اگر مسلم نسل کشی کی کوششیں جاری رہیں تو نریندر مودی کے بھارت میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔نصیر الدین شاہ

117
اگر مسلم نسل کشی کی کوششیں جاری رہیں تو نریندر مودی کے بھارت میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔نصیر الدین شاہ

اسلام آباد۔30دسمبر (اے پی پی):بالی ووڈ کے مشہوراداکار نصیر الدین شاہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر مسلم نسل کشی کی کوششیں جاری رہیں تو نریندر مودی کے بھارت میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔

معروف بھارتی صحافی کرن تھاپر کوبھارتی نیوز ویب سائٹ دی وائر کےلئے انٹرویو دیتے ہوئے بھارتی ادارکار نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا اگر ایسا ہواتو ہم لڑائی کا جواب دیں گے۔ ہم اپنے گھروں، اپنے خاندان، اپنے بچوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ دھرم سنساد کے ارکان جنہوں نے کچھ دن پہلے ہریدوار میں نسل کشی کا مطالبہ کیا تھا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟ ہمارا تعلق بھارت سے ہے ۔

ہم یہیں پیدا ہوئے اور یہیں رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ خانہ جنگی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو پسماندہ اور بے کار بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان دوسرے درجے کے شہری بننے کے عمل میں ہیں اور ہر شعبہ میں ایسا ہو رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کو غیر محفوظ بنانے کی ٹھوس کوشش کی جارہی ہے۔اس نے کہا کہ یہ ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے۔لیکن ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں خوف پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہمیں یہ تسلیم نہیں کرنا چاہیے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کا گھر ہے لیکن وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔نسل کشی اور نسلی تطہیر کا مطالبہ کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی کی مکمل خاموشی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نصیر الدین شاہ نے کہا کہ انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے ۔

نصیرالدین شاہ نے کہا کہ نسل کشی کی دھمکی دینے والوں کے لیے کوئی سزا نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم انہیں ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارا لیڈر خاموش رہتا ہےاور دوسری طرف سب کا خیال رکھنے کا دعوی بھی کرتا ہے۔

دریں اثنامعروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونےوالے ایک مضمون میں بھارت میں انتہا پسند ہندو راہنمائوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کے علی الاعلان مطالبوں کو شدید تنقیدکا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس انتہائی متعصبانہ رویئے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی دراصل اس کی حمایت ہے ۔

مضمون کے مصنف رانا ایوب نے لکھا کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہر ہریدوار میں منعقدہ کانفرنس سےانتہا پسند ہندو راہنمائوں کے خطاب نے انہوں جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار برٹولٹ بریخٹ کے اشعار یاد دلا دیئے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ’’ جب ہم نے پہلی بار سنا کہ وہاں ہمارے دوستوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو ہم نے خوف کا اظہار کیا، پھر زبح ہونے والوں کی تعداد ایک سو تک پہنچ گئی، جب ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گیا تو پھر اس پر خاموشی کی چادر تن گئی ،

جب گناہ بارش کی طرح برسنے لگیں تو کسی طرف سے ان کو روکنے کی صدا بلند نہیں ہوتی۔‘‘امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس میں انتہاپسند ہندو راہنمائوں نے علی الاعلان مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا۔ہندو مہاسبھا کے رہنما پوجا شکن پانڈے کہا کہ اگر ہم میں سے 100 افراد بھی ان مسلمانوں میں سے 20 لاکھ کو مارنے کے لیے تیار ہوں، تو ہم فتح حاصل کر لیں گے اس لئے قتل کرنے اور جیل جانے کے لیے تیار رہو۔”

اسی تقریب میں، ایک اور ہندو راہنما نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈائون کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو بھگانے کے لیے اس مثال پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے، بھارتی میڈیا نے اس خوفناک کانفرنس کی بھرپور کوریج کی۔ اس دھرم سنساد (ہندو کنونشن) میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت کے اراکین نے شرکت کی۔اس کانفرنس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔اس کے شرکا نے ہندوستان کو ہندو ملک میں تبدیل کرنے کا عزم کیا جو کہ کسی کے بھی حیرانگی کی بات نہیں،ہندو راہنمائوں کی مسلمانوں کے خلاف تشدد اور قتل و غارت کی اپیلوں پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ا کی خاموشی کی اس کی حمایت سمجھا جا رہا ہے۔

ہندوستان کے قانون کے مطابق تشدد پر اکسانا جرم ہے، لیکن پانڈے اور دیگر انتہا پسند ہندو راہنمائوں پر یہ لاگو نہیں ہوتا اور وہ بدستور آزاد ہیں۔ پولیس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ تفتیش کر رہی ہے لیکن اس نے بے حد سست روی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان راہنمائوں کو حکمران سیاسی طبقے کی آشیر باد اور تحفظ حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہندو رہنما اب اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ انہوں نے مذہبی پیشوائوں کےایسے نیم فوجی دستے تشکیل دیئے ہیں جویہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بھارت میں 22 کروڑ مسلم آبادی کے خلاف مسلح لڑائی کی قیادت کریں گے ۔

کانفرنس کے چند دنوں بعد نریندر مودی کے قریبی ساتھی، بی جے پی کے راہنما اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن تیجسوی سوریا بی نے ہندوستانی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب میں واپس لانے پر زور دیا تاہم بعد میں اپنے بیان سے مکر جانے کی کوشش کی۔

ہندوستان میں نسل کشی اور نسلی تطہیر کے مطالبات کئے جارہے ہیں، جہاں غیر متشدد مزاحمت کی عالمی علامت گاندھی کو قتل کرنے والے ہندو قوم پرستوں کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اکثریتی ہندو برادری اس کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت تک کرنے میں ناکام ہے ۔ ہندوستان میں گلی محلوں اور سڑکوں مسلمانوں پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں ، کرسمس کی تقریبات پر حملے ہوتے ہیں، بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کی علامت اور نوبل انعام یافتہ مدر ٹریسا کے خیراتی ادارہ کو بین الاقوامی عطیات وصول کرنے سے روک رکھا ہے،

دائیں بازو کا قوم پرست نیوز چینل کا بااثر مالک سریش چوہانکے 19 دسمبر کو قومی راجدھانی میں ایک تقریب میں ہندوستان کو "ہندو قوم” بنانے کے لیے لوگوں پر "لڑو، مرو اور قتل کرو” پر زور دیتا ہے جب کہ کیمرے یہ سب کچھ دکھارہے تھے اور پولیس دیکھ رہی تھی۔ بھارت میں قانون نافذ کرنے والے صحافیوں سے ٹویٹس پر اور تنقیدی عوامی شخصیات کے بیٹوں سے مبینہ طور پر چرس رکھنے کے بارے میں تفتیش کرنا پسند کرتے ہیں لیکن وہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے قتل عام کا مطالبہ کرنے والے جنونی ہندو راہنمائوں کے خلاف کوئی کارروائی نہٰں کرتے،

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ٹیم ویرات کوہلی، ایک مسلمان کھلاڑی کا دفاع کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ ہے ۔ اس سب سے واضح ہے کہ ہندوستان میں نفرت پھیلانے والے ہجوم کو اقلیتوں پر حملہ کرنے کی آزادی کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ مودی کی خاموشی سے نہ صرف ملک کے لئے خطرہ بننے والے خطرناک ترین عناصر کو حوصلہ ملتا ہے بلکہ ہمارے اتحادیوں کی خاموشی بھی ان کا حوصلہ بڑھا رہی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی "جمہوریت کے لیے سربراہی اجلاس” کے دوران ، مودی نے آزادی اظہار، قانون کی حکمرانی اور ایک سیکولر اور کثیر ثقافتی اخلاق کا چیمپئن ہونے کے دعوے کئے لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی کس طرح اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لیے ڈرانے دھمکانے ، دھمکیوں اور تشدد پر انحصار کرنے کو تیار ہے ۔

مسلمانوں کی نسل کشی کی یہ تمام اپیلیں ریاستی انتخابات کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔ کیا یہ وہ "جمہوریت”ہے جس کے بائیڈن اور دیگر حلیف چیمپئن بنتے ہیں۔ نریندرمودی کئی دہائیوں سے اس قسم کی نفرت کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں اب کیا ہو رہا ہے لیکن ہم اس سے خوفزدہ ہیں جو مستقبل میں ہونے والا ہے