اسلام آباد۔11جنوری (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ و محصولات شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت معیشت کو دستاویزی بنانا چاہتی ہے، معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہر ادارے کو خودمختار بنانا چاہتی ہے اور اس حکمت عملی کے تحت سٹیٹ بنک کی خودمختاری کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے، سٹیٹ بنک پر حکومتی کنٹرول کے خاتمے کا تاثر درست نہیں ہے، ضمنی مالیاتی بل سے عام آدمی پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا، جن شعبوں کے لئے ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے ان میں سے بیشتر ری فنڈ اور ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بات منگل کو یہاں سینئر اینکر پرسنز اور صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب، وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر، وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان اور گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقر بھی موجود تھے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل کا بنیادی مقصد معیشت کو دستاویزی بنانا اور ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ ہے۔ آئی ایم ایف سے جب ہمارے مذاکرات ہو رہے تھے تو انہوں نے 700 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کے خاتمے پر اصرار کیا تاہم ہم نے مذاکرات میں 343 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ پر رضامندی ظاہر کی جبکہ زراعت اور اشیاءخوراک کے لئے رعایتیں بدستور جاری رہیں گی۔
شوکت ترین نے کہا کہ 343 ارب روپے کی جو ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے، اس میں سے 280 ارب روپے ری فنڈ ایبل ہیں، یعنی اس کی واپسی ہو سکتی ہے جبکہ اس کی ایڈجسٹمنٹ کی بھی گنجائش ہوگی۔ اس پوری مشق کا بنیادی مقصد معیشت کو دستاویزی بنانا ہے۔ 71 ارب کے جو ٹیکس شامل ہیں وہ لگژری اور پرتعیش اشیاءپر عائد ہوں گے۔
حکومت نے اس ضمن میں 33 ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے۔ جو شعبے متاثر ہوں گے اس کو حکومت سبسڈی دے گی تاہم سب سے پہلے ٹیکس وصول ہوگا اس کے بعد سبسڈی دی جائے گی۔ معیشت کو دستاویزی بنانے کے عمل سے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کھادوں، کیڑے مار ادویات، ٹریکٹر، زرعی مداخل، پراویڈنٹ فنڈ کی آمدنی پر ٹیکس کو ہم نے نکال دیا ہے۔
وزیر خزانہ نے سٹیٹ بنک بل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہر ادارے کو خودمختار بنانا چاہتی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت سٹیٹ بنک کی خودمختاری کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ماضی میں حکومتوں نے سٹیٹ بنک سے 60 ٹریلین روپے کے قرضے لئے جبکہ اس پر شرح سود بھی تقریباً صفر تھی۔ سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے بل سے حکومت کا کنٹرول ختم ہونے کا تاثر درست نہیں ہے کیونکہ گورنر، ڈپٹی گورنرز اور بورڈ ارکان کا تقرر حکومت کرے گی۔ جب حکومت ہی گورنر اور بورڈ مقرر کر رہی ہے تو اس سے کنٹرول کیسے ختم ہو سکتا ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے احسن اقبال کے تمام نکات کا جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل سے عام آدمی پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ پہلے جی ایس ٹی وصول ہوگا اس کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر اندر یہ ری فنڈ ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ درست ہے۔ آئی ایم ایف نے ماضی میں بھی یہ مطالبات کئے تھے اور اس کی وجہ سے گزشتہ دور حکومت میں ایک پروگرام کو ختم کیا گیا۔ ڈھانچہ جاتی اصلاحات پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان سپریم ہے اور تمام فیصلے پارلیمان نے ہی کرنے ہیں۔ گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شرح سود کا تعین زری و مالیاتی مانیٹری پالیسی کمیٹی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی حرکیات کے مطابق کیا گیا جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی حرکیات کے مطابق کرنے سے حسابات جاریہ کے کھاتوں پر دبائو کم ہوا ہے، اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جولائی 2016ءسے لے کر اس کے 18 ماہ کے عرصے تک شرح سود اور ایکسچینج ریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018ءمیں حسابات جاریہ کا خسارہ 19 ارب ڈالر تک ریکارڈ کیا گیا۔ مارکیٹ کی حرکیات کے مطابق ایکسچینج ریٹ مقرر کرنے سے اب ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بنک کے بل سے بنک پر حکومتی کنٹرول ختم ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔
گورنر، ڈپٹی گورنرز اور بورڈ کے ارکان کا تقرر حکومت ہی کرے گی۔ وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کا پروپیگنڈا ہو رہا تھا کہ اکتوبر اور نومبر میں پاکستان خدانخواستہ توانائی کی کمی کی وجہ سے بند ہو جائے گا، وہ بے بنیاد ثابت ہوا ہے۔ اس وقت ایل این جی والے پلانٹس چل رہے ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نومبر کے مہینے میں کھاد سازی کے پلانٹس بند نہیں ہوئے اور وہ ریکارڈ پیداوار دے رہے ہیں۔ حماد اظہر نے کہا کہ گھروں میں استعمال ہونے والی گیس کی طلب میں سالانہ نو فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف موجودہ حکومت کے آنے کے بعد ملکی گیس کے ذخائر میں 25 فیصد کمی آئی ہے۔ ایل این جی پر زیادہ اخراجات آرہے ہیں، ایک کارگو ہمیں آٹھ ارب روپے میں پڑ رہا ہے اگر اس کو ہم ڈومیسٹک لائن پر ڈالیں تو حکومت کو ایک ارب روپے واپس ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمیں ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
وزیر توانائی نے کہا کہ روس کے بعد پاکستان کے پاس قدرتی گیس کا سب سے بڑا ڈومیسٹک نیٹ ورک ہے۔ پاکستان اس حوالے سے نائیجیریا سے آگے ہے جہاں گیس کی پیداوار ہم سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس نیٹ ورک پر 350 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم ہوتی ہے۔ موسم سرما میں عام طور پر گیس کی طلب میں 5 گنا اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت گھریلو صارفین کو 20 اور صنعتی صارفین کو 15 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم ہو رہی ہے۔ ملک کی 28 فیصد آبادی کو پائپ لائن گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران میں بھی پائپ کے ذریعے گیس فراہم نہیں کی جاتی۔ ہمارے ذخائر کم ہو رہے ہیں، اس وقت ہمارے پاس دس سال کے ذخائر ہیں۔ 30 فیصد نیٹ ورک ایل این جی پر چل رہا ہے۔ دو تین سال کے بعد یہ صورتحال مزید مشکل ہو جائے گی اس لئے ہمیں ابھی سے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عنقریب گیس کی اوسط قیمت کے حوالے سے قانون سازی کرے گی تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ موجودہ سلیبز برقرار رہیں گے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ پنجاب میں ریکوریز کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ سندھ میں گیس کے ذخائر سب سے کم ہو رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 360 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہو رہی ہے جس میں سے 350 ایم ایم سی ایف ڈی صوبے میں استعمال ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحت کارڈ پاکستان میں صحت کے شعبے میں خاموش انقلاب لا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پوری آبادی کو صحت کارڈ کا نظام پہلے سے ہی رائج ہو چکا ہے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد میں یکم جنوری سے یہ نظام لاگو ہوا ہے۔ یہ ملک کے غریب اور کم آمدنی والے طبقات کے لئے صحت کی انشورنس کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس میں تمام خاندانوں کو کور کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاندان کی تعریف نادرا کے معیار کے مطابق ہوگی۔
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ پینل ہسپتال میں سرکاری اور نجی شعبے کے ہسپتال شامل ہیں۔ اس میں فراڈ کو روکنے کے لئے معیاری طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ میں آئوٹ ڈور مریضوں کو کور نہیں کیا گیا، اس میں صرف وہ مریض کور ہوں گے جن کا ہسپتالوں میں داخلہ لازمی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے میں سبسڈی کے لئے حکومت نے ایک بینچ مارک مقرر کردیا ہے۔ ایک سوال پر ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ایک صوبے کا مریض دوسرے صوبے کے پینل ہسپتال میں علاج کی سہولت سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس میں ہمیں بہت اچھا فیڈ بیک مل رہا ہے۔ منصوبے کے لئے فنڈز صوبائی حکومتیں فراہم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کم آمدنی والے طبقات کے لئے اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
کورونا کی صورتحال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ شہریوں کو احتیاطی تدابیر کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ کراچی میں اومی کرون کے کیسز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جن لوگوں نے پہلے ویکسین لی ہے انہیں آخری ویکسین کے چھ ماہ بعد بوسٹر ڈوز لگوانی چاہئے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فی الوقت قومی شناختی کارڈ صحت کارڈ کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔