کرپٹ سسٹم کو ٹھیک کرنے میں وقت لگتا ہے، تبدیلی جدوجہد سے آتی ہے سوئچ دبانے سے نہیں، معاشی استحکام کےلئے مشکل فیصلے کئے، الیکٹرک وہیکل پالیسی سے آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی، وزیراعظم عمران خان

171

اسلام آباد۔10جنوری (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپٹ سسٹم کو ٹھیک کرنے میں وقت لگتا ہے، تبدیلی جدوجہد سے آتی ہے سوئچ دبانے سے نہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ ملکی نہیں ذاتی مفادات کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں، اپوزیشن چاہتی ہے کہ فوج پر اتنا دبائو ڈالے کہ وہ منتخب حکومت گرا دے، کرپٹ عناصر کو این آر او دینے سے ملک کا نقصان ہوگا، عوام چوروں کیلئے باہر نہیں نکلتے، موجودہ حکومت نے معیشت کے استحکام کیلئے اہم اور مشکل فیصلے کئے ہیں، ملکی درآمدات اور تعمیراتی شعبہ ترقی پا رہا ہے، اقتصادی اشاریے مثبت ہیں، ٹیکس نظام میں شفافیت کیلے جدید ٹیکنالوجی لائیں گے، احساس پروگرام اور ہیلتھ کارڈ حکومت کے انقلابی اقدامات ہیں، بیورو کریسی کے ڈھانچہ میں اصلاحات لا رہے ہیں، ماضی کی وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کی ترقی پر توجہ نہیں دی، الیکٹرک وہیکل پالیسی سے آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی، 2021ء کے آخر تک پنجاب اور کے پی کے کے ہر غریب خاندان کے پاس ہیلتھ کارڈ ہوگا، فرقہ وارانہ شدت پسندی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا، بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے، بھارت جب تک 5 اگست 2019ء کے اقدامات واپس نہیں لیتا اس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔اتوار کو سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جن معاشروں میں اخلاقیات پر توجہ دی جاتی ہے وہی آگے بڑھتے ہیں، اللہ تعالی نے ہمیں اچھائی برائی کے بارے میں واضح طور پر بتادیا ہے، جب اخلاقی طور پر قوم زوال کا شکار ہوجاتی ہے تو پھر وہ ہر لحاظ سے زوال پذیر ہوتی ہے، میڈیا کا کام ملک میں اخلاقی اقدار اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے، میڈیا واچ ڈاگ کا کام کرتا ہے، انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اور اہم وزرا دبئی میں اقامے لیکر نوکریاں کرتے رہے، انہوں نے منی لانڈرنگ کیلئے اقامے لیے، مجھے کہا گیا کہ خواجہ آصف نے صرف 22 کروڑ کی کرپشن کی، اسے کیوں پکڑ لیا گیا، میں کہتا ہوں کہ یہ کیسی غیر اخلاقی حرکت ہے کہ ایک ملک کا وزیراعظم اور وزرا اقامے لیکر نوکریاں اور اسکی آڑ میں منی لانڈرنگ کرتے رہے، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ انہیں این آر او نہیں دینا اور انکو چھوڑوں گا نہیں، پاکستان کے قرضے کئی گنا بڑھ گئے اور یہ سارے ملک لوٹ لوٹ کر چوریاں کرکے امیر سے امیر تر ہوتے گئے، وزیراعظم نے کہا کہ مجھے انکو این آر او دینے میں آخر کیا مسئلہ ہے ، مجھے مسئلہ نہیں ہے لیکن جنرل ریٹائرڈ مشرف نے انکو این آر او دیا اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کا بیڑا غرق ہوا اور قرضے بے تحاشا بڑھ گئے، آج ہم جتنا ٹیکس جمع کرتے ہیں، اسکا بیشتر حصہ ان قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جو سابق حکومتوں نے لیے اور ہمارے پاس ترقیاتی منصوبوں کے لیے پیسہ نہیں ہوتا، سارے وہ ملک جو قرضوں میں جکڑے گئے اور وہاں کے عوام بدحال ہیں اسکی وجہ ہی یہی ہے کہ حکمران طبقہ نے پیسہ چوری کیا اور باہر جاکر جائیدادیں اور محلات بنالیے، وزیراعظم نے کہا کہ آج پاکستان کیلئے فیصلہ کن مرحلہ ہے کہ کیا ہم اس مافیا کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہیں یا ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، اپوزیشن آج اکٹھی ہوکر دھاندلی کا شور مچا رہی ہے، انکے پاس دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں نہ یہ دھاندلی کے خلاف کسی فورم پر گئے، ہم جب دھاندلی کے خلاف نکلے تھے تو ہم نے عدالتوں میں لڑائی لڑی، ثابت کیا کہ دھاندلی ہوئی ہے، اپوزیشن کو پتہ ہے کہ دھاندلی نہیں ہوئی، یہ صرف اپنی چوری بچانے کیلئے بلیک میل کر رہے ہیں، اس کیلئے انہوں نے فیٹف کو بھی استعمال کرنیکی کوشش کی، ان کی وجہ سے پاکستان گرے لسٹ میں گیا، این آر او لینے کیلئے انہوں نے فیٹف کو استعمال کیا، نیب آرڈیننس میں ترامیم کرنے کیلئے زور ڈالا، آج زرداری اور نواز شریف پر جو کیس ہیں یہ ہم نے نہیں بنائے، انہوں نے خود ایک دوسرے پر کیس بنائے، جیلوں میں ڈالا، بین الاقوامی میڈیا میں انکی کرپشن کی داستانیں شائع ہوئیں، اب یہ اکٹھے ہوگئے تاکہ اپنی چوری کا پیسہ بچانے کیلئے بلیک میل کرسکیں، مولانا فضل الرحمان 1992 سے حکومتوں کا حصہ ہیں، یہ پہلی اسمبلی ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے، ان کا خیال تھا کہ عوام انکی چوری کا پیسہ بچانے کیلئے باہر نکلے گی لیکن عوام کبھی بھی چوروں کیلئے نہیں نکلتے، عوام ہمیشہ جب بھی کہیں سڑکوں پر نکلے ہیں تو اپنے حکمرانوں کی کرپشن کیخلاف نکلے ہیں، ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ افغان جہاد کے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کا آغاز ہوا جس نے پاکستان کو بے حد نقصان پہنچایا، ہزارہ، شیعہ کمیونٹی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، حالیہ واقعہ میں بھارت پاکستان میں دہشت گردی کیلئے آئی ایس آئی ایس /داعش کی پشت پناہی کر رہا ہے، پاکستان میں انتشار پھیلانا انکا مشن ہے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں بہترین کام کر رہی ہیں اور ہمیں معلومات تھیں کہ پاکستان میں بھارت کی انتہاپسند مودی حکومت شیعہ سنی علما کو قتل کرانے اور فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش کر رہی ہے، ہم نے بروقت کارروائیاں کیں اور ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو پکڑا گیا، کئی دور دراز علاقوں میں بھی کارروائیاں کی گئیں، بلوچستان کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان پر توجہ نہیں دی کیونکہ بلوچستان اگرچہ رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا لیکن آبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ ہے، وہاں ووٹ بنک کم ہے، سرداروں کو مضبوط کیا گیا، اور انکے ساتھ ماضی کے حکمران اتحاد کرلیتے تھے،جس طرح پیپلز پارٹی نے کراچی پر توجہ نہیں دی کیونکہ وہ اندرونی سندھ سے ووٹ لے کر آتی ہے ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں ہے، کراچی کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ سے کراچی نظرانداز ہوگیا۔ بلوچستان میں ترقیاتی فنڈ سرداروں کے ذریعے خرچ ہوتے تھے اس لئے وہاں پر لوگ غریب ہیں اور سردار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت طاقتور ہوچکے ہیں،ان طاقتور سرداروں نے بلدیاتی نظام کو بھی فروغ پانے نہیں دیا، موجودہ حکومت وہ پہلی حکومت ہے جو بلوچستان کی سماجی و اقتصادی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، جنوبی بلوچستان کیلئے بڑا پیکج دیا ہے، اس بڑے علاقے کیلئے بہت زیادہ فنڈز چاہئے، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بہت اچھا کام کر رہے ہیں، ہم چاہ رہے ہیں کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہے ہے وہ آئندہ نہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ علم حاصل کرنے کا مقصد جدوجہد ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو جدوجہد کیلئے ہی پیدا کیا ہے۔ انسان اپنا ذہن استعمال کرکے معاشرے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب چھوٹا سا طبقہ ساری مراعات لے جاتا ہے اور باقی لوگ محروم رہ جاتے ہیں تو پھر قوم نہیں بن سکتی۔ ہندوستان کو ماضی میں حملہ آور اسی لئے فتح کرتے رہے کہ راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور یہاں قوم نہیں بن سکی تھی اور عام لوگوں کے کوئی حقوق نہیں تھے، جاگیردارانہ نظام تھا اور آزادی کیلئے کوئی لڑتا ہی نہ تھا۔انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کا مقصد غریب طبقے کو فائدہ پہنچانا ہے اور اس کیلئے کوئی بھوکا نہ سوئے،پروگرام شروع کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کی شناخت کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا اور یہ بنیادی ضرورت ہے کہ لوگوں کو کھانا فراہم کیا جائے ،اس کے علاوہ یکساں نصاب متعارف کروایا جائے گا اور لوگوں کو علاج کی مفت سہولت فراہم کرنے کیلئے ہیلتھ کارڈ کا اجراء کیا جارہ،ا یہ انقلابی اقدامات ہیں، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں2021کے آخر تک ہر غریب خاندان کے پاس ہیلتھ انشورنس ہوگی اور وہ کسی بھی ہسپتال سے اپنا علاج کروا سکیں گے اور اس طرح نجی شعبہ شہروں اور دیہات میں ہسپتال بنائے گا ،انہیں حکومت سہولیات فراہم کرے گی تاکہ چھوٹے شہروں میں ہسپتال تعمیر ہوں کیونکہ حکومت کے پاس اتنے زیادہ ہسپتال بنانے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔ یونیورسل ہیلتھ کوریج بہت اہم پروگرام ہ،ے اس سے صحت کا پورا پروگرام بنے گا، ہسپتالوں کیلئے ڈیوٹی فری آلات لائے جاسکیں گے، نجی شعب کوہ اوقاف اور متروکہ وقف املاک کی زمینیں ہسپتال بنانے کیلئے رعایتی قیمت پر فراہم کی جائیں گی، نیا پاکستان ہائوسنگ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اور ایک مزدور بھی اپنا گھر بنا سکے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حضور اکرمؐۖ ہمارے رول ماڈل ہیں، دنیا کی تاریخ میں جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ اور کوئی نہیں کرسکتا اور انہوں نے مسلمانوں کو دنیا کی سپریم پاور بنایا اور اس وقت کی دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو مسلمانوں نے شکست دی، جو بھی ملک ان کے طریقوں کو اختیار کرے گا وہ ترقی کرجائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری ٹیکس مشینری بہت کرپٹ ہے، جب زرداری اور نوازشریف جیسے ٹوٹ بٹوٹ حکومت میں آجائیں تو پھر اخلاقی اتھارٹی اوپرسے ختم ہوجاتی ہے اسی وجہ سے ٹیکس کا نظام بھی متاثر ہوا ہے اور اس کا علاج آٹومیشن ہے، ایف بی آر ٹیکنالوجی کے استعمال میں رکاوٹ ڈالتی رہی لیکن اب ہم ٹیکس کے نظام میں شفافیت کیلئے ٹیکنالوجی استعمال کریں گے کیونکہ بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف بیس لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جو دنیا میں سب سے کم ٹیکس ہے جب سے ہمارا مجموعی طور پر ستر فیصد ٹیکس صرف تین ہزار لوگ ادا کرتے ہیں اور صرف بیس لاکھ لوگ ٹیکس فائلر ہیں۔ ملک میں ساڑے تین کروڑ افراد ایسے ہیں جن کے پاس اپنی گاڑیاں اور گھر ہیں لیکن وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا مستقبل ٹیکس وصولی بڑھانے میں ہے کیونکہ ایک تو ملک پر قرضہ بہت زیادہ ہے اور کم ٹیکس وصولی کے ساتھ ملک کی نوجوان آبادی کو اس ٹیکس وصولی کے ساتھ سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی۔وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت ماحول کو بہتر بنانے کیلئے خصوصی اقدامات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں الیکٹرک وہیکل پالیسی لائے ہیں، مارچ سے ملک میں الیکٹرک کاریں بننا شروع ہوجائیں گی، بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، خصوصا بڑے شہروں میں تو الیکٹرک کاریں چلانا پڑیں گی، انگلینڈ میں تو فیصلہ کیا گیا ہے کہ 2030ء سے صرف الیکٹرک گاڑیاں ہی چلیں گی، الیکٹرک کاریں بنانے میں بڑی کمپنیاں دلچسپی لے رہی ہیں، یہ خوش آئند بات ہے اور بہت دیر کے بعد یہاں اچھی کمپنیاں آرہی ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پوری گاڑی یہاں بنے ،اس سے منسلک صنعتیں بہت زیادہ ہیں جو روزگار بھی فراہم کرتی ہیں اور اگر انجن بننا شروع ہوجائیں تو ہم مزید ترقی کرسکتے ہیں۔ موجودہ حکومت وہ پہلی حکومت ہے جس نے ماحولیاتی پالیسی بنائی ہے پہلے تو اس کی پرواہ ہی نہیں کی جاتی تھی، وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن ملک کو ریکارڈ مالیاتی خسارہ ، ریکارڈ بیرونی خسارہ اور ریکارڈ قرضے چھوڑ کر گئی، اپوزیشن پہلے دن سے کہہ رہی ہے کہ حالات خراب ہیں اور وہی حالات خراب کرکے گئی ہے۔ جب آمدنی کم اور خرچہ زیادہ ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں اور جس ملک کو بھی ہماری طرح کے حالات کا سامنا ہوگا تو وہ پہلے اپنے اخراجات کم کرے گا، کووڈ کی وجہ سے امیر ممالک بھی متاثر ہوئے ہیں، امریکہ جیسے ملک میں لوگ لائنیں لگا کر کھانا لے رہے ہیں اور غریب آدمی وہاں بھی بہت متاثر ہوئے ہیں۔ یورپ اور انگلینڈ میں لوگوں کو ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے کیونکہ وہاں پہ طلب میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے، جب تک آمدنی نہیں بڑھتی کوئی بھی ملک مشکل سے نہیں نکل سکتا ، ہمارے پاس تو قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے۔موجودہ حکومت نے ہر سال دس ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے تھے اور ابھی تک دو سالوں میں بیس ارب ڈالر واپس کرچکے ہیں، وزیراعظم نے کہا کہ ہماری برآمدات میں ریکارڈ اٹھارہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے، ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ معیشت کے استحکام کیلئے ضروری ہے، پاکستان کے مقابلہ میں بھارت اور بنگلہ دیش کی برآمدات میں کمی ہوئی ہے، ہم کووڈ کی صورتحال سے تیزی کے ساتھ نکلے ہیں لیکن ساری دنیا میں خدمات کا شعبہ اس صورتحال سے متاثر ہوا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن پہلے ملک کو دیوالیہ کرکے چھوڑ گئی اور پھر کہنا شروع کردیا کہ ملک فیل ہوگیا ہے لیکن ہم بدقسمتی سے یہ وضاحت نہیں کرسکے کہ لوگوں نے تو ان کی وجہ سے مشکلات سے گزرنا تھا اب اللہ کا کرم ہے کہ ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں، تعمیرات کا شعبہ فروغ پا رہا ہے، سیمنٹ کی ریکارڈ فروخت ہو رہی ہے، گاڑیاں اور موٹر سائیکل فروخت ہو رہے ہیں،1992 کے بعد مکمل گنجائش کے ساتھ ٹیکسٹائل کا شعبہ کام کر رہا ہے، یہ ایک مثبت اشاریہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ فوج کے خلاف زبان استعمال کرنے والے فوج کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک منتخب حکومت کو گرا دے، کبھی پاکستان میں سول منتخب حکومت کے دور میں فوج کو اس طرح نشانہ بناتے نہیں دیکھا، اپوزیشن کی کوشش یہ ہے کہ فوج کو اتنا مجبور کرے اور اس پر دبائو ڈالے کہ وہ جمہوری حکومت کو گرا دے۔پہلے اپوزیشن سمجھتی رہی کہ حکومت ختم ہوجائے گی لیکن جب حکومت مشکل صورتحال سے نکل آئی تو اب وہ مایوسی میں ایسی باتیں کررہے ہیں لیکن ان کا علاج ہونے والا ہے۔ وزیراعظم نے بیوروکریسی کے ڈھانچہ میں اصلاحات متعارف کروائی جارہی ہیں، پنجاب کی بیورو کریسی میں ہمیں شروع میں بہت مشکلات پیش آئیں کیونکہ پنجاب میں بیورو کریسی اور پولیس میں سیاسی عمل دخل بہت زیادہ ہوگیا تھا، خیبرپختونخوا میں بھی ہمیں بیورو کریسی کو ٹھیک کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا کیونکہ بیوروکریسی کی سیاسی وابستگیاں ہوجاتی ہیں، تھوڑے مسائل ہیں لیکن معاملات ٹھیک ہوجائیں گے اور اسی وجہ سے تبادلے بھی ہوتے ہیں کیونکہ جب تک ہمیں کارکردگی دیکھنے کو نہیں ملے گی تو تبادلے ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زراعت میں بھی اب نئی ٹیکنالوجی آرہی ہے جس کے ساتھ ہمیں ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2021ء تک ہمارے دو اہداف ہیں ایک تو کوئی بھوکا نہ سوئے اوردوسرا علاج کے لئے غریب خاندانوں کو ہیلتھ کارڈ ملے گا۔ دنیا ہمارے ان اقدامات کی پیروی کرے گی اور انہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا جائے گا۔وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تبدیلی ایک عمل کا نام ہے اور یہ جدوجہد سے آتی ہے سوئچ دبانے سے نہیں،جب ایک قوم فیصلہ کرلیتی ہے کہ یہ ہماری اقدار ہیں تو پھر معاشرہ تبدیل ہوتا ہے، کرپشن تب ختم ہوتی ہے جب معاشرہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ سنگاپور اور چین میں اسی طرح کرپشن ختم کی گئی ہے اور چین کے صدر نے وزراء کو بھی کرپشن جیلوں میں ڈالا، پاکستان میں تبدیلی شروع ہوچکی ہے اسی لئے سارے بڑے بڑے ڈاکو جیلوں سے باہر جارہے ہیں۔ اب یہ سب نیب کے چکر لگا رہے ہیں اور ملک میں پہلی مرتبہ شوگر مافیا جس میں طاقتور لوگ بیٹھے ہیں پہلی مرتبہ ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور ان کے خلاف کیسز بنائے گئے ہیں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں ساٹھ سالوں کے بعد دو بڑے ڈیموں کی تعمیر شروع ہوچکی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہمیں ہنگامی طور پر فنڈز تقسیم کرنا پڑے تاکہ غریب اور دیاڑی دار افراد کی مدد کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ پرانے سسٹم کو ٹھیک کرنے میں دیر لگتی ہے اور شوکت خانم ہسپتال سمیت پاکستان کے ایسے چار ہسپتال ہیں جن کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تسلیم کیا جاتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پولیس سسٹم کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس میں وقت لگتا ہے ماضی میں پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کو بھرتی کیا گیا اس لئے یقینی طور پر معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت جب تک 5 اگست 2019ء کے اقدامات واپس نہیں کرتا اس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ بھارت کو سب سے زیادہ نقصان مودی حکومت ہی پہنچائے گی، امریکہ کے ساتھ ہمارے اب ڈو مور والے تعلقات نہیں ہیں، افغانستان کے ساتھ ہماری بہت اچھی ہم آہنگی ہے اور ہم نے افغان بات چیت کا اہتمام کرایا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمارے انتہائی اچھے تعلقات ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ ہماری کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے، جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ترکی کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں، ایران کے ساتھ جو تعلقات آج ہیںوہ پہلے نہیں تھے، ایران پر پابندیاں عائد ہیں لیکن اگر ایران کے ساتھ تجارت کرتے ہیں تو ہمارے اوپر بھی پابندیاں لگ جائیں گی اور ہم اس چیز کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزادانہ خارجہ پالیسی کیلئے اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ضروری ہے۔خاجہ پالیسی میں ترجیح اپنا ملک اور اپنے مفادات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مثبت سمت پر گامزن ہے، ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے پائوں پر کھڑے ہوں۔وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب قرضوں کی ادائیگی پر بڑی رقم خرچ کرنی پڑے تو پھر بہت سے شعبوں میں کٹوتی کرنا پڑتی ہے اور اسی وجہ سے تعلیم کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے، ہمارا پہلا سال استحکام کا سال تھا پھر دوسرے سال کووڈ کی صورتحال کا سامنا رہا لیکن معاشی لحاظ سے ہم دنیا میں صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹنے میں کامیاب رہے ہیں، جب تک برآمدات، تعمیرات اور آئی ٹی اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دے کر تیزی سے آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ابھی تک ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم تعلیم کے شعبے پر اس کی ضرورت کے مطابق خرچ کرسکیں۔ کئی ایسے شعبے تھے جو وفاق کے پاس ہونے چاہئے تھے لیکن وہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوگئے کیونکہ صوبے اپنی ترجیحات متعین کرتے ہیں اس چیز سے ہم اتقاق کرتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔