این آر او ریلیف کا نام ‘ بچائو کا پروگرام اور نجات کا ایک راستہ ہے جس کی آڑ میں دو بڑی جماعتیں آگے بڑھنا چاہتیں تھیں‘ہم سیاسی انتقام کے قائل نہیں ہیں، حکومتی وزراء

135

اسلام آباد۔30دسمبر (اے پی پی):اسلام آباد ۔ وفاقی وزراء سینیٹر شبلی فراز،شاہ محمود قریشی اورمعاون خصوصی ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کے فورم کو اپنی سیاہ کاریوں کو چھپانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ‘ عدالتوں اور قانونی ادارے سوال کریں تو اس کا جواب دینا پڑے گا‘این آر او ریلیف کا نام ‘ بچائو کا پروگرام اور نجات کا ایک راستہ ہے جس کی آڑ میں دو بڑی جماعتیں آگے بڑھنا چاہتیں تھیں‘ہم سیاسی انتقام کے قائل نہیں ہیں لیکن احتساب کے عمل سے عمران خان اور پی ٹی آئی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ‘خواجہ آصف سیاسی انتقام کے پیچھے نہ چھیں ‘ اپنی منی ٹریل کا بتائیں تا کہ ان کی جان چھوٹ سکے‘اگر استعفی دینا چاہتے ہیں تو پھر ضمنی الیکشن کا حصہ اورر ضمنی الیکشن کی تیاریاں کیوں ہورہیں ہیں‘فالودے ‘پاپٹر ‘چینی والے کے بعد چاول کا کارپوریٹ آفس اور بزنس کے بغیر ایک سال میں10کروڑ روپے باہر گئے اور اکائونٹ میں آگئے۔ وہ بدھ کو پی آئی ڈی میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی کے حکمرانوں نے اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا ‘انہی کے سہولت کاری سے ناجائز دولت ملک کے باہر لیکر گئے او ملک کو غریب سے غریب تر کر دیا ۔ انہوں نے کہاکہ سینٹ کا اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا ہے اس میں ہمارا کوئی ایجنڈا نہیں ہے ‘پی ٹی آئی صرف سوال کرے گی انھیں جواب دینا پڑے گا ‘قانون کسی کے ماتحت نہیں ہے سب قانون کے ماتحت ہے ‘عام شہری کی طرح جواب دینا پڑے گا ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نیب خودمختار ادارہ ہے ‘ جس قانون کے تحت کام کر رہا ہے وہ پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ بنا ہوا ملا ‘ نیب کی جتنی بھی قیادت ہے ‘ چیئرمینز کی تعیناتی میں پی ٹی آئی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ‘خواجہ آصف کی گرفتاری کی وضاحت وہ خود کر سکتے ہیں ‘انھیں کئی مرتبہ سوالات کا جواب دینے کے لئے دعوت دی گئی محسوس ہوتا ہے کہ وہ نیب کو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملے پر مطمئن نہیں کر پائے ۔ انہوں نے کہا کہ آج سمجھ آتی ہے جب ہم فیٹیف کی قانون سازی پر دو بڑی جما عتوں سے بات چیت کر رہے تھے تو نیب کے قانون کے ساتھ جوڑا جارہا تھا ‘اس سے ظاہر ہو رہا کہ وہ فیٹیف کی ڈھال میں نیب قوانین میں ترامیم چاہتے تھے ‘وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کو یہ منظور نہیں تھا جس کے بعد دونوں جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ آج پتہ چل رہا ہے کہ ان کے اصرار کی وجوہات کیا تھیں ‘انھیں دکھائی دے رہا تھا کہ آئندہ دنوں میں پریشان کرنے والی باتیں آئیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ این آر او ریلیف کا نام ‘ بچائو کا پروگرام اور نجات کا ایک راستہ ہے جس کی آڑ میں دو بڑی جماعتیں آگے بڑھنا چاہتیں تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہر مہذب معاشرے میں تمام احتساب کے لئے مساوی ہوتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان نیب کو دھکمیاں دے رہے ہیں ‘ان کے پاس جواب ہی نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سے جب اثاثوں کا پوچھا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں قانون سے بالا تر ہوں ‘ انہوں نے جستجو کے بعد 40 سال پرانا ریکارڈ عدالت کے سامنے رکھا ‘ عدالت نے اس کو تول کر صادق و امین قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف سیاسی انتقام کے پیچھے نہ چھیں ‘ اپنی منی ٹریل کا بتائیں تا کہ ان کی جان چھوٹ سکے ۔وزیر خارجہ شاہ محمود نے کہاکہ ہم سیاسی انتقام کے قائل نہیں ہیں لیکن احتساب کے عمل سے عمران خان اور پی ٹی آئی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے بھی نیب کی طلبی پر پیش ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے لئے پارلیمنٹ کا فورم بروئے کار لایا جاسکتا ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر تب آئیں گے جب عمران خان مستعفی ہونگے ‘یہ ایسی شرط ہے جس سے وہ اپنا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بات چیت نہیں کرنا چاہتے‘ عمران خان کسی صورت 31جنوری کو مستعفی نہیں ہونگے ۔ گذشتہ روزپی ڈی ایم کا بیانیہ پاش پاش ہو گیا‘ استعفی ‘ استعفی کی رٹ تھی ‘ اگر استعفی دینا چاہتے ہیں تو پھر ضمنی الیکشن کا حصہ اورر ضمنی الیکشن کی تیاریاں کیوں ہورہیں ہیں ‘ پی ڈی ایم کے دو بنیادی نکات کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا ‘پی ڈی ایم کی قیادت کو تلاش کرنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ہاتھ کس نے کیا ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کو دو استعفی موصول ہوئے انھیں تصدیق کے لئے بلا گیا تو وہ مکر گئے ۔اگر مسلم لیگ ن سنجیدہ ہے انہی دو صاحبان سے ابتداءکر لیں ۔معاون خصوصی ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ مریم نواز نے کہا کہ میرے والد کو اقامے میں غلط سزا ہوئی ہے اسکی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اقامہ ایک رہائشی پرمٹ کو کہتے ہیں جو قابل فخر پاکستان ‘ محنت کش ہیں جو ورک پرمٹ لیکر باہر جا کر خون پسینے کی دولت پاکستان میں زرمبادلہ کے طور پر بھیجتے ہیں‘ ان پر ہم فخر کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی اقامہ ‘ منی لانڈرنگ ‘کرپشن اور کمیشن کی ناجائز آمدن ملک سے باہر جاتی ہے ‘ اقامے کے بعد بیرون ملک اکائونٹس کھولنے کی اجازت مل جاتی ہے ‘ جعلی ملازمت کے معاہدے ہوتے ہیں ‘ مقامی ناجائز آمدن بیرون ممالک کے بینک اکائونٹس میں جمع ہوتی ہے اور ملک سے پیسہ باہر چلا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب اقامہ ہو تو اس پر سوال نہیں کیا جاسکتا ‘ اقامے کی وجہ سے وہ اس ملک کے مقامی شہری بن جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ان معاشروں میں سے ہے جس کے پیسے اور وسائل چوری سے باہر پہنچائے گئے ۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں اعلی عہدیداروں احسن اقبال ‘ خواجہ آصف سمیت دیگر پارٹی کے لوگوں کو اقامہ حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ‘ اقامہ حاصل کرنے کے بعد تنخواہ بینک ٹو بینک یا چیک کے ذریعے تنخواہ ملتی ہے ‘پیسہ کیش کی صورت میں فرنٹ مین کو ملے اور اس نے اکائونٹ میں ڈالے اور تمام پیسوں کو جائز کرالیا ‘ سیلمان شہباز اور شہباز شریف پرمقدمہ اور موجودہ کیس کی واردات ایک جیسی ہے ۔ ان ناجائز کاموں کو تحفظ دینے کے لئے ایک قانون بھی بنایا گیا جس کے ذریعے اقامے کا غلط استعمال کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے 12اپریل 2018 کو ایک بیان حلفی جمع کرائی کہ لبنانی شہری الیاس ابراہیم آف شور کمپنیز کا سب سے بڑا سکینڈل پانامہ میں اس کی کمپنیوں کا نام آیا ‘قطری شہزادے کی طرح یہ بھی مشکوک ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی قانون سے بالا نہیں ہے جو یہ کہہ رہے ہیں ‘دوسروں کو استعفی دو ‘بھائی ‘بیٹے کو نہیں کہتے کہ استعفی دو ‘ کارکنوں پر کوئی الزام نہیں ہے ‘ سوال پر آسان طریقہ قانون اورآئین عدالت کھڑا ہو اور اپنے اوپر الزامات کو جھوٹا ثابت کریں ‘ این آر او کے لئے پی ڈی ایم‘ استعفوں اور فیٹف قانون کو ڈھال بناتے ہیں ‘ یہ چاہتے ہیں کہ نیب دفتر کو تالہ لگا کر ایلفی لگا کر چابی نواز کو دیدھیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جونہی نواز شریف کے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہوگئی تو پاکستان واپس آکر اپنے پاسپورٹ کی درخواست کریں گے ‘ دوسرا یہ ہے کہ معیاد ختم ہونے پر غیر قانونی تصور ہونگے ‘ نواز شریف کو پاکستان کی عدالت کی دی ہوئی سزا پوری کرنی ہے ‘بیماری کا بہانہ لگا کر گئے تھے۔