جب چارج سنبھالا تو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ، زیر التوا مقدمات اور ازخود نوٹس کے اختیارات کا استعمال جیسے چیلنجز درپیش تھے، چیف جسٹس آف پاکستان کا نئے عدالتی سال کے آغاز پرفل کورٹ ریفرنس سے خطاب

154
جب چارج سنبھالا تو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ، زیر التوا مقدمات اور ازخود نوٹس کے اختیارات کا استعمال جیسے چیلنجز درپیش تھے، چیف جسٹس آف پاکستان کا نئے عدالتی سال کے آغاز پرفل کورٹ ریفرنس سے خطاب

اسلام آباد۔12ستمبر (اے پی پی):نئے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جب چارج سنبھالا تو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ، زیر التوا مقدمات اور ازخود نوٹس کے اختیارات کا استعمال جیسے چیلنجز درپیش تھے،خوشی ہے کہ زیر التواء مقدمات کی تعداد 54134 سے کم ہو کر 50265 ہوگئی ہے،صرف جون سے ستمبر 2022 کے دوران 6458 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا،

زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی نے گزشتہ دس سالہ اضافے کے رحجان کو ختم کیا،عدالت عظمی کےمعزز جج صاحبان نے اپنی چھٹیوں کو قربان کیا،آئندہ 6ماہ میں مقدمات کی تعداد 45 ہزار تک لے آئیں گے، فراہمی انصاف کے متبادل نظام سے یقین ہے کہ زیر التوا مقدمات میں 45 فیصد تک کمی آئے گی،ججز تقرریوں کے سلسلے میں بار کی معاونت درکار ہے،آبادی میں اضافے سے وسائل پر بوجھ پڑتا ہے،آبادی میں اضافہ سے متعلق کیس کو جلد سنا جائے گا،پالیسی معاملات میں عمومی طور پر مداخلت نہیں کرتے،لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ایسے مقدمات بھی سننے پڑتے ہیں،مارچ 2022 سے ہونے والے سیاسی ایونٹس کی وجہ سے نئے سیاسی مقدمات عدالتوں میں آئے ہیں،

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر ججز کی مشاورت سے ازخود نوٹس لیا،جس کی پانچ دن لگاتارسماعت کرکے فیصلہ دیا،سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر فیصلہ بھی تین دن میں سنایا،دوست مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل دیا،سیاسی جماعتوں کے سخت رد عمل کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا گیا،وطن عزیز کو اس وقت بدترین سیلاب کا بھی سامنا ہے،سیلاب متاثرین کیلئے ججز نے 3 دن اور عدالتی ملازمین نے دو دن کی تنخواہ عطیہ کی ہے۔

فل کورٹ ریفرنس عدالت عظمی کی کورٹ نمبر ایک میں چیف جسٹس کی زیر صدارت پیر کو منعقد ہوا۔ ریفرنس سے چیف جسٹس کے علاوہ ایڈشنل اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی خطاب کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی کے سبب ان کی جگہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کا جو حل نکالا ہے اس سے دس سال میں پہلی مرتبہ زیر التواء مقدمات کی تعداد میں کمی آئی ہے،میری تجویز ہے کہ عدالت عظمی صرف ان مقدمات کو پذیرائی دے جس میں کوئی ٹھوس قانونی سوال ہو،عدلیہ کی آزادی کیلئے بار کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد کا پورا ہونا ضروری ہے،ججز کی تقرریوں کا طریقہ کار طے ہونا باقی ہے،

تقرریوں کے طریقہ کار میں اتفاق رائے ہونا چاہیے،جوڈیشل کمیشن میں ججز کی تقرری باہمی اتفاق رائے سے ہونی چاہیے،یہ ضروری ہے کہ قابل جج کو سپریم کورٹ لایا جائے۔فل کورٹ ریفرنس سے اپنے خطاب میں وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل حفیظ چوہدری کا کہنا تھا کہ ملک کی وکلاء برادری وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور آئینی بحران کی صورت میں سپریم کورٹ کے وضاحت طلب فیصلے کو بہترین سمجھتی ہے،معزز ججز کے فیصلوں کے خلاف اپیل یا نظر ثانی کے بجائے سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہونی چاہیے،

اعلی عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا اور اس پر عمل کرنا اداروں سمیت سب کی ذمہ داری ہے،اعلی عدالتوں میں ججز کی بروقت تعیناتی اور تعداد پوری نہ ہونا انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے،اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی کے مسئلے کو خوش اسلوبی اور میرٹ پر حل کیا جائے۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چوھدری احسن بھون نے اپنے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس کے اقدامات اورگرمیوں کی تعطیلات کے باوجود سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت سے زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی آئی،اس وقت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 12 ہے،5 ججز کی تعیناتیاں نہ ہونے سے انصاف کی فراہمی کا عمل سست ہوا ہے،چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ مشاورت کیساتھ تعیناتیوں کا میعار نوٹیفائی کیا جائے،آئین اور جمہوریت کیخلاف سازشوں سے ملک میں بے جا انتشار ہوا ہے،

اقتدار کی ہوس میں اعلی عدلیہ کے ضبط کو بار بار آزمایا گیا،عدلیہ اور ججز اور انکی فیملی کی سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مذمت کرتے ہیں،عدلیہ کیخلاف کسی قسم کی توہین آمیز گفتگو ناقابل برداشت ہے،عدلیہ کی کردار کشی کا نوٹس لیا جائے،آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ آئین کے منافی ہے،آرٹیکل 63 اے اور آرٹیکل 61/1ایف کے فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی دائر کردہ نظر ثانی درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیکر سماعت کی جائے،آرٹیکل 183 تین کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کیلئے قانون سازی کی جائے،انہوں نےنئے عدالتی سال پر عدلیہ اور ججز کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔فل کورٹ ریفرنس میں لاء آفیسرز، سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء اور عدالتی عملہ نے شرکت کی۔