اسلام آباد۔12جنوری (اے پی پی):وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے خلاف جو کھیل کھیلے وہ یاد کریں، آج یہ اپنے مفاد کیلئے مل گئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کو لاڑکانہ میں جلسے کا چیلنج دیتا ہوں، اندرون سندھ بھی ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے، کراچی میں بے نظیر بھٹو کی سیٹ بھی پیپلز پارٹی ہار گئی، ذوالفقار علی بھٹو نے جو جزیرے وفاق کو دیئے اور سندھ کابینہ نے حال ہی میں جس کی توثیق کی آج پیپلز پارٹی ان کی مخالفت کر رہی ہے، نہ خود کوئی کام کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں، عمران خان نے کہا تھا کہ احتساب ہو گا تو یہ سب آپس میں ایکا کر لیں گے، وفاق نے کسی صوبے کے حقوق غصب نہیں کئے۔ منگل کو ایوان بالا میں بدو بنڈل آئی لینڈ کے حوالہ سے اپوزیشن کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ کئی ارکان نے بجٹ میں حصہ لیا لیکن دلیل کے بغیر بات کی، انہوں نے محض اختلاف کیا، اپوزیشن کی بات آئینی طور پر غلط ہے، بے نظیر بھٹو کی حکومت 18 ماہ بعد ہی چلی گئی تھی کہیں اس کے پیچھے رائے ونڈ تو نہیں تھا، آج یہ ملے ہوئے ہیں، 2008ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو آمر سے ہی حلف لیا، جس کو تبرا بازی کا نشانہ بناتے تھے اور ان کو ریڈ کارپٹ دیا، جن کو بے نظیر بھٹو نے اپنا قاتل قرار دیا، بے نظیر بھٹو نے جس چیف جسٹس کے گھر پر جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا اس پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج لگایا اور محترمہ کا وعدہ وفا نہ کیا، جب تک گورنر راج نہ لگا تب تک مسلم لیگ (ن) کو بھی چیف جسٹس کو بحال کرنا یاد نہ تھا، آج صوبوں کے حقوق اور آئینی نکات یاد دلانے والا اپنا کردار یاد رکھیں۔ سندھ کی بے نظیر بھٹو کی جماعت کی حکومت میں سندھ سے کس نے مشیر برائے امور سندھ بنایا اور وزیراعلیٰ سندھ کے اختیارات دیئے، تب صوبوں کے حقوق یاد نہیں تھے، 2008ءسے 2018ءتک جب دونوں جماعتیں مل کر کھیلتی تھیں تو کیا کچھ ہوتا رہا، ہمارے صدر مملکت سیاسی کارکن ہیں، بہت پڑھے لکھے انسان ہیں، اپنی سندھ سے جیتی ہوئی نشست چھوڑ کر صدر بنے ہیں، وہ سندھ کے بھی نمائندہ ہیں، پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ کی جماعت ہے، آئندہ الیکشن میں سندھ بھی ہمارا ہو گا، پیپلز پارٹی تو وہ سیٹ بھی ہار گئی جو بے نظیر بھٹو کی سیٹ تھی۔ بلاول بھٹو زرداری کو لاڑکانہ میں جلسہ کا چیلنج کرتا ہوں کہ وہ بھی جلسہ کریں ہم بھی، پتہ چل جائے گا کس کا جلسہ بڑا ہے، صدر کو آئین نے آرڈیننس کا اختیار دیا ہے، ہم پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلہ میں 25 فیصد کم آرڈیننس لائے ہیں، ہم نے چور سیاسی قیادت کے پیھچے اپنی جوانیاں ضائع نہیں کیں، ذوالفقار علی بھٹو نے یہ جزیرے پورٹ قاسم کو دیئے تھے، ہم نے کسی صوبے کے حقوق غصب نہیں کئے، سندھ کی کابینہ نے بھی ان جزیروں کو وفاق کو دینے کی منظوری دی، صدر پاکستان کا آرڈیننس آنے کے بعد بلاول جو پرچی پر چیئرمین بنے ہیں، کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے اپنی کابینہ کے لیٹر کو ہی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مہمند ڈیم کا معاملہ 15، 20 سال سے چل رہا تھا کس نے منع کیا کہ اسے نہ بنائیں، باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا کوئی رہنما وہاں نہیں کیا، اچکزئی پختونوں کے حقوق کے چیمپیئن بنتے ہیں اگر اس ملک میں کوئی پنجابی استعمار ہے جسے میں نہیں مانتا تو اس کی سب سے بڑی علامت تو نواز شریف ہیں، بغیر ویزوں کے جندالوں کو دورے کراتے رہے، شادیوں میں آتے جاتے رہے، بنڈل آئی لینڈ میں وفاقی حکومت وہ کرنا چاہتی ہے جو کسی حکومت نے نہیں کیا، وہاں فش ہاربر بنے گا، یہ نہ خود کوئی کام کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں، عمران خان نے کہا تھا کہ احتساب ہو گا تو یہ سارے مل جائیں گے، آج اگر مہنگائی ہے تو عمران خان نہیں لایا، یہ سابقہ حکومتوں کا کارنامہ ہے۔