اسلام آباد۔9جون (اے پی پی):نئے مالی سال کیلئے سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی)کا حجم 800 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، 100 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت خرچ ہوں گے، پی ایس ڈی پی کے بجٹ کو دانشمندانہ انداز میں اور ملکی مفاد میں ترتیب دیا گیا ہے، جاری منصوبوں کی تکمیل کو اس میں اولین ترجیح دی گئی ہے، بلوچستان کو ترقیاتی بجٹ کا اہم ہدف میں رکھا ہے، بلوچستان کو دیگر صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ ترقیاتی فنڈز دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہاں پر جاری منصوبوں کو مکمل کیا جا سکے اور نئے منصوبے بھی شروع ہوں۔حکام کے مطابق آئندہ مالی سال پی ایس ڈی پی کا حجم 800 ارب روپے ہو گا جس میں سے 100 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت خرچ ہوں گے ۔
نئے مالی سال کیلئے وزارت خزانہ نے پی ایس ڈی پی کیلئے 700 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی نشاندہی کی، 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ترقیاتی بجٹ تقریبا ایک ہزار ارب روپے تھا، چار برسوں میں اس بجٹ کو 2 ہزار ارب روپے تک بڑھنا چاہئے تھا لیکن گذشتہ سال اس کا حجم کم ہو کر 500 ارب روپے ہو گیا جو 2018 کے مقابلہ میں 50 فیصد کم ہے،
عوام کی ترقیاتی ضروریات میں اضافہ ہوا لیکن بدقسمتی سے بجٹ کم ہوا، یہ ایک چیلنج اور المیہ ہے۔ مشکلات کے باوجود حکومت نے پی ایس ڈی پی کے بجٹ کو دانشمندانہ اور ملکی مفاد میں ترتیب دیاگیا ہے ، جاری منصوبوں کی تکمیل پرزیادہ توجہ ہو گی۔ گذشتہ چار برسوں میں پی ایس ڈی پی میں 44 فیصد کے قریب صوبائی نوعیت کے منصوبوں کو شامل کیا گیا،
جن منصوبوں میں وفاق کو شامل ہونا چاہئے تھا وہاں پر صوبائی منصوبے شامل کئے گئے جس سے وفاقی وزارتوں جیسے مواصلات اور پورٹ اینڈ شپنگ کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کے وژن کی روشنی میں ترقی کی بنیادی ضرورتوں جیسے پانی کے وسائل کو ترقی دینا حکومت کی پہلی ترجیح ہے، دیامیر بھاشا ڈیم کی اراضی کی خریداری کیلےحکومت نے 120 ارب روپے سے زیادہ خرچ کئے تھے، اس کے علاوہ دیگر آبی وسائل کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے فنڈز مختص کرناحکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، اعلی تعلیم کا شعبہ بھی پی ایس ڈی پی کا ترجیحی حصہ ہے، اس کے تحت نوجوانوں کیلئے فنڈز اور وظائف میں اضافہ کیا جائے گا، فزیکل انفراسٹرکچر جیسے روڈز، شاہراہیں اور بندرگاہوں کی تعمیر ہماری تیسری اہم ترجیح ہے، ان شعبوں میں اہم اور کلیدی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے گا۔
انفارمیشن اور سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ بھی اہم ترجیح ہے، نئے مالی سال میں اختراعی فنڈ کے قیام کے حوالہ سے منصوبہ بندی کی گئی ہے، اسی طرح گورنمنٹ کیلئے فنڈ مختص کئے جائیں گے جس سے حکومتی اداروں اور وزارتوں کی ڈیجیٹائزیشن کے عمل کو مکمل کیا جائے گا، سائبر سکیورٹی اور مصنوعی ذہانت میں نوجوانوں کی تربیت دی جائے گی۔نئے مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں بلوچستان اور نوجوانوں کیلئے کئی سکیمیں شروع کی جا رہی ہیں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے منصوبوں کے علاوہ وزیراعظم میرٹ بیسڈ لیپ ٹاپ سکیم کے تحت ہونہار طالب علموں کو لیپ ٹاپ فراہم کئے جائیں گے،
اس کے علاوہ ایک اور سکیم بھی متعارف کرائی جا رہی ہے جس کے تحت اعلی تعلیمی اداروں کے طالب علم آسان قسطوں پر لیپ ٹاپ خرید سکیں گے، اعلی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے پاس لیپ ٹاپ موجود ہوں تاکہ وہ ملکی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ صوبوں کے تعاون سے پیشہ وارانہ تربیت کے 250 انسٹی ٹیوٹ قائم کئے جائیں گے،
اس کے علاوہ صوبوں کے اشتراک کار سے 250 منی سپورٹس سٹیڈیم بھی تعمیر کئے جائیں گے، چین،پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت مختلف منصوبوں کو فاسٹ ٹریک بنیادوں پر مکمل کرنے کیلئے وسائل اور فنڈز مختص کرنے کو یقینی بنایا جائے گا، اسی طرح پرانے گوادر شہر میں بجلی اور پانی کے مسائل کے حل کیلئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ سابق فاٹا کے ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 50 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے، اسی طرح گلگت بلتستان کیلئے بھی فنڈز مختص ہوں گے۔ نئے مالی سال کیلئے گروتھ کی شرح 5 فیصد کے قریب ہے جو گذشتہ سال 4.8 فیصد تھی۔