وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا کیس تین یا پانچ رکنی بنچ کی بجائے فل کورٹ سنے، آئین کے تحت پارٹی سربراہ ہی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے ،سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن

66

اسلام آباد۔24جولائی (اے پی پی):پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم )کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا کیس تین یا پانچ رکنی بنچ کی بجائے فل کورٹ سنے، آئین کے تحت پارٹی سربراہ ہی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے تاہم بدقسمتی سے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کی نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے، حکومتی نظام کو مضطرب رکھنے کی بجائے اسے حکومت کرنے دیں،

حکمران اتحاد نے دو بار متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی،عمران خان کی پوری سیاسی زندگی ایک جھوٹے بیانیہ پر کھڑی ہے اس کا مقصد ریاست اور اس کے نظریہ کو تباہ کرنا ہے، ملک کی بقائ، عزت و وقار کیلئے ہم ایک بڑی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں، فارن فنڈنگ کیس میں کون ایک فرد کو تحفظ دے رہا ہے اس پر ہمیں تشویش ہے، اداروں کی اوٹ لے کر سیاست کرنے کے شوقین میدان میں آکر اپنا شوق پورا کریں۔

اتوار کو مولانا عبدالغفور حیدری، اکرم درانی اور کامران مرتضیٰ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا چونکہ قومی اہمیت کا حامل ایک مسئلہ ہے اور پنجاب کے انتخابات وزیراعلیٰ کے چنائو اور اس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر مسئلہ عدالت میں لے جانا، فوری طور پر اس کو سماعت کیلئے منظور کرنا، یہ ساری چیزیں پر پاکستانیوں کو احساس دلاتی ہیں کہ عدالت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ یا تو ایک دبائو کے تحت کر رہی ہے ۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنے آئینی و قانونی ماہرین کو ہدایات جاری کردی ہیں تاکہ اس حوالے سے عدالت کو درخواست دے سکیں۔

پاکستان کی دستور سازی سے لے کر دستور کی بقاء، انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کیلئے جدوجہد جے یو آئی کو اپنے اکابرین سے ورثہ میں ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو فیصلہ کئے گئے ہیں وہاں کہیں بھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیاکہ پارٹی لیڈر ہی پارٹی سربراہ ہوتا ہے اور پوری دنیا میں قانون یہی ہے کہ کسی بھی ادارے ، پارٹی یا حکومت کا سربراہ حتمی اور فیصلہ کن قوت ہوتی ہے۔ باقی اس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ وہ اس کو تجویز دے سکتے ہیں، مشورہ دے سکتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ سربراہ کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ اور پارٹی سربراہ کا فیصلہ کی نئی بحث چھیڑ دی گئی اس صورتحال میں عام آدمی بھی تعجب کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں بعض اوقات پارٹی کا سربراہ پارلیمانی پارٹی کا رکن اور پارلیمانی سربراہ بھی ہوتا ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ پارٹی کا سربراہ پارلیمان سے باہر ہو لیکن پارلیمانی پارٹی سربراہ کے نظم کے ماتحت ہوتی ہے۔

روزمرہ کے چھوٹے بڑے معاملات پارلیمان کے اندر پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے لیکن قیادت ہی ہدایت جاری کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز الہی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے پارٹی کے سربراہ کی جانب سے جاری کئے گئے اس لیٹر کے بعد خود اعلان کیا کہ ہم ہار گئے ہیں۔ وہ پارٹی سربراہ کے خط کا مطلب فوراً سمجھ لیتے ہیں لیکن تعجب ہے کہ عدالت عظمیٰ اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ انہیں مسئلہ سمجھ نہیں آرہا۔ یہ چیزیں دانشور کیلئے قابل قبول نہیں اس لئے ہم یہ مطالبہ کر رہے ہیں یہ کیس تین رکنی بنچ کی بجائے فل کورٹ سنے۔ یہ ہمارا متفقہ مطالبہ ہے۔ تین رکنی بنچ پر بحث ہو رہی ہے۔ ایسا فیصلہ لوگوں کا ذہن قبول کیا کرتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت کا وقار بحال رہے۔ ہم چاہتے ہیں ان کے فیصلہ کو ہر شخص دل و جان سے قبول کرے۔ انہوں نے کہا کہ تین یا پانچ ججوں کے پینل کا فیصلہ انصاف کے حوالے سے شاید لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔

اس لئے ہم فل کورٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہاں پر بات ہو رہی ہے کہ کسی بیرونی مداخلت کی وجہ سے نہیں ہمارے اپنے اداروں کی مداخلت کی وجہ سے ریاست کمزور ہو رہی ہے۔ حکومتی نظام کو مضطرب رکھا جا رہا ہے، حکومت کو حکومت کرنے دیں۔ حکومت نے ایک چیلنج کے طور پر اس نظام کو قبول کیا ہوا ہے۔ چار سالہ غلاظت سے قوم کو خلاصی ملی ہے، قوم کے اوپر یہ لوگ ایک کوہ گراں بن کر مسلط رہے۔ اس ساری مشکلات سے نکلنا ایک چلنج ہے لیکن اگر مداخلت کے نتیجہ میں حکومتی نظام مضطرب رہتا ہے، ابہام رہتا ہے تو مالیاتی، انتظامی اور دیگر ادارے بھی کام نہیں کریں گے اور عام آدمی بھی اپنے گھر میں پریشان رہے گا۔ اس اعتبار سے ریاست کمزور ہوگی۔اگر ریاست کمزور ہوتی ہے تو ہمارے اداروں پر یقیناًٰ کچھ افراد ایسے ہیں اور سبکدوش ہونے کے بعد وہ بے نقاب ہو جاتے ہیں ،

پہلے انہوں نے اوٹ لی ہوئی ہوتی ہے جبکہ وہ دوران ملازمت ایک پارٹی سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی رکھنے والوں کو یہ مشورہ ہے کہ آپ دوران ملازمت ایک پارٹی کے لئے ادارے کو استعمال مت کریں ۔ وہ میدان میں آئیں اور عوامی سطح پر مقابلہ کریں۔ سبکدوش ہونے کے بعد پریس کلب کے باہر مظاہرے کرتے ہیں، اس قسم کی صورتحال سے ہمیں نکلنا چاہئے ۔ خدا راہ اس ملک پر رحم کریں اور اپنی طاقت اور بالادستی دکھانا یا اس کی خواہش رکھنے کا عمل ملک کو نقصان پہنچا رہاہے اس سے اجتناب کریں ۔ انہوں نے کہاکہ جہاں تک عمران خا ن کی سیاست کا تعلق ہے تو اس کی پوری سیاسی زندگی ایک جھوٹے بیانیہ پر کھڑی ہے ، اس کا نہ کوئی مستقل نظریہ اور نہ کوئی عقیدہ ہے ،

اس کا بیانیہ آئے روز تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اس کی ڈفلی پر کچھ لڑکے اور لڑکیاں ناچتے رہتے ہیں اور اس کو سیاست کہا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں وقار ، شرافت اور نظریئے کی سیاست کہاں گئی ۔انہوں نے کہاکہ میرے نزدیک اگر عمران خان کی سیاست میں کوئی چیز مستقل ہے تو وہ بیرونی قوتوں کی ہدایات اور ان کی خواہشات اور ان کی دولت کی پشت پناہی میں پاکستان میں بطور مشنری کام کرنا ہے اس کا مقصد اور اس کا نظریہ ریاست کو تباہ کرنا ہے اس لئے ہم اس محاذ پر ایک بڑی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہیں یہ ملک کی بقاء اور عزت و وقار کا سوال ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ برابری کی بنیاد پر چلنا ہے لیکن ہمیں کمزور کیا جارہاہے ، آج کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے ،

گلگت بلتستان ہمارے ہاتھ میں نہیں رہا ہے ، ہم نے خود اپنے اصولوں سے انحراف کیا ہے جن کی بنیاد پر 74سال سے ہم بھارت کو کشمیر پر قابض قرار دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ایک طرف ضمنی انتخابات کے نتائج تسلیم کئے جارہے ہیں اور دوسرے دن چیف الیکشن کمشنر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہاہے کیونکہ اس کے پاس پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ادارے بلا وجہ ایک شخص کو تحفظ دے رہے ہیں جو ہمارے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہم ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے کیس میں فریق بنیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم اداروں سے فیصلوں کا اختیار نہیں چھین رہے لیکن عدالت خود یہ کہتی ہے کہ ہمارے فیصلوں پر تبصرہ کیا جاسکتا ہے ، اب یہ تبصرہ مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی ، فل کورٹ کا مطالبہ کر کے ان کا اختیار نہیں چھین رہے ہم ان سے اس کیس کا فیصلہ ایک بڑے فورم پر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب انہوں نے کہاکہ اداروں کی اوٹ لیکر انہیں سیاست میں استعمال کرنے والوں کو پیغام ہے کہ اگر ان کو سیاست کا شوق ہے تو وہ میدان میں آئیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر ایک ادارہ اپنے ادارے سے باہر جاکر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تو اس سے اختلافات تو پیدا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت نے پارٹی سربراہ کے طور پر خط لکھا ہے۔ پارٹی اپنی حیثیت کے مطابق اس کو تسلیم اور سمجھ پائی ہے اور اس کے بعد ہی مونس الہٰی نے اعلان کیا کہ ہم شکست کھا گئے، اس کے باوجود اس معاملہ کو عدالت میں لگانے پر سوالات اٹھ رہے ہیں، اس پر ہم فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے فیصلہ سے ہم مطمئن ہوں یا نہ ہوں یہ الگ بحث ہے لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ فیصلہ فل کورٹ کرے۔حکومت کی مدت پوری کرنے کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومتی اتحاد نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب ہم ایک دفعہ سڑکوں کی تحریک اور استعفوں سے ہٹ کر عدم اعتمادکی طرف آئے اور پھر اتحادی جماعتیں بھی عمران خان کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ آئیں تو ہم نے اب ان اتحادی پارٹیوں کی آراء کو بھی دیکھنا ہے اور حکمران اتحاد نے دو بار اتفاق رائے سے حکومتی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کے حوالہ سے کوئی تجویز ہمارے سامنے کسی جانب سے نہیں آئی اس لئے اس پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔