نیویارک ۔ 4 اگست (اے پی پی) بھارتی غیر مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک سال سے جاری غیر قانونی بھارتی فوجی محاصرے نے مزید تشدد اور غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے، بھارت نے 5 اگست 2019ءکو غیر قانونی اقدام کرکے دعوی کیا تھا کہ اس سے متنازعہ خطے میں امن اور ترقی آئے گی جبکہ اس نے حقیقت میں تشدد کو اور زیادہ بڑھادیا ہے۔ امریکی میگزین ”فارن پالیسی“ نے کشمیر کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کورونا وائرس کی وباکے دوران جب اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور بہت سارے تنازعات کو ایک طرف رکھا گیا لیکن اس کے باوجود بھارت نے خطے میں فوجی کارروائیوں کو تیز کردیا ہے۔ سری نگر کے ”ماو¿نٹین انک“ میگزین کے منیجنگ ایڈیٹر عادل امین آخون اور ایک دستاویزی فوٹوگرافر شرافت علی نے امریکی میگزین میں لکھے گئے مشترکہ مضمون میں کہا کہ یہ صورتحال مقبوضہ جموں و کشمیر کے لئے کوئی نئی بات نہیں کیونکہ یہ دنیا کا ایسا خطہ ارض ہے جہاں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور متنازعہ علاقہ کا فوجی محاصرہ کرنے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر ان کا کہنا ہے کہ اس خطے میں تنازعہ 1947ء سے جاری ہے جب بھارت اور پاکستان نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور تقسیم برصغیر نے کشمیر کو دونوں ملکوںکے مابین ایک متنازعہ علاقہ بنادیا۔ رپورٹ کے مطابق مسئلہ کشمیر پر اب تک دو جنگیں لڑی جاچکی ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان متنازعہ خطے میں لاتعداد بار تصادم ہوئے ہیں۔ مصنفین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج اور کشمیری مجاہدین کے درمیان کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں نے عام شہریوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں، تشدد، آبروریزی اور مظاہرین پر وحشیانہ تشدد معمول بن گیا ہے۔ جموں کشمیر سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے والدین کی انجمن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال اب تک 143 افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں سے 62 صرف جون میں شہید ہوئے۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فورسز نے 26 جون کو ایک 5 سالہ بچہ شہید کیا، یکم جولائی کو شمالی کشمیر میں ایک 65 سالہ معمر شخص کو اپنے 3 سالہ پوتے کے سامنے قتل کیا گیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران 50 سے زیادہ مکانات تباہ کیا گیا جن میں سے 22 کو اس سال 19مئی کو تباہ کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجی عام شہریوں کو بڑے پیمانے پر ہراساں کرتے ہیں، ان کی بلا وجہ پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور ان کے گھروں کی تلاشی لی جاتی ہے۔ حال ہی میں سری نگر میں ایک کارروائی کے دوران دو افراد شہید ہوئے بعد میں فوجیوں کی جانب سے علاقہ میں رکھے گئے بارودی مواد کے پٹھنے سے 3 عام شہری شہید ہوئے۔ سرینگر کے قدیم نواکدل علاقہ میں بھارتی فوج کی کارروائی میں مکانات کو کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا اور چند گھنٹوں کی فوجی کارروائی میں بائیس مکان اور ایک بیکری جل کر راکھ ہوگئی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد سے تعلیم کا شعبہ خاص طور پر متاثر ہوا ہے، گذشتہ سال کشمیر کے فوجی محاصرے کے بعد تمام نجی اور سرکاری سکول بند کردیئے گئے تھے جس کی وجہ سے پندرہ لاکھ طلباءتعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ”میڈیسنز سانز فرنٹیئرز“ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں 18 لاکھ بالغ افراد یا 45 فیصد آبادی کو ذہنی تناﺅ کا سامنا ہے جبکہ70 فیصد افراد نے ایک پرتشدد موت کا سامنا کیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑی تعداد میں سیاسی رہنماءاور عام شہری مقدمات کی سماعت نہ ہونے کے باوجود قید یا نظربند ہیں۔ نئی دہلی کے نافذ کردہ نئے قوانین کے تحت غیر ریاستی باشندوں (بھارتی شہریوں) کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں خریدنے اور ملازمتیں دینے کی اجازت دی گئی ہے، اب تک 25 ہزار افراد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ذریعہ صحافیوں کو ہراساں کرنا معمول بن گیا ہے۔