ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یا فتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود

125
زرداری ٹولے کا مشن کرپشن اور لوٹ مار ہے ،پیپلزپارٹی کا نام نہاد لانگ مارچ شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا،عوام ظالم لٹیروں سے سندھ کی پسماندگی کا حساب لیں گے،وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود

اسلام آباد ۔ 27 اگست (اے پی پی) ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یا فتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا۔ فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں این سی ایچ ڈی اور بیکس( بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکول) کے ملازمین کی تنخواہوں ،ایریئرز ، پروموشن ، سینیارٹی و دیگر مسائل کے علاوہ فنکشنل کمیٹی کے2 اکتوبر 2019کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کا انحصار ا±س ملک کی پڑھی لکھی عوام پر ہے تعلیم کے فروغ سے کسی بھی ملک کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے پڑھی لکھی نسلیں ریاست کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این سی ایچ ڈی اور بیکس کے اساتذہ نے تعلیم کے شعبے میں جتنی خدمات انجام دی ہیں وہ قابل تحسین ہیں مگر ان اساتذہ کو حکومت کے اعلان کردہ کم سے کم مزدوری جو ساڑھے17 ہزار روپے ہے ا±س کے برعکس صرف 8 ہزار تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کے مسائل کو بھی حل نہیں کیا جاتا۔ ان ملازمین کا نہ کوئی سروس سٹرکچر ہے اور نہ کوئی دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے پسماندہ علاقوں میں نان فارمل اساتذہ نے جو خدمات سرانجام دیں ہیں وہ پبلک سکول کے اساتذہ ادا نہیں کر سکتے۔ ان سکولوں کےلئے مقامی لوگوں نے ایک کمرہ دیا اور مقامی سطح پر لڑکیاںاور لڑکے فروغ تعلیم میں مصروف ہو گئے۔ پبلک سکول میں اساتذہ کی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں مگر ان اساتذہ کو ایک ہزار صرف تنخواہ شروع کی گئی اور اب 8 ہزار ہے جو آئین کے بھی خلاف ہے۔ نان فارمل سسٹم کے ذریعے 8 لاکھ بچوں کی تدریس کا عمل کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے کمیٹی کو بتایا کہ این سی ایچ ڈی اور بیکس کے معاملات ایک عرصہ سے چل رہے تھے تعلیم کا محکمہ صوبوں کے حوالے کر دیا ہے۔ نان فارمل تعلیم وفاق کے پاس تھی یہ معاملہ مشترکہ مفاد ات کی کونسل میں اٹھایا گیا اور تمام صوبوں کے اتفاق سے اس کو جون 2021 میں صوبوں کے حوالے کر دیا جائے گا اگلے دو سے تین ماہ میں تمام طریقہ کار اور پلاننگ مکمل کر لی جائے گی۔ صوبوں نے کہاہے کہ ان اساتذہ کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔ جس پر سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ پہلے بھی وفاق نے محکمے صوبوں کو بھیجے مگر بنیادی چیزیں اپنے پاس رکھ لی یہ سکول وفاق کے پاس رہتے تو بہتر تھا ، تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی وزیر شفقت محمود نے کہا کہ یہ اساتذہ رضاکارانہ طور پر شامل کئے گئے تھے پھر اعزازیے کے طور پر ان کی تنخواہ شروع کی گئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ این سی ایچ ڈی سٹیچوٹری آزاد فیڈرل باڈی کے طور پر 2002میں قائم ہوا جس کا مقصد نان فارمل تعلیم ، پرائمری ہیلتھ اور غربت کم کرنا تھا۔ این سی ایچ ڈی کے 5715 سکول ہیں جن میں 3 لاکھ 6 ہزار بچے پانچ سے نو سال کی عمر کے بچے رجسٹرڈ کئے گئے این سی ایچ ڈی کے 6461 اساتذہ ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1995میں ایکنک نے 10ہزار نان فارمل بیکس سکول قائم کرنے کی منظوری دی۔ ہربیکس سکول میں30بچے 4 سے 16 سال کی عمر کے ہوتے ہیں جن کو ایک ٹیچر پڑھاتا ہے بیکس میں 11767سکول اور اساتذہ ہیں جہاں 4لاکھ 63 ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ایوان بالا کی اس فنکشنل کمیٹی نے چاروں صوبوں کے پسماندہ علاقوں کا دورہ کر کے مسائل سے آگاہی حاصل کی مقامی آبادی نے ان اساتذہ کی کارکردگی کو بہت سراہا ہے بہتر ےہی تھا کہ یہ ادارے وفاق کے پاس رہتے۔ انہوں نے کہا کہ ان اساتذہ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کےلئے چاروں چیف سیکرٹریز اور صوبائی وزراءتعلیم و سیکرٹریز کو طلب کر کے کمیٹی اجلاس میں پلاننگ کا جائزہ لیا جائے گا۔ کمیٹی سفارش کر تی ہے کہ اگر ان ملازمین کو صوبوں کے حوالے کیا جائے تو صوبے ان کو ریگولر کریں ، ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں ، ان کی پرموشن اور سروس سٹرکچر کے حوالے سے رولز بنائیں جائیں تا کہ یہ اساتذہ بلا خوف و خطر اپنی تعلیمی خدمات جاری رکھ سکیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے ایک این سی ایچ ڈی ملازم کو 2012 میں ریگولر کیا گیا اور 2014 میں ا±س کا تبادلہ صوبہ بلوچستان کے علاقہ خضدار میں کر دیا گیا جس نے 5ستمبر 2014کو عدالت سے سٹے لیا ا±س کو 9ستمبر 2014کو نوکری سے ہی فارغ کر دیا گیا ا±س نے توہین عدالت کا کیس کیا جو 6 سال سے چل رہا ہے اس کا مسئلہ حل کیا جائے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان اداروں کے مستقل ملازمین کے ایریئزر کے مسائل بھی تھے جو 2013سے 2018تک نہیں دیئے گئے تھے جو 1.5ارب روپے کے بنتے ہیں جو سروس سٹرکچر تبدیل ہونے کی وجہ سے بنے تھے۔ فنڈ ز کے حصول کےلئے وزارت خزانہ کو خطوط بھی لکھے مگر ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا ، معاملہ وزارت خزانہ کے ساتھ اٹھایا ہواہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں سکول کھولنے کے حوالے سے فیصلہ 7ستمبر 2020کو کیا جائے گا وزارت صحت سے پہلے رائے حاصل کی جائے گی اور ایس او پیز کے ساتھ اجازت دی جائی گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلی دفعہ یکساں تعلیمی نصاب رائج کیا جا رہا ہے جس کے تحت تمام پبلک ، پرائیویٹ اور مدرسے ایک نصاب پڑھائیں گے۔ پہلی کلاس سے پنجم تک نصاب بن چکا ہے ، چھٹی سے آٹھویں تک بن رہا ہے ملک میں یکم اپریل2021 سے یکساں نصاب تعلیم پڑھایا جائے گا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ وزارت تعلیم صوبوں کا محکمہ بن گیا ہے اس کو صوبوں کے حوالے کیا جائے سی سی آئی میں تمام وزرا اعلیٰ کو اس پر سٹینڈ لینا چاہیئے تھا۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز کلثوم پروین ، سردار محمد شفیق ترین، نگہت مرزا اور مولوی فیض محمد کے علاوہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود ، چیئرمین این سی ایچ ڈی کرنل (ر) عامر اللہ، ڈی جی بیکس وسیم اجمل چوہدری، ڈی جی این سی ایچ ڈی حسن بیگ، سینئر جوائنٹ سیکرٹری خزانہ ڈویژن ڈاکٹر نواز احمد کے علاوہ این سی ایچ ڈی کے اساتذہ کے وفد نے شرکت کی۔