ہلال احمد
اسلام آباد۔31جولائی (اے پی پی):بھارت نے 1947 میں جموں وکشمیر پر اپنا غیرقانونی تسلط قائم کرکے کشمیری عوام کو محکوم بنایا ہوا ہے، وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دینے سے گریزاں ہے جبکہ کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبانے کیلئے انہیں ہمیشہ ظلم و جبر کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین امور کشمیر کے مطابق مسئلہ کشمیر کا واحد، دیرپا اور مستقل حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 13 اگست 1948ءاور 5 جنوری 1949ءسمیت کئی مواقع پر اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلہ کے لئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ بھارت نے دو قومی نظریئے پر عملدرآمد اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو نافذ کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کے حل میں ہمیشہ رکاوٹ ڈالی اور مطالبہ حق خودارادیت دبانے کے لئے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بے دریغ پامالیاں کی ہیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے جنرل سیکرٹری شیخ عبدالمتین نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کررہا ہے، کشمیری عوام بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے باوجود حق خودارادیت کے لئے اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔
اتوار کو ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت ایک منصوبہ کے ذریعے سوچی سمجھی سازش کے تحت کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے، مودی کی قیادت میں بھارتی انتہا پسندوں نے خطے کا امن داو پر لگادیا ہے، انہوں نے کہا کہ کشمیر پر 75 سال سے جاری غیر قانونی بھارتی قبضہ اور بھارتی قابض افواج کی انتہائی بربریت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو پست کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کروائے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اور ان کی پرعزم قیادت حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے اور وہ بھارت کے غیر قانونی فوجی تسلط سے آزادی کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ حریت کانفرنس کے رہنماء نے کہا کہ بھارت کو 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لینا چاہیے اور مقبوضہ علاقے کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنے غیر قانونی اقدامات کو روکنا چاہیے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019ءکو مقبوضہ کشمیرکوخصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا اور اس کے بعد وہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کررہا ہے،
اس مقصد کے لئے مقبوضہ علاقے میں بھارتی قوانین کا اطلاق بھی عمل میں لایاگیا ہے سابق سفیر آصف درانی نے اس بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لینے ،انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔،
انہوں نے کہا کہ بھارتی ناروا اقدامات کے نتیجے میں کشمیری اپنے علاقے میں تقریباً محصور ہو چکے ہیں اور کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کر کے مقبوضہ ریاست کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ یہ اعلان کر سکیں کہ وہ رائے شماری کے لیے تیار ہیں۔
واضح رہے کہ کشمیر کے حوالے سے 5 اگست کے یکطرفہ اور غیر قانونی بھارتی اقدامات کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے پاکستان اور کشمیر کے عوام اس دن کو یوم استحصال کے طور پر منائیں گے اور عالمی برادری کو یہ یاددہانی کرائیں گے کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جس پر بھارت نے تمام بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز اور متنازعہ خطے کے عوام کی خواہشات کے برعکس قبضہ کررکھا ہے۔
کشمیری عوام اور پاکستان نے کبھی بھی بھارتی بالادستی اور کشمیر پر اس کے ناجائز فوجی تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا، اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھی قانونی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے ریاست کی حیثیت کو متنازعہ تسلیم کرتی ہے اور وہ کشمیری عوام کے اس بنیادی حق کو مانتی ہے کہ کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے خود فیصلے کا اختیار ملنا چاہئے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اقوام متحدہ نے سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ قبل مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جو تاریخی قراردادیں پاس کی تھیں وہ اب بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ارض ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادیں اس کے حل کے لئے ایک اہم بنیاد ہیں ۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مداخلت کے نتیجے میں یکم جنوری 1948ءکو کشمیر میں جنگ بندی عمل میں آئی،
اقوام متحدہ نے کشمیر کی بین الاقوامی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور ریاستی عوام کی رائے جاننے کی خاطر رائے شماری کی تجویز پیش کی لیکن اس کے باوجود بھارت نے کشمیر پر اپنے غاصبانہ تسلط کو نہ صرف برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ اس نے مسئلہ کے حل کےلئے بین الاقوامی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل کیلئے ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی سطح پر حمایت کی ہے ۔
مبصرین کاکہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد، دیرپا اور مستقل حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے سے ہی ممکن ہے۔کشمیریوں کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔