اسلام آباد۔14اکتوبر (اے پی پی):بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں حالیہ عرصہ کے دوران خوفناک حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے اور گزشتہ 18 ماہ کے دوران صرف ایک ہسپتال میں خودکشی کے 795 کیسز کا اندراج ہو ا جن میں سے 42 کی موت واقع ہو گئی۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ خوف، بے روزگاری، غربت اور رشتوں میں تناوٴ اس رجحان کی وجوہات ہیں۔
بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے سب سے بڑے طبی مرکز شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر کنول جیت سنگھ نے گذشتہ برس اپریل سے اب تک ہسپتال میں خودکشی کے کیسز سے متعلق اعداد و شمار کا حوالہ دے کر بتایا کہ گذشتہ 18 ماہ کے دوران ہسپتال میں خودکشی کے 795 کیسز کا اندراج ہوا جن میں سے 42 کی موت واقع ہو گئی۔
ہسپتال میں موجود ریکارڈ کے مطابق گذشتہ برس اپریل سے اس سال مارچ تک خود کشی کی کوشش کے 515 ایسے واقعات درج ہوئے جن میں 343 واقعات میں خواتین نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خود کشی کے واقعات یوں تو تمام علاقوں میں رونما ہوئے تاہم سرینگر میں آئے روز کوئی نہ کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی دریا میں کُود جاتے تھے۔
جنوبی ضلع کولگام کے ایک دُور افتادہ گاوٴں میں رہنے والے یونیورسٹی طالب علم شعیب بشیر میر اُن سینکڑوں نوجوانوں میں شامل ہیں جنھوں نے گذشتہ دو سال کے دوران زندگی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔ان میں سے اکثر کی جان بروقت ہسپتال پہنچانے پر بچا لی گئی لیکن شعیب ان درجنوں نوجوانوں میں سے ہیں جن کی موت ہو گئی۔
شعیب کے والد بشیر احمد میر محکمہ تعلیم میں استاد ہیں اور پچھلے دو سال سے اُن کی تنخواہ محض اس لیے روک دی گئی تھی کہ وہ ماضی میں عسکریت پسندوں کے ساتھ وابستگی کے الزام میں جیل جا چکے ہیں۔والد کی تنخواہ روک دیئے جانے کے بعد شعیب نے کئی ہفتوں تک مزدوری کر کے دس ہزار روپے جمع کر کے اپنے والد کے بینک اکائونٹ میں جمع کروائے تاکہ کہ وہ یونیورسٹی کی فیس جمع کروا سکیں ۔
بشیر میر نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے یہ پیسے جمع کروانے کے بعد اپنی ماں سے پوچھا کہ پیسے کہاں گئے تو اس کی ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ تنخواہ دو سال سے بند ہے، گھر میں کھانے کا سامان نہیں تھا۔ بشیر میر کے مطابق یہ سنتے ہی شعیب گھر سے جنگل کی طرف چلا گیا اور شام کو واپس آیا تو اس پر غنودگی طاری تھی اور مشکل سے بات کر پا رہا تھا۔ہسپتال پہنچاتے پہنچاتے شعیب کی موت ہوگئی۔
بعد میں علم ہو ا کہ اُس نے پھل دار درختوں کے لیے مخصوص مائع کھاد کی پور ی شیشی پی لی تھی۔شعیب نے اپنی جان لینے سے قبل ایک ویڈیو بنائی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اُن کے والد کی تنخواہ روک دی گئی ہے اور وہ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی جان دے رہے ہیں تاکہ حکومت ان کے والد کی تنخواہ بحال کرے اور ان کے بھائی کی پڑھائی مکمل ہو سکے۔
شعیب کی موت کے بعد یہ ویڈیو وائرل ہو گئی اور حکومت نے فوراً بشیر میر کی تنخواہ بحال کر دی۔بشیر کے مطابق ان کو ان کی روکی گئی تنخواہ کے کل ملا کر چھ لاکھ روپے ملے لیکن انہوں نے بینک سے تین لاکھ اور لوگوں سے پانچ لاکھ روپے قرض لے رکھے تھے۔ بیوی کا علاج، بیٹی کا خرچہ اور دوسرے اخراجات کے لیے سرمایہ چاہیے تھا۔
میں نے ساری تنخواہ قرض داروں کو دے دی اور پھر بھی قرضہ باقی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد حالات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں ایک لڑکی لال چوک میں پُل کے اوپر سے دریائے جہلم میں کودنا چاہتی تھی لیکن موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔
پرانے سرینگر کے ایک نوجوان ڈاکٹر کو اپنے کمرے میں پنکھے سے لٹکا ہوا پایا گیا اور کئی نوجوانوں کی لاشیں مختلف دریاوٴں سے برآمد کی گئیں۔ذہنی امراض کے لیے وادی کے واحد ہسپتال میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پچھلے 19 سال کے دوران 24 ہزار سے زیادہ افراد نے خود کشی کی کوشش کی جن میں سے تین ہزار سے زیادہ افراد کی موت ہو گئی۔کشمیر کے معروف نیورو ڈاکٹر شیخ شعیب نے کہاکہ کشمیر کا کوئی شہری ایسا نہیں جس نے اپنے کسی رشتہ دار کو تشدد کی کسی واردات میں نہ کھویا ہو۔ یہاں خوف بھی ہے اور صدمہ بھی اور اب معاشی بحران بھی ہے۔
ایسے میں جب بے روزگاری کا مسئلہ بھی شدید ہو جائے تو لوگ اُمید کھو بیٹھتے ہیں۔واضح رہے کہ 2016 میں فرانسیسی تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے سرینگر میں واقع ذہنی صحت سے متعلق ہسپتال کے اشتراک سے ایک سروے کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ وادی میں فی الوقت 45 فیصد آبادی ذہنی تناوٴ کا شکار ہے۔
پانچ اگست 2019 کو جب کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کا اعلان ہوا تو کشمیر میں مسائل کا نیا دور چل پڑا۔اس اعلان کے خلاف عوامی مزاحمت کو روکنے کے لیے کئی ہفتوں تک کشمیر میں بغیر اعلان کے کرفیو نافذ رہا۔ نہ صرف علیحدگی پسند بلکہ بھارت نواز سیاسی رہنماوں اور اُن کے سینکڑوں کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ طویل مدت تک انٹرنیٹ اور فون رابطوں کے تمام ذرائع معطل رکھے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کا اثر لوگوں کی ذہنی صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔یہ صورتحال ابھی جاری ہی تھی کہ کورونا کرفیو کا نیا سلسلہ چل پڑا۔ فی الوقت تجارتی حلقے بھی پریشان ہیں اور طالب علم دو سال سے تعلیمی ادارے بند رہنے کی وجہ سے ذہنی دباوٴ کا شکار ہیں۔
اقتصادی امور کے ماہر اور معروف کالم نگار اعجاز ایوب کے مطابق انڈیا میں مہنگائی کی شرح 4.35 فیصد جبکہ کشمیر میں یہ اب مزید بڑھ کر 7 فیصد ہو گئی ہے۔ان کا کہنا ہے پورے ہندوستان میں کشمیر واحد جگہ ہے جہاں بے روزگاری کی شرح 21 فیصد ہے حالانکہ حکومت ہند نے نیم خودمختاری کو کشمیر کی تعمیر و ترقی میں بڑی ر کاوٹ قرار دیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ’’ نئے کشمیر ‘‘میں امن اور خوشحالی ہو گی۔
گذشتہ دو سال سے وادی کے مضافات اور دیہات میں فوج، پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کے آپریشن جاری ہیں اور آئے روز مسلح عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جاتا ہے اور دوسری جانب نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھ شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
کشمیر کے سائیکیٹری انسٹیٹوٹ کے پروفیسر ارشد حسین کہتے ہیں کہ 1990 سے قبل کشمیر میں ہر دو لاکھ افراد میں سے صرف ایک شخص خودکشی کرتا تھا لیکن فی الوقت آبادی میں سے فی ایک لاکھ لوگوں میں 13 افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔