اسلام آباد۔27مئی (اے پی پی):وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کہ تنازعہ کشمیر ایک حقیقت ہے اور کوئی بھی اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے نہیں ہٹا سکتا،اقوام متحدہ فلسطین اور جموں و کشمیر تنازعات کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے جو سات دہائیوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں ہیں۔
وہ جمعرات یہاں وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر والکن بوزکیر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال اور تنازعہ جموں و کشمیر کے درمیان مماثلت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ہی خطوں میں مظلوم عوام انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینی اور کشمیری عوام۔سے وعدے کئے گئے لیکن وعدوں کی پاسداری نہیں ہوئی۔غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں ہسپتالوں اور فلاحی اداروں پر حملے کئے گئے،جہاں سینکڑوں بے گناہ افراد شہید اور زخمی ہوئے،دونوں تنازعات کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں ہیں۔یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے،اقوام متحدہ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطین میں لگی آگ صرف مذاکرات سے ہی بجھ سکتی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یو این جنرل اسمبلی کے صدر امن عمل کو آگے بڑھائیں،کشمیر کی صورتحال فلسطین نے مختلف نہیں۔وزیر خارجہ نے صدر جنرل اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل میں اتفاق رائے کی ناکامی کے بعد او آئی سی، عرب گروپ،اور نیم آپ کی جانب دیکھ رہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا نیویارک آنے کا ابتدائی مقصد سیز فائر کے حوالے سے ہمیں حاصل ہوا،لیکن ابھی چنگاری سلگ رہی ہے ۔ وزیر خارجہ نے کہ ہم توقع رکھتے ہیں صدر جنرل اسمبلی اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کیلئے "امن عمل” کا آغاز کریں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے آج صدر جنرل اسمبلی کے ساتھ فلسطین اور کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا،فلسطین اور کشمیر کی صورتحال میں گہری مماثلت ہے۔دونوں جگہ آبادیاتی تناسب کی تبدیلی کا مسئلہ درپیش ہے ۔فلسطین اور کشمیر دونوں جگہوں پر نہتے لوگوں کو مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کشمیر میں بھی یہی ہو رہا ہے ۔فلسطینی اور کشمیری پوچھتے ہیں کہ ہم سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہیں مگر کہاں ہیں؟
وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے صدر جنرل اسمبلی کو افغانستان میں قیام امن کی کاوشوں سے آگاہ کیا۔استنبول پراسس، کے حوالے سے استنبول میں پاکستان، افغانستان، ترکی کے مابین سہ فریقی اجلاس کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی،آج صورتحال تبدیل ہو چکی ہے آج پاکستان کو مسائل کا موجب نہیں بلکہ مسائل کے حل کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کے حوالے سے بھی ہماری گفتگو ہوئی۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی لیڈر شپ قیادت کا کردار ادا کرے۔یو این جنرل اسمبلی کے صدر والکن بوزکر نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کا پہلا نتیجہ تھی،یہ محض شروعات ہیں،فلسطینی مسلے پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے میرا غیر جانبدار رہنا میرا فرض ہے۔امن عمل کو آگے نہ بڑھایا گیا تو صورتحال تبدیل ہو جائیگی۔فلسطین اور کشمیر کے مسلے کی نوعیت ہے، کشمیر کا مسلہ بھی کئی دہائیوں سے یو این ایجنڈے میں ہے۔
والکن بوزکر نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات مفید رہی۔فلسطین کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے مضبوط موقف اپنایا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے میں کامیاب رہے۔والکن بوزکر نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کیلئے انتہائی اہم ہے۔والکن بوزکر نے وزیر اعظم عمران خان کے ٹن بلین ٹری سونامی منصوبے ، قرضوں سے نجات کے اقدام اور کوویڈ ۔19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا۔