اسلام آباد۔17مئی (اے پی پی):سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس کو نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لاجر بینچ نے تین دو کے اکثریتی فیصلے کے تحت منحرف رکن کی نااہلیت کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا جبکہ منحرف ارکان کی تاحیات نااہلی کے بارے میں پی ٹی آئی کی پٹیشن مسترد کردی گئی۔
دو جج صاحبان جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندو خیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس کا جواب نہیں دیا اور قرار دیا کہ آرٹیکل 63اے ایک مکمل کوڈ ہے عدالت اس کی تشریح کی مجاز نہیں ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے تین سوالات پر اپنی رائے دی ہے جبکہ ایک سوال صدر مملکت کو واپس بھیج دیاہے ۔
اکثریتی ججوں نے اپنی رائے میں قرار دیا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا کردار کلیدی ہے،سیاسی جماعتیں وہ جزو لازم ہے جس کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کھڑی نہیں ہوسکتی اور انحراف وہ راستہ ہےجس سےسیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم کیا جاسکتا ہے۔
فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے، منحرف ارکان کاووٹ نہیں گنا جائےگا، آرٹیکل 63 اے کی اصل روح ہے کہ سیاسی جماعت کے کسی رکن کو انحراف نہ کرنا پڑے اور جماعتوں کو حقوق کا تحفظ ملے۔ آرٹیکل 63 اے اکیلا پڑھا نہیں جاسکتا، آرٹیکل 63 اےکو آرٹیکل 17 کے ساتھ مربوط کیا جائے گا اور آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کےحقوق کو تحفظ دیتا ہے،
سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے، آرٹیکل 63اے کا اطلاق پارلیمانی پارٹی ہدایات سے انحراف سے ہوتا ہے، آرٹیکل 63 اے آرٹیکل 17 ٹو میں دیےگئے سیاسی جماعتوں کےحقوق کاتحفظ کرتاہے، آرٹیکل63 اے قانون سازی میں سیاسی جماعتوں کو تحفظ دیتا ہے، سیاسی جماعتیں ہماری جمہوریت کا بنیادی جز ہیں، سیاسی جماعتوں میں عدم استحکام جمہوریت کی بنیاد ہلاتا ہے
، انحراف سیاسی جماعتوں کے استحکام کے لیے تباہ کن ہے، انحراف کو کینسر قرار دینا درست ہے، موزوں یہی ہےکہ انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے، سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی کا احترام کیا جانا چاہیے، سیاسی جماعتوں کو غیر آئینی، غیرقانونی حملوں اور توڑپھوڑ سے محفوظ رکھا جائے سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ کسی رکن کے حقوق سے بالا ہے اس لیے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا۔اکثریتی رائے میں منحرف رکن کی نااہلیت پر رائے دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ارکان کی نااہلی کے لئے قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیارہے جبکہ مستقبل میں انحراف روکنے کا سوال عدالت نےصدرکو واپس بھجوا تے ہوئے قرار دیا کہ یہ مبہم سوال ہے۔
رائے میں کہا گیا کہ وقت آگیاہےکہ منحرف ارکان کےحوالے سےقانون سازی کی جائے۔ اختلافی ججوں نےقرار دیا کہ آئین کے تحت منحرف ارکان ڈی سیٹ ہوجاتے ہیں ،آرٹیکل 63اے ایک مکمل شق ہے اسے تشریح کی ضرورت نہیں ،اس کی تشریح سے دیگر شقیں متاثر ہوں گی۔اقلیتی رائے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نہ تو آئین کو دوبارہ لکھ سکتی ہے اور نہ اپنی تشریح دے سکتی ہے۔
تحریری رائے میں کہا گیا ہےکہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظہر عالم میاں خیل ، جسٹس منیب اختر ،جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی ۔
سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن ) کے وکیل مخدوم علی کے معاون وکیل نے تحریری گزارشات جمع کراتے ہوئے موقف اپنایا کہ حالات تبدیل ہو گئے، حالات کی تبدیلی کے بعد مجھے اپنے موکل سے نئی ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے موقف اپنایا کہ عدم حاضری پر سوشل میڈیا پر میرے خلاف باتیں ہوئیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ کیا آرٹیکل 63 اے ایک مکمل کوڈ ہے،کیا آرٹیکل تریسٹھ اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے،کیا پارٹی پالیسی سے انحراف کر کے ووٹ شمار ہو گا،عدالت ایڈوائزی اختیار میں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے،صدارتی ریفرنس اور قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کروں گا،صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ پر رائے مانگی جاسکتی ہے،ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا، عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھے ۔
اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں ،آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں،اس صورت میں کیا آپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مجھے حکومت کی طرف سے کوئی ہدایات نہیں ملیں،اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں آچکا ہے، اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گاجو پہلے تھا،میں بطور اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے،کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا،بطور اٹارنی جنرل آپ اپنا موقف دے سکتے ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ریفرنس سابق وزیراعطم کی ایڈوائس پر فائل ہوا، میرا موقف بطور اٹارنی جنرل ہے،سابق حکومت کا موقف پیش کرنے کے لیے انکے وکلاء موجود ہیں، صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لیکر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا ،قانونی ماہرین کی رائے مختلف ہوتی تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔
اس دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا،تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں،ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں،صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں ،صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے،آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے،آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر 2 فریقین سامنے آئے ہیں،
ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں دوسرا فریق سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے، عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن سر تسلیم خم کرتا ہوں، عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کےحقوق کو بھی دیکھنا ہے، انحراف پررکن کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں آئیں گی، صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کاروائی پر اثر پڑے گا،آرٹیکل 63ون کے انحراف سے رکن خودبخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا، انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے، سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا صدر مملکت نے پارلیمنٹ میں اپنی سالانہ تقریر میں یہ معاملہ کبھی اٹھایا،کیا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے کبھی کسی جماعت نے کوئی اقدام اٹھایا،کیا کسی سیاسی جماعت نے 63 اے کی تشریح یا ترمیم کے لیے کوئی اقدام اٹھایا۔
اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سینٹ میں ناکامی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے ارکان کو کوئی ہدایات جاری نہیں کیں،عمران خان نے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے بیان جاری کیا، عمران خان نے کہا ارکان اپنے ضمیر کے مطابق مجھے اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، عمران خان نے کہا مجھے ووٹ نہیں دیں گے تو گھر چلا جاؤں گا، عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی عمران خان وزیراعظم تھے، عمران خان نے اپنے پہلے موقف سے انحراف کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اس دوران اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم اپنی ہدایات میں تبدیلی نہیں کر سکتا، کیا وزیراعظم کے لیے اپنی ہدایات میں تبدیلی کی ممانعت ہے،کیا انحراف کرنا بددیانتی نہیں ہے، کیا انحراف کرنا امانت میں خیانت نہیں ہوگا،خیانت کی ایک خوفناک سزا ہے،کیا انخراف پر ڈی سیٹ ہونے کے بعد آرٹیکل 62( 1) ایف کا اطلاق ہو سکتا ہے، کیا انحراف کرکے ڈالا گیا ووٹ شمار ہوگا،ان سوالات کے براہ راست جواب دیں،خیانت کی ایک خوفناک سزا ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے،وزیر اعظم اپنی بات سے پھر نہیں سکتا، خیانت بہت بڑا جرم ہے۔ اس دوران جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ ایک خیانت اپنے ضمیر کی بھی ہوتی ہے، کیا ضمیر سے خیانت کرکے کسی کی مرضی سے ووٹ ڈالا جا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ عدالت کے سوال کا جواب نہ دے پاؤں لیکن اپنی گزارشات تو دے سکتا ہوں، رکن عوام سے پانچ سال کے لئے ووٹ لیکر آتا ہے، وزیراعظم ارکان کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے،عوام کے سامنے ارکان جوابدہ ہیں،اگر کوئی وزیر اعظم عوام سے کیے وعدے پورے نہ کرے تو کیا ہوگا۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس صورت میں ارکان استعفے دے دیں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا منحرف کی سزا کے لیے قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن پارلیمنٹ نے قانون نہیں بتایا، جب تک آئین میں ترمیم نہیں کرتے آپ آرٹیکل 62/63 کا اطلاق نہیں کرسکتے،عدالت آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی، آرٹیکل 62 ، 63 اور تریسٹھ اے میں ترمیم پارلیمان ہی کرسکتی ہے،اس میں ترمیم کے بغیر اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔
اس دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل تریستھ اے ووٹنگ سے متعلق ارکان کو پابند بناتا ہے۔جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس صورت میں آرٹیکل پچانوے غیر موثر ہو جائے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کی پیروی سے آرٹیکل 95 کیسے غیر موثر ہوگا،کسی کو وزیر اعظم پر اعتراض ہے تو پارلیمنٹ چھوڑ دے، ایسی صورت میں صدر مملکت وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی جماعت اپنے بنائے وزیر اعظم کو ہٹا کر نیا لا سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کے ریمارکس پر جواب دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ اگر صدر اسی جماعت کا ہو جس کا وزیر اعظم ہے تو ایسی صورت میں صدر مملکت اعتماد کو ووٹ لینے کا نہیں کہے گا۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تمام وکلا کا معاونت پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے شام ساڑھے پانچ بجے دینگے۔ اس دوران پی ٹی آئی کےوکیل بابراعوان نے کہا کہ جواب الجواب کیلئے وقت کا مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا،عدالت بڑی سیاسی جماعت کو نہیں سن رہی ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب چیف جسٹس بول رہا ہوں تو بیچ میں مداخلت نہیں کرتے ،عدالت کی نظر میں کوئی پارٹی چھوٹی بڑی نہیں سب برابر ہیں،اور عدالت کو مت بتائیں کہ آپ کونسی بڑی جماعت سے ہیں، عدالت نے یہ کیس پارٹی کے سائز کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین کی تشریح کیلئے سنا ہے،ہم آپ کو دو مرتبہ سن چکے ہیں ،اگر آپ دو منٹ میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو ہم دو منٹ اور بیٹھ جاتے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ مجھے بولنے کیلئے دس منٹ چاہیے ہوں گے۔ اس دوران بابر اعوان کی دس منٹ بولنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ساڑھے پانچ بجے فیصلہ سنائیں گے ۔ بعد ازاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزکورہ فیصلہ پڑھ کر سنایا ۔ فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تین دو کی اکثریت سے فیصلہ سنایا جاتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی رائے دی جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اکثریتی رائے سے اختلاف کیا ہے ۔ چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس نمٹایا جاتا ہے، سوال تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو گا یا نہیں، آرٹیکل 63 اے اکیلا پڑھا نہیں جاسکتا، آرٹیکل 63 اے اور آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کےحقوق کے تحفظ کے لیے ہے، سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے،
انحراف سیاسی جماعتوں کو غیرمستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کرسکتاہے، سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں، سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ کسی رکن کے حقوق سے بالا ہے، منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا ،آرٹیکل تریسٹھ اے کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا ہے،آرٹیکل 63 اے کامقصدانحراف سے روکناہے،انحراف کرنا سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، انحراف کینسر ہے،سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں ،سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے ۔
واضح رہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے رواں سال 21 مارچ کو ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا ، عدالت عظمی میں صدراتی ریفرنس 58 دن زیر سماعت رہا اور اس پر 20 سماعتیں ہوئیں،سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دلائل سے ریفرنس کا آغاز ہوا اور موجودہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل پر صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہوئی۔ سیاسی جماعتوں کے وکلاء نے بھی صدارتی ریفرنس میں اپنے دلائل دیئے۔