بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر پر غاصبانہ تسلط: تاریخ کا سیاہ باب اور مہذب اقوام، عالمی امن اور انسانی حقوق کے دعویداروں کے چہرے پر بدنما داغ

97

اسلام آباد۔2اگست (اے پی پی):جموں وکشمیر پر بھارت کا غیرقانونی اور غاصبانہ تسلط مہذب اقوام، عالمی امن اور انسانی حقوق کے دعویداروں کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جبکہ عالمی طاقتوں اور بااثر ممالک کے دہرے کردار نے بھارت کیلئےجموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور بے گناہ شہریوں پر مظالم ڈھانے کا راستہ ہموار کیا ہے۔بھارتی قابض افواج نے جموں و کشمیر میں حق خود ارادیت کے لیے برسر جدوجہد نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل، شہریوں کی گرفتاری، تشدد، خواتین کی آبروریزی، شیر خوار بچوں کو پیلیٹ گنوں سے شہید کرنا معمول بنالیا ہے۔

بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے، بین الاقوامی برادری کی خاموشی نے بھارت کو آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے کشمیریوں کو محکوم بنانے کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ترغیب دی ہے۔

بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کے لوگوں کے شہریت، جائیداد کی ملکیت اور رہائش کے بنیادی حقوق کے خصوصی حق کو غصب کرلیا، اس قانون کے تحت بھارتی شہری جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے تھے اور بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس خطے میں مالیاتی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ بی جے پی نے آرٹیکل 35A کو بھی منسوخ کردیا جس نے مقبوضہ کشمیر کی مقننہ کو یہ فیصلہ کرنے کا مکمل صوابدیدی اختیار دے رکھا تھا کہ کون ریاست کا مستقل رہائشی ہوسکتا ہے۔ اکتوبر 1947 میں کشمیر پر قبضہ کے بعد بھارت کی طرف سے ایسی کارروائیوں کی طویل اور خوفناک تاریخ ہے۔

مہاراجہ ہری سنگھ نے نام نہاد الحاق پر دستخط کیے جس کے بعد بھارت نے خارجہ، دفاع اور مواصلات بھارتی حکومت کو منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ شیخ عبداللہ نے وزیر اعظم کے طور پر تقرری کے بعد بھارتی حکومت کے ساتھ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت پر بات چیت کی جس کے نتیجے میں 1954 میں آرٹیکل 370 اور اس کے بعد آرٹیکل 35A کو بھارتی آئین میں شامل کیاگیا۔ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے تحت ہندو اکثریتی علاقے بھارت جبکہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے تھے لیکن مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مقامی آبادی کو اپنے فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی صورتحال پیدا ہوگئی اور اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گئے جہاں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کے لیے قراردادیں منظور کی گئیں۔

یہ جواہر لال نہرو کی بیان کردہ پالیسی تھی کہ اگر کسی علاقے میں کوئی تنازعہ ہو تو اس معاملہ کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کیا جانا چاہیے، انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم اس طرح کے کسی بھی ریفرنڈم کے نتیجے کو قبول کریں گے۔ کشمیر کے بارے میں نہ تو نہرو اور نہ ہی دیگر بھارتی لیڈروں نے اس اصول کا احترام نہیں کیا اور انہوں نے کشمیر میں رائے شماری کرانے سے ہمیشہ گریز کیا۔

کشمیر کے لوگوں نے طویل عرصہ تک رائے شماری کا انتظار کیا لیکن بھارت کی طرف سے مسلسل انکار کے بعد انہوں نے مقامی سطح پر جدوجہد شروع کی لیکن بھارت نے ان کے جائز مطالبہ حق خود ارادیت پر کان دھرنے کے بجائے لاکھوں فوجیوں کو علاقہ میں تعینات کردیا۔ معروف کشمیری رہنماوں اور ہزاروں عام شہریوں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا۔ پاکستان ہمیشہ تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے کوشاں رہا ہے، دونوں ملکوں کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات بھی ہوئے لیکن جب بھی بات چیت میں کوئی پیش رفت ہوئی تو بھارتی افواج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال گولہ باری یا پاکستان کے اندر دیگر سازشیں کی گئیں۔

لائن آف کنٹرول پر 2003 میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا جس کے نتیجے میں کچھ عرصے کے لیے لائن آف کنٹرول پر عارضی طور پر کشیدگی کم ہوگئی تھی۔ 2005 میں سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان بس سروس شروع ہوئی اور خطے میں زلزلے کے بعد دونوں اطراف نے تجارت کے لیے راستوں کی نشاندہی کرتے ہوئےکنٹرول لائن کے آرپار سامان کی نقل و حمل کی اجازت دی گئی۔

اس پیش رفت کے باوجود بھارتی افواج کی کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری اور دیگر منفی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارت میں 2014 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد صورتحال مزید خراب ہوگئی اور بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈا پر عمل شروع کیا جبکہ بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں کشمیری رہنماوں اور تحریک آزادی کےکارکنان کو گرفتار کیا گیا، 2016 میں نوجوان کشمیری رہنماءبرہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کو مہمیز اور تقویت دی۔ حالیہ برسوں کے دوران بی جے پی اور بھارتی فوج نے کشمیریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن اور ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔

تاریخ پر نظر دوڑانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت نے ہمیشہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کو بڑھانے کےلئے مختلف حربوں کا سہارا لیا ہے اور اس سلسلےکی تازہ مثال 2019 میں کنٹرول لائن کے پار پاکستانی فضائی حدود میں بھارتی لڑاکا طیاروں کی دراندازی تھی۔ فروری 2019 میں بھارت کی اس فضائی مہم جوئی کے دوران پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے دو لڑاکا طیاروں کو مار گرایا اور اس کے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کیا جسے بعد میں پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کردیا تھا۔

اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد بی جے پی ایک بار پھر بھارت کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس بار اس نے تمام سفارتی اور جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان آئینی دفعات کو منسوخ کردیا جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دی ہوئی تھی۔ کشمیر کا تنازعہ ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے لیکن عالمی ضمیر مسلسل سو رہا ہے جس سے کشمیری عوام کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔