وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب

253

اقوام متحدہ۔19ستمبر (اے پی پی):وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی )پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے اسلامو فوبیا پر خصوصی نمائندہ، فوکل پرسن مقرر کرنے کے لئے رجوع کرے کیونکہ دنیا بھر میں خاص طور پر یورپ میں اسلامو فوبیا تشویشناک حد تک پہنچ چکا ہے، او آئی سی کے رکن ممالک کو، یورپی ممالک کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کے فریم ورک کے اندر، مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کو اٹھانا چاہئے اور ان چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کے لئے بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے موقع پر یورپ میں مسلمانوں کی حالت زار سے متعلق رابطہ گروپ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے مذہب اسلام کو فروغ دینا چاہئے اور دنیا بھر بالخصوص یورپ میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والے مسلمانوں کو تحفظ دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں اسلامو فوبیا جڑیں پکڑ چکا ہے ، اسلام امن اور برداشت کا مذہب ہے، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر حضرت محمدﷺ ۖ اور قرآن پاک کی توہین کی گئی، قرآن پاک کو جلانا اور گستاخانہ خاکے شائع کرنا اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مذہبی آزادیوں کے بارے میں خصوصی نمائندے نے اپنی گزشتہ سال کی رپورٹ میں کہا کہ مسلمانوں سے یورپی ممالک میں خوف ، منفی رویوں، بد اعتمادی اور مشتبہ کمیونٹی جیسا سلوک کیا جاتا ہے، انہیں چھوٹی انتہا پسند اقلیت کے اقدامات پر اجتماعی ذمہ داری برداشت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف آف لائن اور آن لائن نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے، انہیں تعلیم، شہریت ، امیگریشن ، روزگار ، ہائوسنگ اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

اسلامو فوبیا کا صنفی پہلو بھی نمایاں ہو رہا ہے جس میں مسلمان لڑکیوں اور خواتین کو ان کے لباس کے انداز اور عام تصور کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ مسلمان خواتین مظلوم ہیں اور اس لئے انہیں ‘آزاد’ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اسلامو فوبیا یورپ میں سیاسی سطح پر بھی شدت سے نظر آ رہا ہے جو بالآخر نئی قانون سازی اور پالیسیوں جیسی امتیازی سفری پابندیوں اور ویزا پابندیوں کے ذریعے اسلامو فوبیا کو ادارہ جاتی بناتا ہے۔ مختلف مطالعات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ مغربی میڈیا یورپ کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور گروپ جو انتخابی مقاصد کے حصول کیلئے عوام میں اسلام کا خوف پیدا کرتے ہیں۔

یورپ کے علاوہ دنیا بھر میں اسلامو فوبیا خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے، اس حوالے سے اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج اس طرح کے اسلامو فوبیا کا ایک بدترین مظہر ہندوتوا سے متاثر ہندوستان میں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے نظریہ پر عمل پیر ابھارتی حکمران جماعت بی جے پی-آر ایس ایس کی حکومت اپنے صدیوں پرانے منصوبے پر عمل پیرا ہے، ان کا مقصد ہندوستان کی اسلامی میراث کو ختم کرنا اور بھارت کو ایک خصوصی ہندو ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کیلئے او آئی سی عالمی برادری کے ساتھ اجتماعی کوششیں اور پائیدار مذاکرات کرے تاکہ قانونی ، ثقافتی ، مذہبی ، تعلیمی ، سیاسی اور انسانی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)ممالک کی جانب سے پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی تاریخی قرارداد کو منظور کیا تھا جس میں 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا گیا تھا۔اس قرارداد سے پیدا ہونے والی پیشرفت کو برقرار رکھنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے، وزیر خارجہ نے کہا کہ او آئی سی کو یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں امتیازی سلوک اور نفرت انگیز جرائم کے ایسے تمام واقعات کی نگرانی کے لئے او آئی سی جائزہ کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔او آئی سی کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور کونسل آف یورپ کے انسانی حقوق کے کمشنر سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت، دشمنی اور تشدد کی کارروائیوں کی نگرانی کے لئے مبصر تعینات کریجو متعلقہ پالیسی اداروں کو باقاعدگی سے رپورٹ کرے۔

او آئی سی کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر زور دینا چاہئے کہ وہ اسلامو فوبیا پر خصوصی نمائندہ یا فوکل پرسن مقرر کریں۔او آئی سی کے رکن ممالک کو، یورپی ممالک کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کے فریم ورک کے اندر، مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کو اٹھانا چاہئے اور ان چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کے لئے بھرپور کوششیں کرنی چاہئیں۔