نواز شریف سزا یافتہ ہیں اور ٹرائل کورٹ میں جرم ثابت ہوا ہے، مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو

52
‏ساہیوال کے رانا صاحب کو نواز شریف نے 2015میں گلگت کا چیف جج لگایا،بیرسٹر شہزاد اکبر

اسلام آباد۔9جولائی (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے، نواز شریف سزا یافتہ ہیں اور ٹرائل کورٹ میں جرم ثابت ہوا ہے، تفتیش کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ہی کسی شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے، کسی بھی کیس میں ضمانت ملنے کا مطلب کلین چٹ ملنا نہیں ہے، ہم نیب کے ترجمان نہیں ہیں، نیب آزاد ادارہ ہے، ہم صاف و شفاف انتخابات چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی کیس ٹرائل چلنے کے بعد ثابت کیا جا سکتا ہے، ٹرائل وہ ہوتا ہے جس میں شہادتیں پیش کی جاتی ہیں، شواہد ریکارڈ کئے جاتے ہیں، اس کے بعد ٹرائل کورٹ اپنا فیصلہ سناتی ہے، اگر ٹرائل کورٹ یہ کہہ دے کہ جرم ثابت نہیں ہوتا تو پھر قانونی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرم ثابت نہیں ہوا، جب کوئی بھی معاملہ ٹرائل کورٹ میں چلے گا تو نیب کیسز میں ضمانت کے معاملات کیس پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ دوران تفتیش، انکوائری یا ٹرائل کسی بھی ملزم کا حراست میں ہونے کا واحد مقصد ہوتا ہے کہ اس سے تحقیقات کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی پرائیویٹ آدمی کے اثاثے اگر آمدن سے زیادہ ہوں گے تو وہ نیب کا کیس نہیں ہوگا بلکہ وہ ایف بی آر کا معاملہ ہوگا لیکن اگر کوئی شخص پبلک آفس ہولڈر ہوگا اور اس کے پاس آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس نے کرپشن کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اس وقت سزا یافتہ ہیں، ان کی اپیل خارج کر دی گئی ہے، ٹرائل کورٹ سے نواز شریف کا جرم ثابت ہوا ہے، وہ ملک سے مفرور ہیں، اپیل تب ہی چل سکے گی جب وہ واپس آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نیب کے ترجمان نہیں ہیں، نیب ایک آزاد ادارہ ہے اور قانون کے تحت کام کرتا ہے، نیب کا قانون بھی پاکستان تحریک انصاف نے نہیں بنایا، پاکستان تحریک انصاف کا اس میں صرف ایک ہی کردار ہے جو ہمارا اپنے ووٹرز سے بھی وعدہ تھا کہ ہم انصاف چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قانون نیب نہیں بناتی بلکہ قانون پارلیمان بناتی ہے اور قانون کی تشریح عدالتیں کرتی ہیں، کسی بھی ملزم کو اس وقت گرفتار کیا جاتا ہے جب تحقیقاتی افسر یہ سمجھتا ہے کہ ملزم کی گرفتاری تفتیش کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے، خواجہ آصف جس رقم کو اپنی تنخواہ بتاتے ہیں اس رقم کے حوالے سے انہوں نے آج تک کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا۔

ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ جب قتل کے مقدمے میں کسی شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس شخص کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، نیب کے قانون کے مطابق کسی شخص کی گرفتاری کے میرٹ کا فیصلہ چیئرمین نیب کرتا ہے جو سپریم کورٹ کا سابق جج ہوتا ہے، اگر کسی جگہ پر نیب کے گرفتار کرنے کے قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو عدلیہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ نیب کے اس اختیار کو ختم کر سکتی ہے۔