نئی دہلی ۔ 3 اگست (اے پی پی) بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے ایک سال قبل آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو یہ سمجھ کر منسوخ کیا تھا کہ شاید یہ جموں وکشمیر کے تمام مسائل کا تریاق ثابت ہو گا اور وہاں کی معیشت شاندار ہوجائے گی مگر ایک سال بعد نہ صرف معیشت کونا قابل تلافی نقصان ہوا ہے بلکہ کشمیریوں میں احساس محرومی، مایوسی اور اپنی شناخت کھونے کا خوف ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار بھارتی اخبار ”دی ہندو“ میں انندو بھگتو نے اپنے ایک تحقیقی آرٹیکل میں کیا ہے ،جس کا عنوان” کشمیر کی ختم نہ ہونے والی اذیت ( کشمیر کی زمینی صورتحال )“ ہے ۔ انہوں نے لکھا کہ گزشتہ سال 5 اگست کو نریندر مودی کی حکومت نے جموں و کشمیر میں ان مراعات کا خاتمہ کیا ہے جس کی ضمانت بھارتی آئین میں دی گئی ہے۔ نریندرا مودی نے یہ اقدام اس خیال سے اٹھایا کہ شاید اس طرح جموں وکشمیر سے مزاحمت کا خاتمہ ہوسکے گا ۔بھارتی حکومت نے یہ دلیل بھی دی کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی وجہ سے وہاں معاشی تعمیر و ترقی نہیں ہو رہی اور نجی سرمایہ کار وہاں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں مگر ایک سال گزرنے کے باوجود مقبوضہ وادی کے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی معیاری تبدیلی نہیں آئی ۔درحقیقت اگست 2019 اور دسمبر 2019کے دوران 2.4 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور لوگوں کو بھارت کی سیاسی یلغار کے خلاف غم و غصہ کے اظہار سے روکنے کے لئے پوری مقبوضہ وادی میں سخت کرفیو لگا دیا گیا ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا ایک اور مقصد فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی اجارہ داری کا خاتمہ بھی تھا ۔ اکتوبر 2019 میں عالمی سرمایہ کار کانفرنس ملتوی کی گئی کشمیر کے لوگوں نے بھارتی وزیراعظم کی اس منطق پر تنقید کی کہ آرٹیکل 370 مقبوضہ وادی کے لئے بنیادی معاشی مراعات کی توسیع میں رکاوٹ تھا۔ سری نگر کی ایک مارکیٹ کے تاجروں نے بتایا کہ اگست 2019میں اشیاءاور خدمات پر ٹیکس عائد کئے گئے اور اوبرائے اور تاج جیسے بڑے بزنس ہاﺅسز پر قبضہ کر لیا گیا ، کئی عشروں تک انتہا پسند ہندو تنظیموں راشٹریا سوام سیوک سنگھ اور بی جے پی یہ پراپیگنڈا کرتی رہی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اقلیتی کمیونیٹیز کو غیر ضروری طور نوازا جا رہا ہے اور ہندوﺅں کو اس سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ جب نریندرا مودی مئی 2019 میں اقتدار میں آیا تو اس نے کشمیر کو ہندوﺅں کی ایک مقدس سرزمین قرار دیا، مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی ایجیتا مفتی نے کہا کہ مودی کے منصوبہ کا مقصد بھارتی کی سب سے بڑی مسلم اکثریتی ریاست میں بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈا کو مسلط کرکے سیاسی مفاد حاصل کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت بی جے پی کے منصوبہ کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی کے دعوے کہاں ہیں ، کشمیریوں کو سرکاری ملازمتوں اور انتظامی عہدوں سے برطرف کیا جارہا ہے، غیر ریاستی افراد کومعدنی شعبہ کے ٹھیکے دیئے جارہے ہیں ، مقبوضہ کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھارتی اقدام کو یکسر مسترد کردیا ہے نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے اسے پوری مقبوضہ وادی کو فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کرنے کی ایک سازش قرار دیا جہاں بھارتی فوجی پہلے ہی 21400 ایکڑ اراضی پر قابض ہیں۔