اسلام آباد۔21ستمبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ و تحقیق سید فخرامام نے کہا ہے کے نامیاتی زرعی پالیسی کی ترقی ملکی نامیاتی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گی، سنٹر فار ایگریکلچر اینڈ بائیو سائنسز انٹرنیشنل(سی اے بی آئی ) ریجنل بائیو سائنس سینٹر پاکستان ، وزارت قومی غذائی تحفظ وت تحقیق کے زیر نگرانی پاکستان میں نامیاتی زراعت کو فروغ دینے کے لئے نامیاتی زراعت کی پالیسی، اعلیٰ معیار کے نامیاتی بیجوں کی سپلائی اور دیگر بائیو ان پٹ پر کا م کر رہا ہے ، نامیاتی زراعت کی پالیسی کی اس لانچنگ ورکشاپ کا مقصد ایک قومی ورکنگ گروپ بنانا ہے تاکہ پاکستان میں نامیاتی زراعت کے فروغ کے لئے نامیاتی پیداوار کے منظر نامے کے لئے پالیسی ماحولیاتی نظام بنایا جائے۔
ورکشاپ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ (ایم این ایف ایس اینڈ ر) سید فخر امام کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں وفاقی ، صوبائی حکومتوں اور نجی شعبے (بیج ، بائیو ان پٹ کمپنیاں ، ڈیلرز ، مینوفیکچررز ، کسان ایسوسی ایشنز اور نامیاتی کاشتکار) نے شرکت کی تاکہ نامیاتی زراعت کی زمین کی تزئین کی ابھرتی ہوئی مانگ ،غربت کے خاتمے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خاتمے میں اس کے کردار کو تسلیم کیا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز نے نامیاتی زراعت کی پالیسی کی اہمیت ، نامیاتی زراعت کو پائیدار بنانے کے لئے نامیاتی بیج اوربائیو ان پٹس کی دستیابی کو اہمیت کے متعلق اپنی آراءسے ورکشاپ کے شرکاءکو آگاہ کیا۔
نتائج کے طور پر ، منصوبے کا مقصد نامیاتی زراعت کی پالیسی اور قومی نامیاتی معیارات ، ادارہ جاتی نقطہ نظر کو روایتی سے نامیاتی زراعت کی تکنیک میں تبدیل کرنا ہے۔ قومی غذائی تحفظ و تحقیق وفاقی وزیر سید فخر امام نے نامیاتی زراعت کی پیداوار کے حوالے سے پالیسی ترقیاتی کام کی قیادت کےلئے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔
انہوں نے وفاقی وزارت کے ذریعے پاکستان کے لئے نامیاتی زراعت کی پالیسی تیار کرنے کے لئے وفاقی ، صوبائی حکومت اور نجی شعبے کے ارکان کے ساتھ قومی ورکنگ گروپ کے قیام میں مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔انہوں نے مزید کہا کہ نامیاتی زرعی پالیسی کی ترقی ملکی نامیاتی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ سینئر ریجنل ڈائریکٹر ایشیا ڈاکٹر بابر ای باجوہ نے شرکاءکو خوراک کی حفاظت ، موسمیاتی تبدیلی اور برآمدات کے تناظر میں زراعت کو روایتی سے نامیاتی میں تبدیل کرنے کی اہمیت سے آگاہ کیا۔
انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح بین الاقوامی مارکیٹ میں نامیاتی مصنوعات کی ابھرتی ہوئی طلب نے پاکستانی نامیاتی مصنوعات مثلاً کپاس کے لیے مواقع پیدا کیے۔ انہوں نے آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے خطرات کو کم کرنے اور کیمیائی ان پٹ ، کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کم سے کم کرنے کے ساتھ ساتھ زراعت کو زیادہ ماحولیاتی طور پر پائیدار اور معاشی طور پر قابل عمل بنانے کے لیے نامیاتی زراعت کے امکانات کی نشاندہی کی۔چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر محمد عظیم خان نے قومی نامیاتی زراعت کے شعبے کی ترقی کے تناظر میں نامیاتی زرعی پالیسی کی ترقی کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور نامیاتی زراعت کی پالیسی کی تکنیکی مدد کو یقینی بنایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نامیاتی زراعت کے ماحولیاتی نظام میں پاکستان کی بے پناہ صلاحیت غربت اور موسمی تبدیلی سے لڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی آبادیوں کو محفوظ اور صحت مند خوراک کے لئے نامیاتی زراعت کو فروغ دینے ، مستقبل کی نسلوں کے لیے پانی کے موثر انتظامات اور کیمیکل سے بھرپور روایتی زراعت کی پیداوار کے نظام سے گرین ہائو س گیس کے اخراج میں کمی کی اشد ضرورت ہے۔
اختتامی سیشن میں ، ڈاکٹر خالد عبداللہ ، کاٹن کمشنر ، وزارت غذائی تحفظ و تحقیق نے ورکشاپ کے دوران اسٹیک ہولڈرز سے موصول ہونے والی جامع رائے/تجاویز شیئر کیں۔ قومی ورکنگ گروپ کو اس ورکشاپ سے جمع کردہ نامزدگیوں کے ذریعے حتمی شکل دی جائے گی تاکہ وزارت غذائی تحفظ کے تحت نامیاتی زراعت کی پالیسی تیار کی جا سکے۔