پاکستان امن کا خواہشمند ہے اور افغانستان میں استحکام چاہتا ہے، ہم افغان معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں نہ ہمارا کوئی فیورٹ ہے، افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ طالبان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

76
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی بھارتی ریاست کرناٹک میں پیش آنے والے واقعہ کی شدید مذمت

اسلام آباد۔2جولائی (اے پی پی):وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان امن کا خواہشمند ہے اور افغانستان میں استحکام چاہتا ہے، ہم افغان معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں نہ ہمارا کوئی فیورٹ ہے، افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ طالبان کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرے، افغانوں کو آپس میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے، پاکستان افغانستان کے حوالے سے ایک تعمیری کردار ادا کر رہا ہے اور کرتا رہے گا، سی پیک پر فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر ایک قومی اتفاق رائے موجود ہے، ہم نے ہر صورت سی پیک منصوبے کو آگے بڑھانا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہرگز نہیں چاہے گا کہ کابل پر کسی قسم کوئی چڑھائی یا قبضہ ہو جائے، اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت بھی اپنے رویئے میں لچک دکھائے اور طالبان کے ساتھ بیٹھ کر گفت و شنید کے ذریعے معاملات کو حل کرے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا ایک بہت بڑا مطالبہ فوجی انخلاء کا تھا اور ان کا یہ مطالبہ عنقریب ہی پورا ہو جائے گا، طالبان بھی افغان ہیں اور اشرف غنی کے ساتھی بھی افغان ہیں، اب افغانوں نے آپس میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان افغانستان کے حوالے سے ایک تعمیری کردار ادا کر رہا ہے اور کرتا رہے گا، ہم افغانستان کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کر رہے ہیں اور نہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی فیورٹ ہے، یہ تاثر دینا کہ ہم کسی ایک کے حامی ہیں یہ بالکل بھی درست نہیں ہے، افغان جو فیصلہ کریں گے ہم اس کو من و عن قبول کریں گے، اب یہ افغانوں کا معاملہ ہے کہ وہ اس چیلنج سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں کوئی خلاء پیدا ہوتا ہے تو اس کا فائدہ منفی قوتیں اٹھا سکتی ہیں اور اس طرح دہشتگرد نیٹ ورکس کو سپیس مل جائے گی، اس طرح ہمارے خدشات اور ہماری تشویش میں اضافہ یقیناً ہوگا، ہم اپنی حد تک جو کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں، ہم نے اپنی بارڈر مینجمنٹ کو بہتر کیا ہے، ہم وہاں اپنے ٹروپس کی تعیناتی کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سفارتکاری کر رہے ہیں، ایران کے وزیر خارجہ سے میری ملاقات ہوئی ہے اور ہم نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے، چین کے وزیر خارجہ کے ساتھ بھی ایک ملاقات ہوئی جس میں افغانستان کے وزیر خارجہ بھی شامل تھے، اسی طرح روس کے وزیر خارجہ سے ملاقات اور تبادلہ خیال ہوا ہے، تاجکستان کے وزیر خارجہ سے ملاقات اور تبادلہ خیال ہوا ہے، اس طرح جتنے گرد و نواح کے ممالک ہیں ان کو ہم اعتماد میں لے رہے ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے رابطے ہیں اور ہم مشاورت میں بھی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ سی پیک پر فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر ایک قومی اتفاق رائے موجود ہے، سی پیک نے اپنے منطقی انجام کو پہنچنا ہے، کسی کو پسند ہو یا ناپسند ہو لیکن سی پیک ہماری ضرورت ہے، ہم نے بہرصورت سی پیک منصوبے کو آگے بڑھانا ہے، اس حوالے سے ہم پر کوئی دبائو غالب نہیں آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کی سیکورٹی کے لئے ہم نے خاطر خواہ انتظامات کئے کیونکہ ہمیں خدشات تھے کہ ایسے عناصر ہیں جو اس پراجیکٹ کے اندر رخنہ اندازی کر سکتے ہیں، ہندوستان اور دیگر قوتیں خائف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سی پیک منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے اور یہاں سرمایہ کاری آتی ہے اور گوادر پورٹ اگر اکنامک حب بن جاتا ہے تو اس سے گوادر کے مدمقابل بہت سے پورٹس پر بھی پریشر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ملک ہے اور چین کے ساتھ ہم نے اپنی دوستی برقرار رکھنی ہے، اگر ہم چین کے دوست ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم امریکہ کے مخالف ہیں، ہم امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، چین نے ہمیں کبھی بھی نہیں کہا کہ آپ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات بگاڑیں۔