اسلام آباد۔14جولائی (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان تنازعہ کا سیاسی تصفیہ افغانستان اور خطے کے تمام ممالک کے لئے یکساں ثمرات کا باعث بنے گا،تصفئے سے خطے کو یکجا کرنے اور باہم جوڑنے کی راہ ہموار ہوگی،دہشت گرد نیٹ ورکس میں مسلسل توسیع ،انتہاءپسند، منشیات کے دھندے میں ملوث عناصر اورسمگلنگ امن اور سلامتی کے ہمارے مشترکہ اہداف کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔پاکستان جیواکنامکس حکمت عملی پر کاربند رہنے کے لئے پرعزم ہے ،ہم خطے اور دنیا کو ملانے اور اس کی یکجائی چاہتے ہیں۔بدھ کو دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم(ایس۔سی۔او) کے افغانستان پر رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ دوشنبے میں ’ہارٹ آف ایشیا۔استنبول پراسیس‘ کے فریم ورک کے اندر ہم نے جامع ”امن وترقی کے لئے اتفاق رائے کی تقویت کا دوشنبہ اعلامیہ“ منظور کیا تھا۔اس وقت سے افغانستان کے اندر صورتحال میں بہت تبدیلیاں آئی ہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر افغان فریقین کے درمیان فوجی تصادم جاری رہے تو مزید عدم استحکام اور معاشی مسائل پیدا ہوں گے اورافغان مہاجرین کے ہمسایہ ممالک کی طرف مزید بہاو میں اضافہ ہوگا اور دہشت گردی بڑھے گی۔ ہماراہمسایہ افغانستان اگر سنگین مسائل کا سامنا کررہا ہو تو کیا ہم اس سے اپنا منہ موڑ سکتے ہیں؟ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی آپشن ہے۔ہمارے خطے میں امن، خوشحالی اور معاشی ترقی باہم منسلک ہے۔ ہماری منزل سانجھی ہے۔بہتر مستقبل کے لئے ہماری امیدوں کا انحصار امن، استحکام اور ترقی کی راہ پر ہمارے مل کر آگے بڑھنے پر ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے دوست اور شراکت دار کس حد تک کچھ کرسکتے ہیں، اس کی یقینا حدود ہیں۔ آخرکار افغانوں نے بذات خود ہی دانشمندی اور بصیرت کے ساتھ افغان قوم کے بہترین مفاد میں کردار ادا کرنا ہے۔ہم اپنے حصے کے طورپر مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیہ کے ناگزیر ہونے،تشدد میں کمی اور جنگ بندی کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اورافغان امن عمل کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے۔ علاقائی مفادات کے لئے افغانستان کو کسی اور کے مقاصد کی تکمیل کی سرزمین بنانے کی اجازت نہ دینے کا عزم کیاجائے۔
اتفاق کیاجائے کہ افغانوں کے اپنے مستقبل کے لئے فیصلے کا احترام اورافغانستان کی طویل المدتی تعمیر نو اور معاشی ترقی کے لئے مدد کا اعادہ کیاجائے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان قائدین اس موقع کا فائدہ اٹھائیں اور تعمیری انداز میں آپس میں بات چیت کریں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے لئے مل کر کام کریں۔ اجتماعیت کا حامل، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی حل ہی ناگزیر امر ہے۔ پاکستان کا نکتہ نظر بالکل واضح رہا ہے۔ پاکستان کے سوا اور کوئی ایسا ملک نہیں ہوگا جو سب سے زیادہ افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام کے نتیجے میں سب سے زیادہ جو
ملک متاثر ہوتا ہے، وہ پاکستان ہے۔افغانستان میں ہمارا کوئی ’فیورٹ‘ (پسندیدہ) نہیں ہے۔ ہم نے تمام افغان فریقین تک پہنچنے کی کوشش کی ہے تاکہ پرامن حل کو فروغ مل سکے۔ ہم نے امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت میں معاونت کی ہے اور دوطرفہ طورپر ہم افغان حکومت کے ساتھ شریک کار اور رابطے استوار کر رہے ہیں تاکہ تجارت اور معاشی تعلقات کو فروغ دیا جائے، ہم نے سرحدی مقامات پر نئی گزرگاہیں کھولی ہیں۔ ہمیں عالمی برادری سے توقع ہے کہ وہ اس کوشش میں وسائل اور وقت کے واضح تعین کے حامل خاکے کی تیاری کے ذریعے ہماری مدد کرے۔پاکستان جیواکنامکس حکمت عملی پر کاربند رہنے کے لئے پرعزم ہے جس کے ذریعے ہم خطے اور دنیا کو ملانے اور اس کی یکجائی چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کی سلامتی ہمسایوں کے ساتھ ہماری طویل سرحدات سے جڑی ہے۔دہشت گرد نیٹ ورکس میں مسلسل توسیع اور انتہاءپسند، منشیات کے دھندے میں ملوث عناصر اور دہشت گردوں کے خطے میں باہم اشتراک اور انسانوں اوراشیاءکی بلاروک ٹوک سمگلنگ وہ بڑے مسائل ہیں جو امن اور سلامتی کے ہمارے مشترکہ اہداف کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔داعش/ ’آئی۔ایس۔آئی۔ایس‘ کے افغانستان کے اندر ’ٹی۔ٹی۔پی‘، ’ای۔ٹی۔آئی۔ایم‘ جیسی بڑی دہشت گرد تنظیموں اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے ساتھ انضمام کا نتیجہ صرف بڑے انسانی المیے اور سیاسی عدم استحکام کی صورت برآمد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے امیر اور وسائل سے مالا مال خطے میں معاشی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔
یہ دہشت گرد گروہ افغانستان کے لئے ہمسایہ ممالک کے لئے بھی خطرہ ہیں۔یہ یقینی بنانا لازم ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے اور مستقل ایسی کوششیں درکار ہیں جس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ہرشکل کا خطے سے خاتمہ ہو۔ داخلی اور عالمی سطح پر انسانی ترقی اور معاشی شرح نمو کے لئے لازمی تقاضا امن کا قیام اور اس کا جاری رہنا ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان اور خطے کے تمام ممالک کے لئے ایک اجتماعیت کا حامل سیاسی تصفیہ سب کے لئے یکساں ثمرات کا باعث بنے گا۔ اس کے نتیجے میں خطے کو یکجا کرنے اور باہم جوڑنے کی راہ ہموار ہوگی، یہ وہ ثمر ہے جو افغان اور دیگر چاہتے ہیں۔