چار ممالک میں ہونے والے خالصتان ریفرنڈم میں 2 لاکھ سے زائد سکھوں کی شرکت، بھارتی پنجاب کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے اور خودمختار سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ

184

اسلام آباد۔29ستمبر (اے پی پی):چار ممالک میں ہونے والے خالصتان ریفرنڈم میں تقریباً 208,000 سکھوں نے حصہ لیا جس میں بھارتی پنجاب کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے اور ایک خودمختار سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔

گزشتہ سال اکتوبر سے شروع ہونے والی اس ریفرنڈم مہم کے تحت اب تک برطانیہ، جنیوا، اٹلی اور کینیڈا میں چار ریفرنڈم ہو چکے ہیں جن میں سکھ برادری نے بڑی تعداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس سلسلے میں ریفرنڈم کا تازہ ترین مرحلہ 18 ستمبر کو برامپٹن کینیڈا میں منعقد ہوا، جس میں تقریباً 110,000 سکھوں بشمول بالغ سکھوں کی 20 فیصد آبادی نے ایک خودمختار ریاست کے حق میں ووٹ دیا۔پہلا خالصتان ریفرنڈم 31 اکتوبر 2021 کو برطانیہ میں ہوا جس میں 30 ہزار سکھوں نے حصہ لیا۔

گزشتہ سال 10 دسمبر کو جنیوا میں 6000 سے زیادہ لوگوں نے خودمختار سکھ ریاست کے لیے ووٹ دیا۔اسی طرح کی ایک مشق اٹلی میں 62,000 سکھوں اور کینیڈا میں تقریباً 110,000 سکھوں کی شرکت کے ساتھ منعقد کی گئی۔کینیڈا میں ریفرنڈم کا انعقاد سکھ فار جسٹس ( ایس ایف جے ) نے سکھ رہنما گروپتونت سنگھ پنوں کی قیادت میں پرامن اور جمہوری طریقے سے کیا تھا۔

میڈیا سے بات چیت کے دوران گروپتونت سنگھ پنوں نے ایک مجوزہ خالصتان کا نقشہ دکھایا جس کا دارالحکومت شملہ ہو گا۔سکھ ریفرنڈم کے لیے زبردست ٹرن آؤٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’سکھ آزادی کی تحریک‘ ایک مرکزی دھارے کی تحریک بن رہی ہے۔ریفرنڈم کے دوران سکھ برادری نے بھارت مخالف اور خالصتان کے حق میں نعرے لگائے اور خالصتان نواز ریلی میں 2 ہزار سے زائد گاڑیوں نے حصہ لیا۔

سکھ فار جسٹس کی جانب سے ریفرنڈم مہم نے بھارت کی طرف سے سکھوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے عالمی برادری میں بیداری پیدا کی ہے۔ اس سے بھارت پر سرکاری ریفرنڈم کے لیے مزید دباؤ بھی بڑھے گا۔اقوام متحدہ کے آرٹیکل جو لوگوں کو حق خود ارادیت کا حق دیتا ہے، کے تحت پرامن اور جمہوری طریقے سے آزادی کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ہر ایک کا حق ہے۔بھارت نے اپنے مخصوص ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے کینیڈین حکومت کو خالصتان ریفرنڈم کو روکنے کے لیے متعدد درخواستیں کیں تاہم کینیڈا کی حکومت نے سکھ فار جسٹس کو ریفرنڈم کے انعقاد سے روکنے سے انکار کر دیا اور ہندوستانی حکومت کو واضح طور پر مطلع کیا کہ یہ کینیڈا کے قانون کے دائرہ کار کے اندر پرامن اور جمہوری طریقے سے منعقد کیا گیا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے ریفرنڈم پر سخت اعتراض کیا اور اسے ایک ’مضحکہ خیز مشق‘ قرار دیا جسے سیاسی طور پر متحرک انتہا پسند عناصر کی حمایت حاصل ہے۔یہاں تک کہ بھارت کے معروف اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز نے بھی سکھ برادری کے پرامن مظاہرے کی کوریج نہیں کی بلکہ ایک جمہوری ملک ہونے اور اظہار رائے کی آزادی کا دعویٰ کرنے کے باوجود پورے واقعے کی منفی کوریج کی۔مختلف خالصتان ریفرنڈم کی ٹائم لائن اور آزاد خالصتان کے حق میں ووٹ دینے والے سکھوں کی تعداد اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بھارت میں سکھوں کا آزاد ریاست کا مطالبہ آہستہ آہستہ عالمی سطح پر قبول کیا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سکھوں کی آزادی کی تحریک سکھ برادری میں زور پکڑ رہی ہے۔ویڈیو فوٹیجز کلیدی مغربی دارالحکومتوں میں سکھوں کے اندر خالصتان کی حمایت میں بتدریج اضافہ دکھاتی ہیں۔ ماضی قریب میں متعدد ریفرنڈم اور بھاری ووٹوں سے ثابت ہوتا ہے کہ سکھ برادری بھارت میں ایک آزاد وطن چاہتی ہے۔خالصتان موومنٹ درحقیقت بھارت کی طرف سے 1980 کی دہائی سے سکھ برادری پر بے دریغ ظلم و ستم کا نتیجہ ہے۔