جاپان میں مقیم پاکستانی ہارون قریشی بے گھر افراد، پناہ لینے والے غیر ملکیوں اور کمزور طبقات کیلئے مسیحا بن گئے،کئی ضرورت مندوں کو خوراک اور کپڑوں کے علاوہ مسجد فنڈ سے مدد کی جاتی ہے

86

ٹوکیو۔12جولائی (اے پی پی):30 برس قبل تعلیم کی غرض سے جاپان آ نے والےپاکستانی ہارون قریشی بے گھر افراد، پناہ لینے والے غیر ملکیوں اور معاشرہ کے غریب اور کمزور طبقات کیلئے مسیحا بن گئے۔وہ غریبوں کی مدد کر کےاعلی انسانی خدمات فراہم کر ر ہے ہیں ۔

ہارون قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں بے گھر لوگوں اور بعض اوقات ان غیر ملکیوں کی مدد کرتا ہوں جنہیں امیگریشن حکام پناہ نہ ملنے پر گرفتار کر لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا یہ یقین ہے کہ تمام افراد قطع نظر کسی قومیت یا مذہب ، ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہارون قریشی جو دارالحکومت ٹوکیو میں ایک مسجد کی دیکھ بھال کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں، نے کہا کہ میرا مذہب اسلام مصیبت زدہ لوگوں کی مدد پر زور دیتا ہے، ہمارے مذاہب ، رنگ اور نسل مختلف ہو سکتے ہیں مگر میں ہر ایک سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس انسانی خاندان کے دکھ درد کو سمھجیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دیگر ممالک کی نسبت جاپان میں بے گھر افراد اور ضرورت مند لوگ کم توجہ حاصل کر پاتے ہیں اور بے گھر افراد کو غیر سرکاری تنظیمیں یا سرکاری ادارے مدد فراہم کرتے ہیں۔

بے گھر افراد کے ساتھ عوامی رویہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جاپان میں اس حوالے سے آگاہی کا فقدان ہے، آخر لوگ کیوں مجبور ہو کر سڑکوں پر آ جاتے ہیں، کچھ افراد بے گھر ہونے کی وجہ سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور کئی افراد نشہ یا سستی میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔

ہارون قریشی نے کہا کہ اکثر اوقات بے گھر افراد ذہنی امراض کا شکار ہوتے ہیں جو معاشرہ میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتے۔ ہارون قریشی کے ہمراہ کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم تینو ہاسی کے ڈائریکٹر کینجی سینو نے کہا کہ تیز رفتار جاپانی معاشرہ میں سخت محنت اور احساس ذمہ داری کی تاکید کی جاتی ہے اور بے گھر افراد کی مدد کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جاپانی کلچر محنت نہ کرنے والوں کی مدد نہیں کرتا بلکہ ان کیلئے جرمانہ پر بھی غور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی وجہ ہو ہم کسی صورت ناکامی قبول نہیں کر سکتے۔

ہارون قریشی نے کہا کہ وہ دیگر طلبہ کے ہمراہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر لوگ تنگ آ کر گلیوں میں کیوں آ جاتے ہیں جس کی ایک وجہ نوکریوں سے نکالا جانا یا روزگار نہ ملنا بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سڑکوں پر دیکھتا ہوں کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اچھے لباس کے ساتھ اپنے کام پر جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہاں کھانا لینے آتے ہیں ۔

کیو یونیورسٹی میں زیر تعلیم 18 سالہ جاپانی طالب علم ستورو سوئی جیما نے کہا کہ بے گھر افراد ہمارے معاشرہ کے کمزور لوگ ہیں اس سے پہلے میں ان سے کبھی نہیں ملا مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ میں ان کی مدد کیلئے کچھ کر سکتا ہوں۔ جاپانی وزارت بہبود کے مطابق جنوری 2021ء میں بے گھر افراد کی مجموعی تعداد 3824 تھی تاہم تینو ہوسی نے بتایا کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہارون قریشی فوڈ بینک کے نام سے ایک اور پراجیکٹ کے ذریعہ پارٹ ٹائم سے محروم ہونے والے طلباء کی بھی مدد کر رہے ہیں جو کورونا وائرس کے سبب بے روزگار ہوئے جن کیلئے رضا کار دیگر علاقوں سے خوراک اکٹھی کرتے ہیں۔

ہارون قریشی نے بتایا کہ میں سال 2000ء سے سیاسی پناہ کے حصول میں ناکام رہنے پر نظربند افراد کی بھی مدد کر رہا ہوں جنہیں نہ صرف مسجد کے فنڈز سے مدد دی جاتی ہے بلکہ عارضی طور پر رہائی پانے والوں کیلئے ایک ضامن کے طور پر بھی کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جیلوں میں قید ایسے افراد کو صرف خوراک مہیا ہوتی ہے جن کیلئے نہ تو کپڑے یا دیگر بنیادی ضروریات اور اپنے خاندانی افراد سے رابطہ کیلئے فون کارڈ میسر ہوتا ہے، ہم ان افراد کی ضروریات کیلئے مسجد فنڈز سے 500 ین فراہم کرتے ہیں۔

ہارون قریشی جنہوں نے ماضی میں جیلوں میں مترجم کے طور پر بھی کام کیا ہے، انھوں نے کہا کہ جیل حکام کا نظربند افراد کے ساتھ سرد مہری کا رویہ ہوتا ہے جن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ انہوں نے اس سال مارچ میں نوگویا میں سری لنکا کی ایک خاتون کی ہلاکت کا بھی ذکر کیا جسے پیٹ کی بیماری کے باوجود عارضی طور پر علاج معالجہ کیلئے رہا نہ کیا گیا۔ ہارون قریشی نے کہا کہ جیل حکام کو اس خاتون کی اچھی دیکھ بھال کرنا چاہئے تھی اس کے ساتھ واقعی غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا اسی طرح دیگر نظربند افراد نے بھی اپنا علاج معالجہ نہ ہونے کی شکایات کیں۔ انہوں نے کہا کہ دکھی انسانیت کی مدد کرنے پر لوگ میری خدمات کو عظیم قرار دیتے ہیں مگر میں اسے ایک فطری امر قرار دیتا ہوں۔