جاتا ہے ۔ کتنے بس حادثے ہوئے، آج تک کسی ڈرائیور کو سزا نہیں ہوئی۔ اگر کسی کے خلاف مقدمہ چلے تو وہ بری بھی ہوجاتا ہے۔سید نوید قمر نے کہا کہ جب بھی کوئی رپورٹ ایوان میں پیش ہوتی ہے وہ قائمہ کمیٹی کو بھیجی جاتی ہے ۔ ڈپٹی سپیکر نے پیپلز پارٹی کے رکن کی نشاندہی کے بعد رپورٹ قائمہ کمیٹی کو بھیج دی۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا کہ جس فورم پر چاہیں گے جوابدہی کے لئے حاضر ہیں۔