بھارت میں بی جے پی کی حکومت میں بلڈوزرظلم و ستم کا نشان بن گئے، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ

81

اسلام آباد۔21جون (اے پی پی):بھارت کی انتہا پسند اور ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ہاتھوں بلڈوزر کا استعمال اقلیتی مسلم برادری کے گھروں اور روزی روٹی کے ذرائع کو تباہ کرنے کا ہتھیار بن گئے ہیں۔ منگل کو برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بلڈوزر کی ایجاد سو سال قبل ہوئی اور دنیا بھر میں یہ تعمیراتی کاموں کے استعمال کیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں بلڈوزر بھارت کی بی جے پی حکومت کے ہاتھوں مسلمانوں کے گھروں کو تباہ کرنے کا ہتھیار بن گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کھدائی کرنے والی یہ بڑی سی دیوقامت مشین بھارت میں کہیں اور اتنی متحرک نظر نہیں آ رہی جتنی یہ بھارت کی سیاسی لحاظ سے اہم شمالی ریاست اتر پردیش میں دکھائی دے رہی ہیں۔ گذشتہ اتوار کو بلڈوزر ایک مرتبہ پھر پریاگ راج شہر (سابقہ الہ آباد) میں متحرک نظر آئے جہاں حکام نے سیاسی کارکن جاوید محمد کے گھر کو چند لمحوں میں مسمار کر دیا اور الزام لگایا کہ یہ مکان غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس دعوے کی جاوید محمد کے اہل خانہ نے تردید کی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مکان کو مسمار کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ یہ مبینہ طور پر غیر قانونی تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاوید محمد بھارتی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور انھیں اس کی سزا دی گئی۔

جاوید محمد کا گھر گرائے جانے سے ایک روز قبل پولیس نے انھیں گرفتار کیا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی جانب سے پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ تبصروں کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے پیچھے ’ماسٹر مائنڈ‘ ہیں۔ اس سے قبل نوپور شرما کو پارٹی سے معطل کردیا گیا تھا لیکن مظاہرین ان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔

بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کی مسمار کرنے کی مہم کا موازنہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی اسی نوعیت کی کارروائیوں سے کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں ان کارروائیوں پر تنقید کی جا رہی ہے جبکہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں اس پر خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سرکاری کارروائیوں پر ایک مہینے سے قانون کی چادر چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور قانون کی روح کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں سابق ججوں اور ممتاز قانون دانوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے بلڈوزروں کا استعمال ناقابل قبول اور قانون کی بالادستی کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سرکاری جبر اور تشدد کو بند کیا جائے۔

انڈین ایکسپریس اخبار میں سخت الفاظ میں لکھے گئے کالم میں سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے لکھا کہ بلڈوزر کی غیر قانونی ڈھانچوں سے کوئی مناسبت نہیں ہے بلکہ اس کی مناسبت اس بات سے ہے کہ میں کون ہوں اور میں کس کے حق میں کھڑا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ایک بلڈوزر میرے گھر کو زمین پر گرا دیتا ہے تو وہ نہ صرف اس ڈھانچے کو مسمار کرنا چاہتا ہے جو میں نے تعمیر کیا تھا بلکہ میری بولنے کی ہمت بھی مسمار کرنا چاہتا ہے۔ بلڈوزر کے استعمال کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا ہے اور اعلی عدالت نے کہا ہے کہ ان کا استعمال قانون کے مطابق ہونا تھا اور انتقامی کارروائی کے طور پر نہیں ہو سکتا۔

رپورٹ کے مطابق اس سال کے اوائل میں اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کی انتخابی مہم میں کچھ مناظر دیکھ کر بہت حیران ہوئی، اس وقت وزیر اعلی یوگی آدتیا ناتھ دوبارہ منتخب ہونے کے لیے انتخابی مہم چلا رہے تھے، وہ انتخابات جیتے اور اب اپنی دوسری مدت پوری کر رہے ہیں۔ ایک جلسے میں ان کے حامیوں کا ایک گروپ پیلے رنگ کے کھلونے بلڈوزر لے کر آیا تھا۔ کھدائی کرنے والی مشینیوں کے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ماڈل ہوا میں لہراتے ہوئے انھوں نے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے رقص کرتے ہوئے نعرے بلند کئے ‘بلڈوزر والا بابا پھر سے آئے گا۔’ ‘بلڈوزر بابا’ مقامی پریس کی طرف سے آدتیا ناتھ کو دیا گیا نام تھا جو بی جے پی کا لیڈر ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بلڈوزروں کو مسلمانوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سینئر صحافی شرت پردھان کا کہنا ہے کہ ’بی جے پی نے اسے اپنے فائدے میں بدل دیا ہے کیونکہ اس سے ان کے طاقتور ہونے کے امیج میں اضافہ ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے قصبوں میں آدتیہ ناتھ کے انتخابی جلسوں میں بلڈوزر کھڑے کیے جاتے تھے اور ان کی جیت کے بعد ہونے والے جشن میں ان مشینوں کی ریاستی اسمبلی کی عمارت کے سامنے پریڈ کرائی گئی۔

سینئر صحافی آلوک جوشی کا کہنا ہے کہ آدتیہ ناتھ نے بلڈوزر کو اپوزیشن اور حکومت کے ناقدین خصوصا مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے حربے کے طور پر تیزی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سہارنپور اور پریاگ راج میں انہدام سے قبل آدتیہ ناتھ نے کہا کہ بلڈوزر ’مجرموں اور مافیا‘ کو کچلتے رہیں گے۔ بلڈوزروں کے استعمال کے نتیجے میں عالمی سطح پر شور مچ سکتا ہے لیکن جوشی کا کہنا ہے کہ اس سے آدتیا ناتھ کو بے پناہ سیاسی فائدہ ہوا ہے اور یہاں تک کہ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے منظوری بھی حاصل کرلی ہے۔

گذشتہ سال دسمبر میں وزیر اعظم مودی کے بیان کے بعد ریاست مدھیہ پردیش اور دارالحکومت دہلی میں سال کے اوائل میں مذہبی تشدد کے بعد بلڈوزر کا استعمال کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور چھوٹے کاروباروں کو تباہ کرکے غیر متناسب طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی عدالتی حکم یہ نہیں کہتا کہ کسی کا گھر مسمار کر دیا جائے، چاہے اس نے کوئی جرم کیا ہو اور جرم ثابت ہونے کے بعد بھی ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

جوشی کہتے ہیں کہ جب حکام بلڈوزر بھیجتے ہیں تو اس میں بنیادی طور پر ایک سیاسی پیغام ہوتا ہے۔ جو کوئی بھی ہمارے خلاف احتجاج کرے گا اسے بلڈوز کر دیا جائے گا۔