اسلام آباد۔3مئی (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017کی 49 شقوں میں ترامیم لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال ،بیرون ملک پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے، انتخابی امیدواروں کی جانب سے ریٹرننگ افسران کی تعیناتیوں کو چیلنج کرنے،نادرا کی انتخابی فہرستوں کی تیاری اور حلقہ بندیاں آبادی کی بجائے رجسٹرڈ ووٹروں کی بنیاد پر کی جاسکے گی۔
پیر کو پاک چائنا فرینڈشپ سنٹر میں وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی اصلاحات ایسا مسئلہ ہے جس سے آئینی بحران تو پیدا نہیں ہوگا مگر آئینی اداروں پر عدم اعتماد بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2013کے الیکشن کے موقع پر ملک میں دھاندلی کا طوفان اس وقت اٹھا جب ایک جج صاحب نے ریٹرننگ افسران سے خطاب کیا،اس وقت 22سیاسی جماعتوں نے 2013 کے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے صرف 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا مگر ان کی مات نہیں مانی گئی اور پھر پی ٹی آئی نے تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ 2013 کے الیکشن غیر ملکی مبصرین نے صاف شفاف قرار دیا۔ بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن نے سپیکر کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات کمیٹی اور بعد ازاں ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کا بھی بائیکاٹ کیا، قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور اپوزیشن نے پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کا ہی بائیکاٹ کرنے کا راستہ اختیار کیا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے انتخابی اصلاحات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں الیکشن ایکٹ 2017 کی 49 شقوں میں ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بعض نئی شقیں بھی شامل کی جائیں گی اور کچھ ختم بھی کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشکلات اور کورونا کی صورتحال کے باوجود خصوصی کمیٹیوں اور قومی اسمبلی کے اجلاس منعقد کئے گئے۔ اپوزیشن کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک صاحب کوٹ اتار کر وفاقی وزیر کو مارنے کے لئے دوڑے اور ایک سابق وزیراعظم نے سپیکر کو جوتا مارنے کی بات کی۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا سول سوسائٹی ، اے پی این ایس، پی پی این ای،بار کونس،بار ایسی ایشنز اور پریس کلبز کی سطح پر لیکر جائے گی۔
انتخابی اصلاحات کے چیدہ چیدہ نکات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018 سے 2021 تک دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے ہیں مگر کسی بھی فورم پر دھاندلی کا ایک ثبوت بھی پیش نہیں کیا جاسکا۔ وزیراعظم کے ویژن کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 103 میں ترمیم لائی جائے گی جس کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا جاسکے گا، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے سیکشن 94 میں ترمیم لائی جائے گی،سیکشن 202 میں ترمیم کی جائے گی اور 213-A نئی شق متعارف کرائی جائے گی جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار کے فروغ اور سیاسی جماعتوں کے لئے اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرنا لازمی ہوگا۔
بابر اعوان نے کہا کہ پولنگ سٹاف کے خلاف شکایات کے ازالے کے لئے شق 15 میں ترمیم لائی جارہی ہے جس کے مطابق انتخابی امیدوار آر او کی تقرری کو 15دنوں میں چیلنج کرسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ جعلی ووٹ کے سدباب کے لئے نادرا کے ڈیٹا کی بنیاد پر انتخابی فہرستیں تیار ہوں گی۔ انتخابی حلقہ بندیاں درست کرنے کے لئے آبادی کے بجائے نادرا کی ووٹر فہرستوں کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی ایک بھی سیاسی جماعت کے مفاد میں ہو، ہم نے 16 اکتوبر 2020 کو انتخابی قوانین ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس حوالے سے ہم دیگر راستے بھی اختیار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے لئے دو آئینی ترامیم بھی لائی جائیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کسی ایک جماعت کی نہیں سب کی ہے۔ آزاد کشمیر،جی بی اور تمام صوبوں میں الیکشن کمیشن کے دفاتر موجود ہیں ۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہر علاقے کے حالات کے مطابق الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا، کسی جگہ کا موازنہ بھی راولپنڈی وغیرہ سے نہیں کیا جائے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا حتمی فیصلہ تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابی ایکٹ 2017کی شق میں 11 میں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو مزید خودمختاری دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کا یہ کہنا درست نہیں کہ ساری دنیا نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو مسترد کیا ہے، بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور ترمیم لائی جارہی ہے جس کے ذریعے جو بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کا منتخب رکن 60 دن تک حلف نہیں اٹھائے گا اس کی نشست ختم تصور ہوگی۔