مہنگائی کی بنیادی وجہ درآمدی افراط زر ہے، کمزور طبقات کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے جا رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان کا کامیاب پاکستان پروگرام کے اجراء کی تقریب سے خطاب

124

اسلام آباد۔4اکتوبر (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی کی بنیادی وجہ درآمدی افراط زر ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کا نظام اشرافیہ کے لیے ہے، انصاف، تعلیم، قرض سمیت تمام سہولیات امراء اور اشرافیہ کے لیے تھیں، حضرت محمدۖ ﷺنے پہلے فلاحی ریاست بنائی پھر خوشحالی آئی، ماضی میں اپنایا گیا یہ تصور غلط تھا کہ پہلے پیسہ آئے اور پھر فلاحی ریاست بنائیں گے، انسانیت اور انصاف سولائزیشن کی بنیاد ہیں،

عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ ہوا لیکن ہم نے لیوی اور سیلز ٹیکس میں 400 ارب روپے سالانہ کا خسارہ برداشت کرکے صرف 22 فیصد اضافہ کیا، قیمتوں میں اضافہ کا ہمیں احساس ہے اسی لیے آنے والے دنوں میں کمزور طبقات کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے جا رہے ہیں۔ وہ پیر کو یہاں کامیاب پاکستان پروگرام کے اجراء کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

اس موقع پر وزیر خزانہ شوکت ترین، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار، چیئرمین پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم نے وزیر خزانہ شوکت ترین اور ان کی ٹیم کو کامیاب پاکستان پروگرام کے آغاز پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام 74 سال پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا، ہماری یہ سوچ غلط تھی کہ پہلے پیسہ آئے اور پھر فلاحی ریاست بنائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کی بات ہم دنیا کے کامیاب ترین ماڈل کی وجہ سے کرتے ہیں، یہ تاریخ کا حصہ ہے، یہ ایک حقیقت اور تاریخ ہے کہ ایک ایسی تہذیب جس کی کوئی حیثیت نہیں تھی وہ دنیا کی امام بن گئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ نبیۖ ﷺکی سنت اور شریعت کی پیروی کا حکم الٰہی ہماری بہتری کے لیے ہے، اگر ہم اس کو اپنائیں گے تو ہمارا اپنا کردار بہتر ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ میں پہلے فلاحی ریاست بنائی گئی اور پھر خوشحالی آئی۔ انہوں نے کہا کہ چین اور ہندوستان تین چار دہائی قبل برابر تھے لیکن آج چین بھارت کے مقابلہ میں ترقی کے راستے پر بہت آگے نکل چکا ہے، چین نے مدینہ کا ماڈل اپنایا، اپنے کمزور طبقات کو اوپر اٹھایا، غربت کا خاتمہ کیا، ان لوگوں کے لیے طویل المدتی پروگرام بنائے، چین نے جتنی آبادی غربت سے نکالی اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں مثالی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے جو بنیادی اصول اختیار کرنے چاہیے تھے اس طرف توجہ نہیں دی، بدقسمتی سے ہمارا ملک ایک مخصوص اشرافیہ کا ملک بن گیا، ہمارے نظام تعلیم میں ایک مخصوص طبقہ کے لیے مواقع تھے، ہم ایک یکساں نصاب تعلیم لا رہے ہیں، اس پر تنقید کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے، انصاف، تعلیم، قرض، صحت کی سہولیات سب اشرافیہ کے لیے تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ 1700ء میں ہندوستان کا جی ڈی پی 24 فیصد تھا ، وہاں امراء اور عام آدمی کے معیار زندگی میں واضح فرق تھا، امیروں کے جزیرے اور غریبوں کے سمندر کے ساتھ کوئی بھی معاشرہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اپنے متوسط طبقہ کو اوپر لائیں، ان کے لیے ہاؤسنگ کے شعبہ میں فنانسنگ میں مشکلات دور کیں، کمرشل بینکوں کے پاس انفراسٹرکچر اور تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہم نے وزیر خزانہ شوکت ترین کے مائیکرو فنانس کے تصور سے اتفاق کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کامیاب پاکستان پروگرام ایک سنگ میل ہوگا، عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کے لیے اقدامات سے برکت آتی ہے، شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانے کا مقصد غریب آدمی کو علاج کی مفت سہولت کی فراہمی تھا، اس وقت ہمیں کہا گیا کہ اگر پانچ فیصد سے زائد غریب مریضوں کا مفت علاج کیا گیا تو ہسپتال بند ہو جائے گا، ہم نے 70 فیصد مریضوں کا مفت علاج شروع کیا، ہر گزرتے سال ہمیں پاکستانیوں کی جانب سے ملنے والے عطیات میں اضافہ ہوا، ہر سال 9 ارب روپے مفت علاج پر صرف ہو رہے ہیں، یہ اللہ کی برکت ہے، غریب کی دعائیں اللہ سنتا ہے، ہم نے ماضی میں کمزور اور غریب طبقہ کے لیے نہیں سوچا، حکومت نظام اشرافیہ کے لیے بن چکا ہے،

اس کو تبدیل کرنے پر مزاحمت ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کامیاب پاکستان پروگرام میں آنے والے مسائل کی مانیٹرنگ کے لیے نظام ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت غربت سے نمٹنے کے لیے پوری طرح کوشاں ہے، دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ہم نے 22 فیصد اضافہ کیا، جن ممالک میں تیل کی پیداوار ہے ان کے علاوہ تیل درآمد کرنے والے ممالک میں پٹرولیم مصنوعات میں سب سے کم اضافہ ہم نے کیا، گندم میں دنیا میں 37 فیصد اضافہ ہوا، ہم نے صرف 12 فیصد اضافہ کیا،

دنیا میں چینی کی قیمت میں 40 فیصد جبکہ ہم نے 21 فیصد اضافہ کیا، قرضوں کے باوجود ہم نے کمزور طبقہ پر کم سے کم بوجھ ڈالا، پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور لیوی میں کمی کی، اس سے سالانہ 400 ارب روپے خسارہ برداشت کیا، اس کے مقابلہ میں ہندوستان نے سیلز ٹیکس اور لیوی میں کمی نہیں کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں قیمتوں میں اضافہ کا احساس ہے، آنے والے دنوں میں ٹارگٹڈ سبسڈی لا رہے ہیں جس کے تحت اشیاء خوردونوش پر 40 فیصد سبسڈی دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم 70 فیصد گھی درآمد کرتے ہیں، درآمدی افراط زر کی وجہ سے مہنگائی ہے۔