خواتین کو اقتصادی، سماجی اور قانونی لحاظ سے بااختیار بنانا معاشرے کیلئے اہمیت کا حامل ہے، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا گرینڈ قومی مکالمہ سے خطاب

155

اسلام آباد۔23دسمبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ خواتین کو اقتصادی، سماجی اور قانونی لحاظ سے بااختیار بنانا معاشرے کیلئے اہمیت کا حامل ہے، ملکی آئین اور قوانین میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے کوئی ابہام نہیں ہے، بنیادی معاملہ خواتین کے حوالہ سے قوانین کے نفاذ اور عملی اطلاق کاہے، خواتین کے حوالہ سے آئینی تقاضوں اور قوانین پر عملدرآمد ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں ایوان صدر میں خواتین کو قانونی، اقتصادی اور معاشرتی لحاظ سے بااختیار بنانے کے گرینڈ قومی مکالمہ کے آغاز پر خصوصی کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے اپنے خطاب میں کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ خواتین کے خلاف صنفی بنیادوں پر تفریق کے خاتمہ اور انہیں سماجی، قانونی اور اقتصادی لحاظ سے بااختیار بنانا معاشرے کیلئے اہمیت کا حامل ہے، آئین میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے کوئی ابہام نہیں ہے، آئین کے آرٹیکل 35 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، آئین کے تحت شہریوں کے حقوق کیلئے خصوصی اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی قوانین موجود تو ہوتے ہیں تاہم ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا عملی اطلاق ہوتا ہے، آج کا یہ قومی مکالمہ اس غرض سے شروع کیا گیا ہے کہ اس اہم ایشو پر مثبت اور تعمیری قومی مکالمہ کا آغاز ہو گا۔ صدر مملکت نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے خواتین کے عملی کردار کو معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کیلئے اہم قرار دیا تھا، بابائے قوم نے کہا کہ تھا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی اور عظمت کی بلندیوں پر نہیں پہنچ سکتی جب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ قومی تعمیر و ترقی میں اپنی شرکت یقینی نہ بنائیں۔ صدر نے کہا کہ خواتین کے حوالہ سے جتنے بھی آئینی اور قانونی تقاضے ہیں ان پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے، ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کو بااختیار بنایا جائے اور انہیں تھانہ، کچہری سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں انصاف اور برابری کے حقوق فراہم کئے جائیں، خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین پہلے سے بھی موجود ہیں جبکہ موجودہ حکومت نے بھی خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے قانون سازی کی ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ صدر نے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے کہ خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں، اگر کوئی خاتون اس ابہام کا شکار ہے کہ تھانہ کچہری میں جا کر اپنے مسائل اٹھائے تو ہمیں اپنے قوانین اور اس کے اطلاق پر سوچنا چاہئے، ہمیں خواتین کے حقوق میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا اور عورتوں کو بھی اسی طرح فراہمی انصاف کو ممکن بنانا ہو گا جس طرح مردوں کو حاصل ہے۔ صدر نے کہا کہ وفاقی محتسب کو اگر ایک سال میں ہراسانی کے 300 کیس آتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین ہراسانی کے کیسز کی رپورٹنگ میں بھی گھبراتی ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ اقتصادی طور پر خواتین کو بااختیار بنائے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں ہے، چند روز قبل گورنر سٹیٹ بینک کی قیادت میں بینکوں کے اعلیٰ عہدیداروں سے ہماری ایک میٹنگ ہوئی جس میں گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ ہمارے پاس خواتین کیلئے قرضوں کی سہولت موجود ہے تاہم قرضہ لینے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں خواتین ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، حکومت اور سٹیٹ بینک کو ان سکیموں سے خواتین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ صدر مملکت نے خواتین کی صحت کو درپیش مشکلات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بہبود آبادی اور چھاتی کے سرطان سمیت کئی بیماریوں کے بارے میں آگاہی پھیلانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور مزید کرنے کی ضرورت ہے، بہبود آبادی پر علماءکرام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ صدر نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے حوالہ سے قوانین کے عملی اطلاق اور ترجی©حات کے تعین کے ذریعے معاشرہ میں صنفی بنیادوں پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کو نہ صرف ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں معاشی، اقتصادی اور سماجی طور پر بااختیار بھی بنایا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں اپنے اختتامی کلمات میں صدر مملکت نے کہا کہ ہم ایک بہتر پاکستان کی جانب گامزن ہیں اور بہتر پاکستان کا قیام زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ صدر مملکت نے اس ضمن میں عدالتی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور وزارت قانون کو سفارش کی کہ وہ خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات کی روک تھام اور انہیں بااختیار بنانے سے متعلق اصلاحات کیلئے ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ مل کر حکمت عملی طے کرے۔ اختتامی سیشن میں مختلف گروپوں کے ماہرین نے خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالہ سے مختلف گروپوں کی سفارشات اور تجاویز بھی پیش کیں۔ صدر مملکت نے تمام وزارتوں اور اداروں کو ہدایت کی کہ ان تجاویز اور سفارشات کا نکتہ وار جائزہ لیا جائے، ان پر آنے والی لاگت کا تعین کیا جائے اور عملی اطلاق کیلئے اقدامات تجویز کئے جائیں۔ صدر مملکت نے میڈیا میں خواتین کو ہراساں کئے جانے اور انہیں ملازمتوں سے نکالنے کی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس سلسلہ میں وزارت اطلاعات سے بھی رابطہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا سمیت تمام اداروں میں خواتین کو ملازمت سے نکالنے سے متعلق ڈیٹا کا آڈٹ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خواتین کو باہنر بنانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، معاشرہ میں خواتین ملازمین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس شعبہ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، پاکستان میںاس وقت 9 لاکھ نرسوں کی ضرورت ہے جبکہ سالانہ 10 ہزار نرسیں بن رہی ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ جب خواتین بااختیار نہیں بنتیں ان کیلئے معاشرہ میں تکالیف موجود رہیں گی۔ صدر مملکت نے خواتین کو ادائیگیوں کے جدید نظام سے آگاہ رکھنے اور ان سہولتوں تک خواتین کی رسائی بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ ڈیجیٹل خلیج کو کم کرنے اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے استعمال میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو مالیاتی طور پر شعور و آگاہی فراہم کرنا بھی ضروری ہے، خواتین کو سٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں کی جانب سے قرضوں کی سہولیات سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے کیونکہ دنیا بھر میں بینک اور مالیاتی ادارے خواتین کو قرضوں کی فراہمی کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ اس میں نقصان کا خطرہ کم ہوتا ہے۔