اسلام آباد۔26اکتوبر (اے پی پی):مادرِ وطن کی خاطردُشمن کا دِفاع کرنے والے پاک فوج کے بہادر سپوت نائیک سیف علی جنجوعہ نے 1948کی پاک – بھارت جنگ کے دوران متعددبھارتی حملوں کے خلاف نا صرف بہادری سے پیر کلیوہ پوسٹ کا دفاع کیا بلکہ عزم وہمت کے ساتھ اپنے جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے مادرِ وطن کے دفاع کو بھی یقینی بنایا۔
جرات و بہادری کی عظیم داستان رقم کرنے والے آزاد کشمیر کے بہادرسپوت نائیک سیف علی جنجوعہ 23 اپریل 1922 کو کھنڈہار تحصیل نکیال آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام ملک محمد معصوم خان تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی اور پھر دیگر دینی کتب کا درس علاقہ کے علماء سے حاصل کیا۔ آپ اردو اور فارسی زبان کی کتب کا مطالعہ کرتے تھے جبکہ قرآن پاک کی کئی تفسیروں کا مطالعہ آپ کے علم میں اضافے کا باعث بنا۔
آپ نے 18سال کی عمر میں 1940میں پاک و ہند کی تقسیم سے قبل فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 18 مارچ 1941 آپ برٹش انڈین آرمی کی رائل کور آف انجینئرز میں بطور سپاہی شامل ہوئے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد آپ کی یونٹ جالندھر اور لاہور میں بھی تعینات رہی۔ 1947 میں آپ اپنے وطن واپس آئے اور سردار فتح محمد کریلوی کی ”حیدری فورس”میں شامل ہوگئے۔
یکم جنوری 1948 حیدری فورس کو ”شیر ریاستی بٹالین”کا نام دے دیا گیا جس کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل شیر خان جو ایک قابل اور مشہور افسر تھے۔بعدازاں تنظیم نو کے دوران اس بٹالین کو 18آزاد کشمیر رجمنٹ نامز دکیا گیا۔ اس بٹالین نے سیف علی جنجوعہ کی قابلیت کے پیشِ نظر اُنھیں نائیک کا عہدہ دے دیا اور انہیں بدھا کھنہ کے مقام پر دشمن سے دفاع کا حکم دے دیا۔ معرکہ پیر کلیوہ پوسٹ،بھارتی فوج سے پیر کلیوہ محاذ پر کئی دن سے جھڑپیں جاری تھیں۔ 18 آزاد کشمیر رجمنٹ پہلے ہی حملے میں دریائے پونچھ عبور کر کے پیش قدمی کرتے ہوے پیر کلیوہ پہاڑی پر واقع پوسٹ پر اپنا قبضہ مضبوط کر چکی تھی کیونکہ دفاعی لحاظ سے یہ بہت اہم پوسٹ تھی۔
یہا ں سے یونٹ نے دشمن پر بآسانی نظررکھی ہوئی تھی۔ یہی راستہ تھا جو یونٹ کو سرینگر پہنچا سکتا تھا۔ اصل ٹارگٹ سرینگر ہی تھا۔ اس پر دوبارہ قبضے کے لیے دشمن بار بار حملہ آور ہوتا اور منہ کی کھاتا۔ 26اکتوبر 1948کو دشمن نے اپنے ایک انفنٹری بریگیڈ کے ذریعے، جسے بھاری توپ خانے اور ٹینکوں کے علاوہ ائیر فورس کی مدد بھی حاصل تھی، پیر کلیوہ پوسٹ پر قبضہ کے لیے حملہ کر دیا۔ یہاں گھمسان کی جنگ سارا دن جاری رہی۔ اس پلاٹون کو نائیک سیف علی جنجوعہ کمان کر رہے تھے۔ گھمسان کی لڑائی کے باوجود آپ یونٹ سے رابطہ کرتے رہے۔
آپ کو معلوم تھا کہ آپ اپنی بٹالین سے بچھڑ چکے ہیں لیکن پھر بھی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ اس دوران نائیک سیف علی نے تعداد اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنی مشین گن سے ایک بھارتی طیارہ مار گرایا۔ فضائی بمباری اور شیلنگ کے سبب نائیک سیف علی جنجوعہ کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہو گئیں مگر آپ نے اپنی مشین گن سے فائرنگ جاری رکھا۔ زخموں سے چور ہونے کے باوجود آپ نے اپنی پلاٹون کی راہنمائی جاری رکھی اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔
سہ پہر3 بجے آپ کا رابطہ بٹالین سے بحا ل ہوا۔ بٹالین ہیڈ کوارٹر سے لیفٹیننٹ محمد ایاز خان اور لیفٹیننٹ رحمت علی جو اس وقت بٹالین ایڈجوٹینٹ تھے، فوری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کمک لے کر مختلف راستوں سے محاذ پر روانہ ہوئے،مگر چوکی پر موجود اسلحہ و گولہ بارود تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ نائیک سیف علی نے پھر بھی ہمت نہ ہاری، زخمی حالت میں بھی لاشوں اور زخمیوں تک پہنچے اور ان کا اسلحہ اکٹھا کر کے اپنے زندہ بچ جانے والے ساتھیوں تک پہنچایا۔دشمن کے تازہ حملے کا سامنا کرنے کی غرض سے آپ نے باقی ساتھیوں کو پھر سے منظم کیا۔ آپ کو یہ احساس تھا کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں نے آخری گولی نہیں بلکہ آخری سانس تک لڑنا ہے۔
آپ نئے حملے کی مناسبت سے پوزیشن تبدیل کرنے لگے اور مٹھی بھر مجاہدین کے ساتھ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ بھارتی توپوں کی جانب سے گولہ باری میں شدت آ گئی تھی۔اس مقابلے کے دوران دُشمن کاگولہ آپ کی چیک پوسٹ کے قریب آگرا اور آپ شدید زخمی ہو گئے۔
پاک فوج کے اس بہادر سپوت نے مادرِ وطن کے دِفاع یقینی بناتے ہوئے،26اکتوبر 1948ء کوجامِ شہادت نوش کیا۔دُشمن اس پوسٹ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہااور بھاری جانی نقصان اُٹھاکر پسپا ہوا۔ آپ نے کشمیر سے ڈوگرہ راج کے خاتمے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
بوقت شہادت آپ کی عمر 26سال6ماہ تھی۔آپ کے لواحقین میں بیوی زہرہ بی بی، دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ 14 مارچ 1949 حکومتِ آزاد جموں و کشمیر کی ڈیفنس کونسل نے بعدازشہادت آپ کو”ہلال کشمیر“کا اعزاز دیئے جانے کا اعلان کیا۔ یہ حکومت آزاد جموں و کشمیر کا سب سے بڑا عسکری اعزاز ہے۔بعدازاں حکومت پاکستان نے 1995 میں ہلال کشمیر کو نشان حیدر کے مساوی قرار دیا۔