وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کا پریس کانفرنس سے خطاب

147

اسلام آباد ۔ 15 اگست (اے پی پی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ عوام کو سستی اور پائیدار بجلی فراہم کرنا اولین ترجیح ہے، ماضی میں قابل تجدید توانائی سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا گیا، مہنگی بجلی، لوڈ شیڈنگ اور گردشی قرضے بہت بڑا مسئلہ ہیں، انرجی سیکٹر کی گرفت میں پورا پاکستان ہے، توانائی کے شعبہ کے مسائل پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی، مہنگی بجلی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بہت سے مسائل جنم لیں گے، وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی انرجی سیکٹر کے مسائل پر قابو پانے کے لئے جامع اقدامات شروع کئے، اس حوالے سے مختلف ٹاسک فورسز قائم کی گئیں اور ایک خود مختار کمیشن بھی تشکیل دیا گیا، رپورٹس کی روشنی میں آئی پی پیز کے ساتھ مسئلے کے حل کے لئے پیش رفت ہوئی ہے اور گزشتہ روز بجلی کے شعبے کے مسائل کو کم کرنے کے لئے ایم او یو پر دستخط کئے ہیں، گزشتہ ادوار میں پاور پلانٹس تو لگائے جاتے رہے لیکن بجلی کی تقسیم و ترسیل کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئی، آئی پی پیز کے ساتھ ایم او یو پر دستخط سستی بجلی کی فراہمی کی جانب پہلا قدم ہے، مقامی سرمایہ کاروں کو ایکویٹی ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں دی جائے گی جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ڈالر میں ایکویٹی کی سہولت دستیاب ہو گی لیکن شرح منافع میں کمی لائی جائے گی، کیپسٹی پیمنٹس کی بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی قیمت ادا کی جائے گی جس سے گردشی قرضہ کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ان خیالات کا اظہار ہفتہ کو انہوں نے یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ساتھ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاور شہزاد قاسم بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو نہ صرف بجلی کی پیداوار بلکہ ترسیل و تقسیم کے نظام میں بھی مشکلات اور مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبہ کے مسئلہ نے پاکستان کی معیشت اور عوام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویلیو چین کے بنیادی مسائل کی وجہ سے عوام کو مہنگی بجلی، لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے جبکہ شعبہ کا گردشی قرضہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انرجی سیکٹر کی گرفت میں پورا پاکستان ہے جب تک اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جائے گا، پائیدار معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں مشکلات ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس اہم مسئلہ کے حل کے لئے کوشش ہی نہیں کی گئی جس سے مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس مسئلہ کے خاتمہ کے لئے کام شروع کیا، وزیراعظم کی ہدایت پر ٹاسک فورسز بنائی گئیں، خصوصی کمیٹیاں، ٹیمیں اور خود مختار کمیشن تشکیل دیا گیا تاکہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظرثانی کی جا سکے کیونکہ ماضی میں کسی منصوبہ بندی کے بغیر جنریشن پلانٹ لگائے گئے لیکشن تقسیم و ترسیل کے نظام پر توجہ نہ دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں میں ریٹ آف ریٹرن بہت زیادہ رکھا گیا اور اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے منافع کی ادائیگی کو ڈالر سے منسلک کیا گیا، ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ سے بجلی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگی بجلی عوام اور معیشت کے لئے ایک مسئلہ ہے کیونکہ گھر اور صنعت کو چلانے کے لئے بجلی کی بنیادی اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اس مسئلہ کو جلد از جلد حل کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ماہرین سے مشاورت کی گئی جس کے بعد توانائی کے شعبہ پر ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی تاکہ وہ آئی پی پیز کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کا حل نکالیں کیونکہ حکومت یکطرفہ طور پر کوئی معاہدہ ختم نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کی مشاورت سے شعبہ کے مسائل کے خاتمہ کے لئے کوششیں کی گئیں تاکہ عوام کو سستی بجلی دستیاب ہو اور آئی پیز پیز کے واجبات کی ادائیگی میں بھی تعطل نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اس مسئلہ کو خوش اسلوبی سے حل کرنا چاہتے تھے تاکہ عوام کو سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے، آئی پی پیز کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط اس جانب پہلا قدم ہیں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاور شہزاد قاسم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر ایک خود مختار کمیشن تشکیل دیا گیا، جس میں وزارت کے ماہرین نے بھی معاونت کی لیکن ہم اس کمیشن کی کارروائی الگ رہے تاکہ کمیشن آزادانہ طور پر اپنا کام کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن نے گزشتہ روز آئی پی پیز کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں جس کا مقصد معاہدوں کو چھیڑے بغیر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالنا ہے کیونکہ ماضی میں بعض کمپنیوں کے ساتھ تضادات کی وجہ سے پاکستان پر جرمانے عائد کئے گئے تھے۔ ایم او یوز کے اہم نکات کے بارے میں شہزاد قاسم نے کہا کہ آئی پی پیز کے مقامی سرمایہ کاروں کو ایکویٹی ریٹرن ڈالر کی بجائے روپے میں کی جائے گی جبکہ غیر ملکیوں کے لئے ڈالر میں ادائیگیاں کی جائیں گی لیکن شرح منافع کو پہلے سے کم کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کے پیداواری پلانٹس اپنی استعداد کی بنیاد پر تیل، گیس وغیرہ کی مد میں فائدہ لے رہے تھے، تاہم اب اگر نیپرا کے معیار کے مطابق اس میں بچت ہو گی تو وہ نیپرا کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔ اسی طرح آپریشن اینڈ مینٹی نینس کے حوالے سے معلومات سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی سے شیئر کی جائیں گی، پاور پلانٹس کو تاخیر سے ادائیگی پر شرح سود کو 2 فیصد تک کم کیا جائے گا، جن منصوبوں پر قرضے ہیں، ان کی مدت میں اضافہ کی سہولت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت انرجی شعبہ کی اصلاحات پر کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجلی مہنگی ہونے میں کیپسٹی چارجز کا کردار تھا، تاہم اب صرف خریدی گئی بجلی کی ہی ادائیگی کی جائے گی۔ شہزاد قاسم نے کہا کہ ہماری پیداواری استعداد تقریباً 32 ہزار میگاواٹ سے زائد ہے جبکہ سردیوں میں بجلی کا استعمال انتہائی کم ہونے کے باوجود ہمیں آئی پی پیز کو مکمل ادائیگی کرنا پڑتی تھی، ایم او یو سے اس مسئلے کے حل میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ میں اصلاحات کے لئے نیپرا اور ای پی پی اے سمیت دیگر شراکت دار تیزی سے کام کر رہے ہیں تاکہ مسابقتی مارکیٹ کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کو ماضی کی ادائیگیاں کی جائیں گی تاہم معاہدوں کو ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے اپنے چھ سات پاور پلانٹس بھی ہیں جبکہ واپڈا کے ہائیڈرو پاور پلانٹس کے ٹیرف میں بھی فرق تھا اس لئے ان کا یکساں کیپسٹی پیمنٹس کا نظام لایا جائے گا جس پر جلد ہی کام مکمل کر لیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیشبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں قابل تجدید توانائی سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا گیا تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر حکومت 2030ءتک قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کے لئے انرجی مکس کو 20 تا 25 فیصد تک بڑھائے گی تاکہ سستی بجلی کا حصول ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس پر کام ہی نہیں کیا گیا اور قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار 1500 تا 2000 میگاواٹ تھی لیکن اب 10 سے 12 مزید منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے اور سستی بجلی کی پیداوار کے فروغ سے بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ خود مختار کمیشن کا قیام کا مقصد بجلی کے مہنگی ہونے کی وجوہات معلوم کر کے مسائل کا خاتمہ ہے، ہم نے ماضی میں بھی رپورٹس پبلک کی ہیں، اس رپورٹ کا بنیادی مقصد بجلی سستی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئی پیز پیز کے ساتھ گزشتہ حکومتوں میں کئے گئے معاہدوںکے پابند ہیں اس لئے ان معاہدوں پر نظرثانی افہام و تفہیم سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ کی روشنی میں آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کئے گئے تاکہ بجلی کی پیداوار، ترسیل، تقسیم، بنیادی ڈھانچہ کے مسائل اور قیمتوں میں اضافہ کے اسباب کا حل نکالا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ریکوری کم ہونے کی وجہ سے گردشی قرضے میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر گردشی قرضہ پر شرح سود میں ایک فیصد کی معمولی کمی ہو تو اس سے 10 تا 15 ارب روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتوں نے سیاسی مقاصد کے لئے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جس سے گردشی قرضے کا حجم مسلسل بڑھتا رہا تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے شعبہ کی بہتری پر توجہ دی جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا جو آسان کام نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبہ کے مسائل ہمیں ورثے ملے ہیں اور ان کا حل ریاست کی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے ہم ضروری اقدامات کر رہے ہیں تاکہ بجلی کی قیمت کم ہو سکے کیونکہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے چوری بھی بڑھ جاتی ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ پاکستان اور اس کے عوام مہنگی بجلی کے متحمل نہیں ہو سکتے، سستی اور پائیدار بجلی کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔