کراچی۔12ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے بحری امور سید علی زیدی نے کہا ہے کہ بلیو اکانومی ملک کی معیشت کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے،پورٹ قاسم پاکستان کی پریمئیر پورٹ بن گئی ہے،ماضی میں کے پی ٹی اور پورٹ قاسم میں سمندر میں بھی زمینوں کو فروخت کیا گیا،کے پی ٹی میں اب بھی گنجائش سے زائد ملازمین موجود ہیں، کراچی کے ساحل پر پھنسنے والے بحری جہاز ہینگ ٹونگ77کو واجبات کی ادائیگی تک پاکستان سے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو کے پی ٹی ہائوس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بحری امور محمود مولوی اور کے پی ٹی کے دیگر اعلی افسران بھی موجود تھے۔
علی زیدی نے مزید کہا کہ بلیو اکانومی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے،ملک کی80فیصد تجارت پورٹ سے ہوتی ہے، 80فیصد کسٹم کی وصولی پورٹ سے ہوتی ہے،جب ہم اقتدار میں آئے اور ریسرچ کی تو لفظ سیکھا ”’بلیو اکانومی”’۔ جہاز رانی، بندرگاہ، شپنگ بلیو اکانومی کا حصہ ہیں۔
ملکوں میں صنعتیں پورٹ کے قریب لگتی ہیں تاکہ پیداواری لاگت کم ہو، کوئلہ اور تیل سب سمندر پر آتا ہے، فشری بہت بڑا سیکٹر ہے، مینگروز پلانٹیشن ماحول کی تبدیلی کے لئے ضروری ہے، سمندر میں بہہ کر جانے والا کچرا سمندر خراب کرتا ہے، ماضی میں ماہی گیری پر کبھی توجہ نہیں دی گئی،ملکی معیشت کا انحصار سمندر سے تجارت پر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ جہاز پھنسا اور بغیر ٹوٹے ہوئے نکلا،جہاز ٹوٹنے میں کچھ لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے، تسمان اسپرٹ جہاز آئل ٹینکر تھا اور اسے نکالنا ایک مشکل عمل تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پورٹ قاسم پاکستان کی پریمیئر پورٹ بن چکی ہے۔
وفاقی وزیر علی زیدی کا کے پی ٹی کی اراضی کی فروخت کے حوالے سے کہنا تھا کہ ماضی میں پانی میں زمینیں بیچی گئیں، بیس بیس سال سے لوگوں کو زمینیں نہیں مل رہیں،کے پی ٹی کی زمین کو کوڑیوں کے دام میں لیز نہیں ہونے دینگے،کے پی ٹی اور پورٹ قاسم میں آئی ٹی اور رئیل اسٹیٹ کے دو نئے شعبے بنائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے پی ٹی کا مالی آڈٹ 2010 سے اب تک نہیں ہوا ہے،ہم پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔تجاوزات، زمینوں پر غیر قانونی قبضوں سمیت بہت سے کیسز ہیں،کے پی ٹی پر 900 سے زائد عدالتی مقدمات ہیں،کے پی ٹی کا ورکشاپ گزشتہ 14 سال سے بند ہے، پی ٹی آئی 14 سال سے اقتدار میں نہیں تھی۔
پورٹ قاسم میں بھی یہی صورتحال ہے، لوگوں نے زمین کے لیے رقم کی ادائیگی کی ہوئی ہے مگر انہیں بھی قبضہ تاحال نہیں ملا۔انڈسٹریل زمین پر اسٹے آرڈر لے کر اس پر قبضہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں،کورنگی فش ہاربر پر گزشتہ 12 سال سے ایم ڈی ہی نہیں تھا۔ہم پر اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلا پریشر نوکریوں کا تھا، کے پی ٹی میں ملازمین کی تعداد پہلے سے بھی زیادہ ہے، یہ تمام کام ایک سیاسی جماعت کے آمر کے تحت ہوا،ادارے پہلے ہی انتظامی بحران کا شکار ہیں۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ 1973 تا 2018 تک پورٹ قاسم نے 67 ارب روپے کا منافع کمایا جبکہ پورٹ قاسم نے 2018 ستمبر تا 2021 جون تک 44 ارب روپے منافع کمایا ہے، ہم نے غیر قانونی کاموں کو اس دورانیہ میں روکا،پورٹ قاسم میں پانی، بجلی سمیت دیگر مسائل حل کئے، ہمارا مقصد پورٹ قاسم کو بین الاقوامی معیار پر بنانا ہے۔
پورٹ قاسم پر 5 نئی برتھیں اور 3 ٹرمینل بنانے جارہے ہیں،ایک چینل میں 55 ملین کیوبک میٹر کی ڈرلنگ ہونی ہے۔ کے پی ٹی، پورٹ قاسم اور پی این ایس سی اب وفاق سے پیسہ نہیں لیں گے۔ ٹول ٹیکس ہم نے ختم کروا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورٹ قاسم ہائبرڈ بسیں خرید کر تعلیمی اداروں کو تحفہ دے گی۔کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی، ڈا اورایس ایم سی یونیورسٹی کو تحفہ دینگے۔
پورٹ قاسم تا کے پی ٹی ایک نئی بس سروس شروع کرنے جا رہے ہیں اور اس مقصد کیلئے40 سے زائد بسیں خریدی جائیں گی،ایک پل بنانے جارہے ہیں جہاں سے ہیوی ٹریفک گزرے گا جس سے شہر میں ہیوی ٹریفک کا رش کم کرنے میں مدد ملے گی۔