سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے فوری طور پر 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی فراہمی ناگزیر ہے،سینیٹر شیری رحمان کا یو این فلیش اپیل کی تقریب سے خطاب

148

جنیوا۔4اکتوبر (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلئے دوسری انسانی امداد کی اپیل کیلئے جنیوا میں منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے فوری طور پر 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی فراہمی ناگزیر ہے، کل 20.6 ملین لوگ اب بھی امداد کے منتظر ہیں جبکہ چاروں صوبوں کے 34 اضلاع کے 9.5 ملین افراد کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ہمیں سیلاب متاثرین کو تحفظ، اشیاء خوردونوش کی فراہمی سمیت پناہ دینا اور دوبارہ آباد کرنا ہے۔

ہم چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں اور اس حوالے سے وفاق اور صوبوں میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب ہے جبکہ تقریباً 1,700 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 13,000 کے قریب زخمی ہوئے۔ 7.9 ملین اب بھی بے گھر ہیں۔ متاثرہ 33 ملین میں سے تقریباً 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں، ریکارڈ شدہ اموات اور زخمیوں میں سے ایک تہائی بچے ہیں۔

منگل کو جنیوا میں سیلاب متاثرین کیلئے پاکستان اور اقوام متحدہ کی نئی فلیش اپیل جاری کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے پاکستان میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں اور ان سے نمٹنے کیلئے امداد و بحالی کی ضروریات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث رونما ہونے والی ایسی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے ایک بڑا انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے، حکومت متاثرین کی امداد اور بحالی کیلئے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لا رہی ہے تاہم پاکستان اکیلے اس چیلنج سے نہیں نمٹ سکتا ، اس سلسلے میں تعاون کیلئے عالمی برادری کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے ۔

انہوں نے عالمی برادری کو ماحولیاتی بحران سے آگاہ کرتے ہوئے کہا پاکستان کا 46,000 مربع کلومیٹر کا علاقہ اب بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ متاثرین کی تعداد سوئٹزرلینڈ اور پرتگال کی مجموعی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ متاثرہ خاندان اب بھی صدمے میں ہیں جو راتوں رات کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ان کا مستقبل بالکل غیر یقینی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی تباہی کی نوعیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مون سون کی پہلی بارش کے 16 ہفتے گزر جانے کے باوجود، ہم اب بھی جان بچانے والے ردعمل کے مرحلے میں ہیں، کیونکہ رواں سال فلیش فلڈنگ، پہاڑی طوفان، اور تباہ کن مون سون قسم کے سیلاب کا سامنا ہوا ہے۔

گیارہ اضلاع اب بھی زیر آب ہیں، بہت سے لوگ اب بھی خوراک، صاف پانی اور طبی امداد کیلئے امدادی مرکز تلاش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ خشک زمین نہ ہونے کے باعث لواحقین کے پاس اپنے مردوں کی تدفین کیلئے جگہ نہیں ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ امدادی سرگرمیوں کیلئے کسی ایک ملک کے پاس مکمل طاقت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی عالمی قلت کے پیش نظر اور قرضوں کی ادائیگیوں کے ساتھ ہمارے درآمدی بل شدید متاثر ہوتے ہیں، کسان اور دیگر متاثرہ شعبے پہلے سے ہی نقصان میں ہیں اور نقصان کی تلافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سیلاب متاثرین کی مدد اور وسائل کو متحرک کرنے کیلئے اقتصادی نظام کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف بیس سال تک جاری رہنے والی جنگ میں 80,000 جانوں کی قربانی دی ہے لیکن ہم اپنی دہلیز پر سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات اور وسائل میں شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں، ہنگامی فنڈنگ ​​سے لاکھوں افراد کی مدد ممکن ہو سکے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت پاکستان نے غریبوں کو فوری نقد امداد تک شفاف رسائی دینے کیلئے بی آئی ایس پی پروگرام کے ذریعے متاثرہ آبادی کے 2.4 ملین لوگوں میں 261 ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم تقسیم کی گئی ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بری طرح متاثر ہوا ہے ، اس کی واضح مثال حالیہ سیلاب اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث رونما ہونے والی آفات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے ۔

انہوں نے پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کو صدی کی بڑی آفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے، متاثرہ علاقوں میں فصلیں تباہ ہو گئیں ، مویشی بہہ گئے ہیں جبکہ وسیع پیمانے پر زیر کاشت اراضی تباہ ہو گئی ہے ۔ اس سے جہاں لوگوں کا ذریعہ معاش ختم ہو گیا وہاں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال پیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے ، سڑکیں سیلاب میں غرق ہو گئیں جبکہ پل بہہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں پانی کھڑا ہونے کے باعث بیماریاں پھیلنے کے پیش نظر صحت کا بحران بھی پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین کےلئے ہنگامی بنیادوں پر ادویات اور دیگر طبی سہولیات کی ضرورت ہے ۔

موسم سرما کی آمد آمد ہے ، انہیں سردی سے بچانے کیلئے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان متاثرین کی امداد و بحالی کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے ہوئے ہے تاہم اس تباہی کی نوعیت اور اتنے بڑے پیمانے پر متاثرین کی ضروریات کے پیش نظر اسے عالمی برادری کی جانب سے مدد و تعاون کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی چیلنج ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے، اس حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کی زمہ داری زیادہ ہے۔

اس موقع پر شیری رحمان نے اقوام متحدہ کے آر سی جولین ہارنیس، او سی ایچ سی کے سربراہ رمیش راجاسنگھ، انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی ہمدردی مارٹن گریفتھس کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل-ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانوم گیبریئس کی قیادت اور پاکستان میں صحت کے انتہائی خطرات پر اعلیٰ سطحی توجہ دینے پر شکریہ ادا کیا۔