اسلام آباد۔19دسمبر (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے این آر او کیلئے سرکس لگا رکھی ہے اگر انہیں این آر او دے دوں تو پاکستان کے مستقبل اور اپنی آخرت تباہ کرنے کے مترادف ہو گا، اپوزیشن استعفےٰ دینے میں تاخیر نہ کرے، اپوزیشن کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ایک ہفتہ دھرنا میں گزار دے تو میں استعفیٰ کا سوچ سکتا ہوں، دیامر بھاشا، مہمند ڈیم اور دو نئے شہروں کے میگا پراجیکٹس سے روزگار میں اضافہ ہو گا، اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت استعفےٰ نہیں دے گی، اگر ہم نے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے تو ہمیں ٹیکس دینا ہو گا، آزاد میڈیا جمہوریت کا حسن اور اثاثہ ہے، پچاس سال میں پہلی بار اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ تین بار زیر بحث آیا، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جنرل باجوہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، اپوزیشن جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے فوج کو استعمال کرنا چاہتی ہے، فوج حکومت کا ادارہ اور میرے ماتحت ہے، فوج نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے، ماضی کے حکمران اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پلے، پاکستان کا مفاد قانون کی بالادستی میں ہے۔ جمعہ کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ زندگی ایک جدوجہد کانام ہے،زندگی کا انحصار محنت پر ہے، میں اگر اپوزیشن کی جدوجہد سے نہ گزرتا تو موجودہ دوسال جو مشکل ترین تھے جہاں قرض چھ ہزارسے تیس ہزار ارب سے تجاوز کرگیا تھا،قرض واپسی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ فارن ایکسچینج صفر تھا،ہمیں علم تھا کہ یہ قرض واپس کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مختلف ممالک کے پاس جانا پڑا تو یہ باعث شرم تھا۔انہوں نے کہا کہ سارے ڈاکو میرے خلاف اکھٹے ہو گئے ہیں کہ یہ ہمیں این آراو کیوں نہیں دے رہا۔انہوں نے فیٹف قانون سازی کے دوران بلیک میل کیا اور نیب قانون میں34 ترامیم تجویز کیں۔انہوں نے کہا کہ اربوں روپے چوری والوں کو این آر او دے دوں اور معمولی جرائم والا غریب جیل میں سڑے ایسا نہیں ہوسکتا۔میں اللہ کے سامنے اس پر کیا جواب دوں گا۔انہوں نے کہا کہ یہ این آر او کے لئے سرکس لگی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میرے رول ماڈل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اپوزیشن کو این آر او دینا پاکستان کے مستقبل اور اپنی آخرت سے کھیلنے کے مترادف ہے، ان کے اوپر کیسز میں نے نہیں بنائے۔ زرداری کو نواز شریف نے جیل میں ڈالا اسی طرح حدیبیہ کیس پی پی نے نواز شریف کے خلاف بنایا۔ یہ اپنے دور میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پڑھ لیں۔یہ تیس سال سے کرپشن کررہے تھے۔میں ان کو باربار کہہ رہا ہوں کہ ان کو اب ایک ایسا شخص ملا ہے جو ان کو چھوڑے گا نہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے چار بار مینار پاکستان بھرا ہے،میں نے نواز شریف کو چیلنج کیا کہ وہ مینار پاکستان بھر کر دکھائیں۔ہم نے کرونا کیسز بڑھنے کے باوجود اپوزیشن کو نہیں روکا،لوگ کسی کی چوری بچانے نہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے باہر نکلتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں لانگ مارچ کا سپیشلسٹ ہوں،اگر اپوزیشن لانگ مارچ کرے گی تو ان کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی،میں چیلنج کرتا ہوں یہ ایک ہفتہ یہاں گزار جائے، میں استعفے کا سوچ سکتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ساتھ عوام تھی اس لئے ہم نے 126 دن د ھرنا دیا، میں جب لانگ مارچ کیلئے نکلا تو مجھے پتہ تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، میں نے ان سے چار حلقے کھولنے کا کہا تھا کہ 2018ء کے انتخابات ٹھیک ہوں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں تاہم ان کا یہ ڈرامہ این آر او کیلئے ہے میں نے کہا تھا کہ جب ان کا احتساب شروع ہو گا تو یہ جمہوریت کے نام پر اکٹھے ہو جائیں گے ان کا مفاد پاکستان کے مفاد سے متصادم ہے، پاکستان کا مفاد قانون کی بالادستی ہے۔ اپوزیشن نے فیٹف پر قانون سازی کے دوران بلیک میل کیا ان کی خواہش تھی کہ انہیں این آر او مل جائے گا۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ عمران خان پتلا ہے ہم اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے یہ دراصل فوج پر دبائو ڈال رہے ہیں ، یہ ان کی جمہوری تحریک ہے کہ اپنے آپ کو جمہوری کہنے والے کس سے اپیل کر ہیں انہیں پتہ ہے کہ عمران خان نے ہلنا نہیں ہے یہ غداری کا کیس ہے، پاکستان کی فوج حکومت کا ادارہ اور میرے ماتحت ہے وہ میرے اوپر نہیں ہے میں منتخب وزیراعظم ہوں، میرا ماتحت ادارہ مجھے ہٹائے ایسا دنیا کی جمہوریت میں کہیں نہیں ہوتا،۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کوئی ایک ایسی بتائی جائے جو میں نے اپنے منشور یا کردار سے ہٹ کر کی ہو، یا دبائو میں آ کر کی ہو، میری حکومت جو اقدامات اٹھانا چاہتی ہے فوج اور سارے ادارے میرے ساتھ کھڑے رہے۔ دو سالوں میں پاکستان کو مشکل وقت سے نکالا، کورونا کے دوران معیشت کو سنبھالا دیا، پاکستانی فوج اور ادارے ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو اس میں کامیابی نہ ہوتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف جنرل جیلانی اور ضیاء الحق کے سہارے سیاست میں آئے، وہ سیاست کی الف، ب سے آگاہ نہیں تھے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنرل درانی نے آئی جے آئی بنانے کیلئے نوازشریف کو پیسے دیئے، اس ملک میں کرپشن نوازشریف نے شروع کی جوہر ٹائون میں پلاٹ اور پیسے دے کر پارٹی بنائی۔ اس ملک کا بیڑا غرق کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کو تکلیف ہے کہ فوج نے کیوں ان کی مدد نہیں کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ جنرل باجوہ کی تعریف کرتے ہیں کہ ان کا نام لے کر ان پر حملے کئے جا رہے ہیں لیکن وہ اپنے ٹھہرائو کی وجہ سے یہ برداشت کر رہے ہیں، وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، یہ لوگ فوج کو جمہوری حکومت کو ہٹانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ پاک فوج سیلاب، پولیو مہم، سی پیک کے منصوبوں سمیت ہر جگہ پر حکومت کے ساتھ ہے، میں ان سے خوش ہوں، نوازشریف اور آصف زرداری کا فوج سے مسئلہ یہ ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کو ان کی ساری چیزوں کا علم ہے۔ ان کا مسئلہ ہے کہ انہوں نے چوری کرنا ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف اور اس کے بچے، اسحاق ڈار اور اس کے بچے باہر اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں اور وہاں رہ رہے ہیں، تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کے بیٹے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف کو واپس لانے کے دو طریقے ہیں، انہیں ڈی پورٹ کرانا ہے، یہ اس سے پہلے این آر او کر کے سعودی عرب گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں اپوزیشن کی ہر چیز کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں یہ جو بھی کریں گے نقصان ان کا ہی ہو گا جس طرح لاہور کے ورچوئل جلسے سے ان کا نقصان ہوا ہے میں جلسوں کا سپیشلسٹ ہوں یہ بہت بڑا فلاپ شو تھا۔ نان قیمے سے مینار پاکستان نہیں بھرا جا سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں شدت سے اپوزیشن کے استعفوں کا انتظار کر رہا ہوں، اگر یہ استعفے دیں تو یہ پاکستان کی بہتری ہو گی، اس وقت دو بچے اپنے والدین کی کرپشن بچانے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں ان کا کوئی تجربہ نہیں، یہ جتنی جدوجہد کریں گے مجھے فائدہ ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یورپی یونین نے ہندوستان کو دنیا میں جعلی اکائونٹس سے پاکستان کو ٹارگٹ کرنے کو بے نقاب کیا ہے، حسین حقانی جیسے لوگ اس میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو پہلے دن سے ہی یہ ہمارے خلاف شروع ہو گئے تھے، میں نے ایک دن چھٹی نہیں کی، کوئی بیرون ملک کا نجی دورہ نہیں کیا، آصف زرداری نے 50 جبکہ نوازشریف نے 21 نجی غیر ملکی دورے کئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوازشریف کا بیانیہ ہندوستان میں اس لئے مشہور ہوا کہ وہ وہی کام کر رہا ہے جو ہندوستان پاکستان کو عالمی سطح پر کم تر ثابت کرنے کیلئے کوششیں کر رہا تھا، نریندر مودی سے زیادہ 73 سالوں میں پاکستان اور مسلمان مخالف حکومت ہندوستان میں نہیں آئی، وہ پاکستان کو فیفٹس کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کیلئے پورا زور لگا رہے تھے اگر پاکستان بلیک لسٹ میں چلا جاتا تو ڈالر اڑھائی سو سے تین سو روپے تک پہنچ جاتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اپوزیشن کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کل کی بجائے آج استعفےٰ دیں تاہم ان کی جماعتوں کے ممبران کی اکثریت استعفےٰ نہیں دے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر اپوزیشن لانگ مارچ کرتی ہے اور دھرنا دیتی ہے اور اگر یہ ایک ہفتہ گزار گئے تو میں استعفےٰ کا سوچوں گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سینیٹ انتخابات ایک ماہ پہلے ہو سکتے ہیں جبکہ شو آف ہینڈ سے مراد اوپن بیلٹ ہے، 30 سال سے سینیٹ انتخابات میں پیسہ چلتا آیا ہے ہم نے اپنے 20 ممبران کو پارٹی سے نکالا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پیسے کے زور پر سینیٹر بننا جمہوریت ہے، حکومت کے پاس طاقت اور اختیار ہوتا ہے اور وہ اپنے ووٹ سے زیادہ سینیٹر بنا سکتی ہے، اوپن بیلٹ سے کرپشن ختم ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم کے بغیر بھی اوپن بیلٹ ہو سکتا ہے، اس کی تشریح کیلئے ہم سپریم کورٹ کے پاس جا رہے ہیں، اٹارنی جنرل کا خیال ہے کہ ا یسا ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی قوم دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتی ہے، پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فیسکل خسارہ ورثے میں ملا، 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ورثے میں ملا، ہمارے پاس کوئی ایسا بٹن نہیں کہ جسے دبانے سے سب ٹھیک ہو جائے گا، 2 سال میں ہمارا ملک جس طرح آگے بڑھا ہے یہ معجزہ ہے، اگر ڈالر باہر سے کم اور ملک سے زیادہ باہر جائیں تو روپے کی قیمت کم ہوتی ہے، تیل مہنگا اور بجلی کے معاہدے جو سارے ڈالرز میں ہیں ان پر فرق پڑتا ہے، ہمیں اپنے ملک کی دولت بڑھانی ہو گی، فیکٹریاں لگانا ہوں گی مشکل حالات کے باوجود سیالکوٹ اور فیصل آباد میں صنعتیں چل پڑی ہیں، تعمیراتی انڈسٹری آگے بڑھ رہی ہے، سب سے زیادہ سیمنٹ کا استعمال اس وقت ہوا ہے، سٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سرکاری شعبہ سے زیادہ نجی شعبہ نوکریاں دیتا ہے، تعمیراتی شعبہ سے 30 صنعتیں چلتی ہیں، ساری دنیا کی ایئر لائنوں نے کورونا کی صورتحال کے دوران اپنی ایئر لائنوں سے ملازمین کو نکالا، گزشتہ حکومتوں نے سرکاری اداروں میں ضرورت سے زیادہ لوگ بھرتی کئے، پی آئی اے پر 400 ارب روپے جبکہ سٹیل مل پر ساڑھے 3 سو ارب کا قرض ہے، حکومت کو سوا ارب روپے ماہانہ سٹیل مل کو دینے پڑ رہے ہیں ، خسارے میں چلنے و الے اداروں میں ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے کہ ملازمین کو نکالا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سٹیل مل کو چلانے کیلئے باہر سے تین سرمایہ کار آ گئے ہیں، سٹیل مل بہتر ہونے پر جن ملازمین کو نکالا جا رہا ہے انہیں واپس لائیں گے، ان ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ دے کر نکالا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے 40 ارب روپے کے اخراجات کم کئے، پاک فوج نے اپنے اخراجات منجمد کئے، دو سالوں کی محنت کے بعد آج پاکستان بہتر سمت کھڑا ہے، برآمدات بڑھ رہی ہیں، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان تیزی سے ترقی کرے گا، وزیراعظم نے کہا کہ 50 سال بعد مہمند اور بھاشا ڈیم بنا رہے ہیں، راوی اور آئی لینڈ دو نئے شہر بنا رہے ہیں، اس سے بیرونی زرمبادلہ آئے گا، نوکریاں ملیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا احساس پروگرام غربت کیخلاف عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، ہم روزگار کیلئے زراعت اور تعمیرات پر پورا زور لگا رہے ہیں، احساس پروگرام سے سستے قرضے دیئے جا رہے ہیں، دیہی علاقوں میں مویشی اور آمدن بڑھانے کیلئے ڈیجیٹلائزیشن کر رہے ہیں، ہم نے چین سے سیکھا ہے جس نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا، مدینہ کی ریاست کی بنیاد قانون کی بالادستی اور غریب کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری تھی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آزاد میڈیا سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، مجھے میڈیا سے صرف یہ مسئلہ ہے کہ جن لوگوں نے تیس سال اقتدار میں رہ کر کرپشن کی ان کا ہمارے دو سالوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، جھوٹ بول کر ملک سے بھاگے ہوئے شخص کو تقریر کی اجازت دینے کیلئے عدالت چلے گئے۔ آزاد میڈیا جمہوریت کا حسن اور اثاثہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تحقیقات کرنا نیب کا کام ہے، اگر ہمارے کسی وزیر پر الزام لگے تو ہم نہیں کہیں گے کہ گرفتار نہ کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ میرا کام لوگوں کو گرفتار کرنا نہیں ہے، ہم نے چینی بحران پر کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھا، پٹرول بحران پر تین رکنی انکوائری کمیٹی بنائی۔ اس کے ذمہ داروں کو سزا دینگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں قائداعظم کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں، پوری قوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے، اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے، ہمارے کسی وزیر کے اسرائیل جانے کی خبریں غلط ہیں جب ہم اسے تسلیم نہیں کر رہے تو ہم وہاں کیوں جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ میں جو بھی صدر آئے گا وہ افغانستان میں امن چاہے گا، افغانستان میں امن کیلئے ہم اپنی پوری کوششیں کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہاں تشدد میں کمی ہو اور امن آئے۔ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ فائدہ ہمیں ہو گا، دو سال سے ملک میں افراتفری دکھائی جا رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پچاس سال بعد تین بار اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا جبکہ نوازشریف نے سیکرٹری خارجہ کو کہا تھا کہ کشمیر پر بات نہیں کرنی، پاکستان کا دشمن مودی نوازشریف کا دوست ہے جسے شادی پر اپنے گھر بلایا، نوازشریف نے حریت قیادت سے ملاقات نہیں کی، دنیا کے سامنے پاکستان کی ساکھ بھارت سے پہلی بار بہتر ہوئی ہے، پچاس سال بعد کشمیر عالمی مسئلہ بنا ہے، غیر جانبدار لوگوں سے اس بارے میں رائے لے لیں۔ وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے کم ٹیکس دینے کے حوالے سے اپنی ذہنیت تبدیل کرنی ہے، پھر ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں گے، غربت سے لوگوں کو نکال سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قوم مل کر فیصلہ کرے کہ ہم نے ہاتھ نہیں پھیلانے، ٹیکس دینا ہے، 22 کروڑ آبادی میں 30 ہزار لوگ 70 فیصد ٹیکس دیتے ہیں، ایک طرف ہم عظیم قوم بننے کی بات کرتے ہیں دوسری طرف ٹیکس نہیں دیتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کے پانچ سال پورے ہونے پر قوم فیصلہ کرے گی کہ اس نے کسے لانا ہے، احساس پروگرام دنیا کیلئے ایک مثال ہو گا، وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے صنعت کو فروغ دے کر اپنی برآمدات بڑھانی ہیں اس سے روزگار میں اضافہ ہو گا جبکہ طویل المدتی منصوبوں کی تکمیل کرنی ہے، درخت لگانے ہیں، ماحولیات کو ٹھیک کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نوجوانوں کیلئے ان کا پیغام ہے جیسے مولانا رومی نے کہا تھا کہ اللہ نے اگر پر دیئے ہیں تو چیونٹی کی طرح زمین پر کیوں چلتے ہو، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ مشکل ضرور لیکن عظمت کا راستہ ہے جبکہ دوسرا راستہ بھٹک جانے والا اور تباہی کا راستہ ہے۔\932