اسلام آباد۔10اکتوبر (اے پی پی):افغانستان سے انخلا کرنے والے افغان شہری اب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ ان کے میزبان ممالک میں سیاسی چالیں چلنے سے ہمدردیاں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔مختلف سرکردہ ادیبوں ، محققین اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ان مہاجرین کو اب غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ بیشتر ممالک انہیں کئے گئے وعدہ کے مطابق سیاسی پناہ اور دیگروہ سہولیات دینے سے گریزاں ہیں جن کے وہ بین الاقوامی قانون کے تحت حقدار ہیں ۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد فرار ہونے کے بعد حال ہی میں جو افغان شہری برطانیہ پہنچے تھے ، انہوں نے برطانوی حکومت کے افغان ری سیٹلمنٹ پروگرام ، آپریشن وارم ویلکم کی کامیابی کے حوالہ سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور برطانوی حکومت سے افغانستان واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اس پروگرام کا 29 اگست کو افتتاح کیا تھا تاکہ جو افغانی برطانیہ پہنچ رہے ہیں وہ "اپنی زندگیوں کو دوبارہ کارآمد بنانے کے لئے کام تلاش کریں ، تعلیم حاصل کریں اوراپنی مقامی کمیونٹیز میں ضم ہوجائیں "تاہم ، رہائش کی وسیع پیمانے پر کمی کا مطلب ہے کہ ہوٹلوں کو000 7 افغان مہاجرین کے لیے ہنگامی عارضی رہائش کا حکم دیا گیا ہے 67 سالہ ایک مرد نے کہاکہ مجھے اس ہوٹل کے کمرے سے باہر نکلنا ہے۔
جنوبی مشرقی لندن کے رائل بورو آف گرین وچ کے کونسلر ڈینی تھورپے نے کہا کہ اگست میں 700 افغان شہری بوروگ پہنچے تھے جن کے لئے منظم حکومتی مدد کا فقدان "ناقابل معافی” ہے ۔ ہیلن بامبر فائونڈیشن کے معروف ڈاکٹر جل او لیئری جو 650 کلائنٹس کے ساتھ کام کر رہے ہیں نے کہا کہ صورتحال "الجھی ہوئی اور پریشان کن ہے” لندن کی رائل ہولو وےیونیورسٹی مکی تاریخ دان آندریا میمونے الجزیرہ پر اپنے مضمون میں تنقید کرتے ہوئے لکھاہے کہ افغانوں کی ناگفتہ بہ حالت زار کو دیکھا جائے تو یورپی سیاست دانوں نے ان افغانوں کی مدد کی اپنی اخلاقی ذمہ داری کے حوالہ سے نسبتا ًبہت کم کام کیا ہے۔
اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ کچھ یورپی سیاستدانوں نے افغان بحران کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ افغانستان کی صورتحال اور افغان عوام کی حالت زار پر یورپی یونین کا موقف انتہائی دائیں بازو کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ دان نے مزید زوردیا کہ یورپ کو دنیا بھر کو دکھنا چاہیئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے نہیں بھاگ رہا ۔انہوں نے مشاہدہ کیا کہ "بفر زون” یا غیر ملکی استقبالیہ مراکز کے قیام کے ذریعے ہجرت کے انتظام اور انسانی ہمدردی کے تحفظ کی تجاویز نئی نہیں ہیں۔
یورپی ممالک بلاک کی وقار ، آزادی ، جمہوریت ، مساوات ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق بنیادی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں افغانستان سے باہر اور یورپ کی طرف آنے والوں کو اس وقت جس صورت حال کا سامنا ہے وہ یونان میں ان لوگوں کے تجربے سے مشابہت رکھتی ہے اور یہ تمام صورتحال اب مشکلات اور خطرات سے دوچار ہے ، بعض اوقات ایک براعظم نے یہ صورت حال جان بوجھ کر پیدا کی ہے جس نے 2015 اور 2016 میں مہاجرین کی تاریخی لہروں کو روکنے کی کوشش کی ہے جس کے تحت پش بیک ، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ، جس میں یونانی سرحدی افواج تارکین وطن کو یورپی ساحلوں تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہیں ، انہیں واپس بین الاقوامی پانیوں میں دوبارہ دھکیل دیا جاتا ہے افغان سیاسی پناہ گزینوں کے ساتھ افغان عوام کی صورت حال کے مابین ایک متوازی نقشہ کھینچ رہے ہیں ۔
افغان مہاجرین بار ے ہالینڈ میں مقیم محقق نصرت سید نے کہا کہ یورپی ممالک اب ان افغانیوں کو سیاسی پناہ دینے سے ہچکچارہے ہیں جن کے ملک میں سکیورٹی میں اربوں کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ ایک اور مصنف نے کہا کہ امریکہ میں ، جہاں ہزاروں افغانیوں کی دوبارہ آبادکاری کی توقع کی جا رہی تھی ، سیاسی شخصیات نئے مہاجرین کے مسئلے کو ایک دوسرے کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔