اسلام آباد۔29اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے ساتھ انتخابی اصلاحات‘ معیشت اور بہتر گورننس پر بات چیت کر سکتی ہے لیکن اگر ان کا مدعہ آٹھ کیسوں پر ہے تو پھر جتنا بھی زور لگا لیں وہ لگا سکتے ہیں‘ عمران خان کو 2028ءکے بعد بھی آپ نہیں ہٹا سکتے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کی آئین کے لئے خدمات ہیں لیکن آرٹیکل 53 بھی آئین کا حصہ ہے جو سپیکر کی عزت و احترام کی بات کرتا ہے۔ جمہوری تاریخ میں 1377 سے سپیکر کا آفس قائم ہوا ہے۔ اس کے بعد سپیکر کی چیئرز کا ایوان کی طرح احترام ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ فٹ بال کھیلتے کھیلتے اچانک ایوان میں آگئے انہیں اس عہدے اور ایوان کی توقیر کا پتہ نہیں ہے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ پی ڈی ایم کو احتجاج اور حکومت پر تنقید کا حق ہے۔ مسئلہ ہے کہ تین جلسوں میں تین بیانیے دیئے گئے۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں فوج اور عدلیہ‘ کراچی میں فوج‘ عدلیہ اور اردو زبان جبکہ کوئٹہ کے جلسے میں فوج‘ عدلیہ اور آزاد بلوچستان کا بیانیہ سامنے آیا۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں اس کا مقصد آٹھ کیسز سے جان چھڑانا ہے۔ اگر وہ اس میں کلیئر ہوں تو سب کچھ ٹھیک ورنہ سب خراب۔ ہمارا گلہ نواز شریف سے نہیں ہے لیکن اس بیانیے پر اگر خواجہ آصف اور ریاض پیرزادہ خاموش رہتے ہیں تو یہ دکھ اور افسوس کا مقام ہے۔ آپ حکومت اور پی ٹی آئی پر تنقید کریں لیکن ریاست پر تنقید نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ سابق سپیکر ایاز صادق کو ریاست کی ایک سرگرمی میں شامل کیا گیا تو انہیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہندوستان کو گھس کر مارا ہے۔ پلوامہ کے بعد ہماری کامیابی عمران خان کی قیادت میں قوم کی کامیابی ہے۔ پاکستان کے شاہینوں اور عظیم بیٹوں نے جس طرح گھس کر پٹائی کی ہندوستان کا میڈیا اور سیاسی قیادت اس پر تنقید کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے نے کراچی میں تقریر فرمائی اور کہا کہ اردو کو ہم اپنی زبان نہیں مانتے۔ وہ جرات نہیں کر سکتے کہ کہے کہ ہم پاکستان کو نہیں مانتے اس لئے وہ اردو کے خلاف بات کرتے ہیں۔ اگر اچکزئی کو اردو آتی تو اردو سے سلیقہ سیکھتے۔ 1867 سے اردو ہندوی تنازعہ شروع ہوا تو اس کے بعد اردو ہندی تنازعہ دو قومی نظریہ کی بنیادوں میں شامل ہوا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جو کہیں کہ باڑ اکھاڑ دو‘ ہمیں ان سے گلہ نہیں ان دوستوں سے ہے جو خاموش رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بار بار کہا جارہا ہے کہ ہم جرنیلوں کے خلاف اور سپاہیوں کے ساتھ ہیں یہ ایک خطرناک بیانیہ ہے۔ پاکستانی فوج کا کون سا جرنیل‘ میجر جنرل‘ بریگیڈیئر اور کرنل ایسا نہیں جس نے اپنا سینہ جوانوں کے ساتھ پیش نہ کیا ہو۔ فوج میں تقسیم کی بات اجیت دوول اور بھارت کی سیکیورٹی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ جنوری میں وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ اپوزیشن جنوری 2028کے بعد بھی عمران خان کو نہیں بھیج سکتی۔ یہ لوگ گلیوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اپوزیشن انتخابی اصلاحات‘ معیشت اور گورننس پر بات چیت کرنا چاہے تو ہم تیار ہیں لیکن اگر ان کا مدعہ آٹھ کیسوں پر ہے تو پھر جتنا زور لگا سکتے ہیں لگا لیں۔