اقوام متحدہ۔10ستمبر (اے پی پی):پاکستان نے زور دیا ہے کہ افغانستان میں انسانی صورتحال سنگین ہے لہذا بین الاقوامی برادری نئی تبدیلی پر متفقہ نقطہ نظر اپنائے اور ملک میں امن و استحکام کی بحالی میں مدد کرے کیونکہ مسابقتی اور غیرمتفقہ نقطہ نظر سے افغانستان اور پورے خطے میں امن و استحکام کے فروغ اور خوشحالی کے مواقع کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان صورتحال پر مباحثے کے دوران آئرلینڈجو ستمبر کے مہینے کے لیے سلامتی کونسل کا صدر ہے کا شکریہ ادا کیا جس نے افغانستان کی صورتحال پر پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی شرکت کو یقینی بنایا ہے جبکہ اس کے برعکس اگست میں بھارت نے سلامتی کونسل کی صدارت کے دورا ن افغانستان پر کونسل کے اجلاسوں میں پاکستان کی شرکت کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔
پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا، کشیدگی اور ماضی کی حکومتوں کی ناکامی اور کرپشن کے باعث افغانستان میں انسانی صورتحال خوفناک ہے جہاں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو فوری مدد کی ضرروت ہے لہذا ہمیں افغانستان کی صورتحال کو مزید بدترین ہونے سے روکنا ہو گا جس سے مہاجرین کا بحران جنم لے سکتا ہے اور امن او استحکام کے قیام کو مشکل بنا سکتا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ڈیبورا لیونز کے اس مطالبے کی حمایت کی جس میں انہوں نے افغانستان کے لئے اس کے مالی وسائل تک رسائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ مالی وسائل تک رسائی افغانستان میں معاشی صورتحال مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے ۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریش کے 13 ستمبر کو جنیوا میں بین الاقوامی امدادی کانفرنس کے انعقاد کے اقدام کو بھی سراہا اور زور دیا کہ عالمی برادری دل کھول کے امداد کرے کیونکہ افغانستان آج اپنی تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے اور افغان عوام بین الاقوامی برادری کے تعاون سےبحالی امن اور ترقی کے امکانات کو زندہ کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں نازک حالات کے باوجود اب تک خون ریزی کا خطرہ ٹل گیا ہے ۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ موجودہ افغان حکومت ملک میں امن و امان اور سلامتی کے احساس کے قیام اور لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کامیاب ہو گی اور اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کےساتھ تعاون کر کے بین الاقوامی امداد کی بروقت فراہمی کو یقینی بنائے گی ۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان سے بین الاقوامی تنظیموں کے سفارتکاروں اور عملے سمیت 30 ممالک کے 12 ہزار شہریوں اور کے انخلا میں مدد کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت سے مستقبل میں بھی پرامن اور منظم طریقے سے ملک سے نکلنے کے خواہشمند افراد کے انخلا کو یقینی بنایا جائے گا جبکہ ملک میں خوف کے احسا س کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس سے افغانستان سے مہاجرین کا سیلاب آئے کیونکہ اس وقت افغانستان کوتعمیرنو کے لیے اپنے باصلاحیت اور ماہر لوگوں کو ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ عدام استحکام اور معاشی بدحالی تنازعات کو برقرار رکھے گی اور افغان عوام کی مشکلات کو طول دے گی لہذا ایسی صورتحال سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا سوائے ان لوگوں کے جو افغانستان میں جاری تنازعے کو اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی سرپرستی کے لیےاستعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے امدادی ورکرز اور اہلکاروں کے تحفظ اور ان کی افغانستان میں بلارکاوٹ رسائی کی اجازت دینے کو یقینی بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے اداروں کے تعاون سے افغانستان میں خوراک اور ادویات پر مشتمل امددای سامان پہنچانے میں مدد کی اور خوراک اور ادویات کے 3 جہاز فوری طورپر بھیج رہا ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان میں کشیدگی کے نتائج سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ملک کی حیثیت سے افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کے سینکڑوں دہشت گرد حملوں کا سامنا کیا جو دشمن خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی میں کیے گئے لہذا دہشت گرد گروپوں کی طرف سے لاحق خطرے سے جامع اور باہمی تعاون سے نمٹنا چاہیے۔
پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ ہم افغانستان میں موجود دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے کابل حکام اور بین الاقوامی برداری کے ساتھ کام کریں گے