فتنہ،فساد،شیطانی مارچ کابھیدافشاکرنے پر اپنے ہی قریبی ساتھی کو بغیر ضابطے کی کارروائی کے پارٹی سےنکال دیا،وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ کی پریس کانفرنس

105

اسلام آباد۔29اکتوبر (اے پی پی):وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ فتنہ ،فساد، شیطانی مارچ کا بھید افشا کرنے پر اپنے ہی قریبی ساتھی کو بغیر ضابطے کی کارروائی کے پارٹی سے نکال دیا اور اب انہی کے ایک سابق وزیر علی امین گنڈا پور کی آڈیو لیک سامنے آگئی ہے جس میں وہ مسلح جتھے کیلئے اسلحہ، لائسنس اور بندے اکٹھے کرنے اور اسلام آباد کے سنگم پر کسی آبادی میں ٹھہرانے کی تیاریوں کا احوال پوچھ رہے ہیں،

آئین اور جمہوریت پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص فتنہ فساد پر یقین نہیں رکھتا، یہ فتنہ قوم کو تقسیم اور نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے، ان کا مقصد لاشیں گرانا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے آئی جیز اور چیف سیکرٹریوں کو فتنہ فساد مارچ میں تخریب کاری سے متعلق معلومات فراہم کردی ہیں ان کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ کارروائی کریں،

وفاقی قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے الرٹ ہیں اور اسلام آباد کے شہریوں کے جان و مال،املاک اورریاستی عمارتوں کا ہرقیمت پر تحفظ کیا جائے گا اور کسی کو قانون توڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کسی مسلح جتھے کو کسی قیمت معاف نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی قسم کی کوئی رعایت دی جائے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو فتنہ فساد مارچ کو خونی مارچ بنانے کے تحریک انصاف کے ارادوں کے حوالے سے بعض شواہد اورثبوت میڈیا سے شیئر کرتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ فتنہ فساد کے شیطانی مارچ تک میڈیا کو زحمت دیتے رہیں گے، ایک ایسا ثبوت پیش کرنے جا رہا ہوں جو اس بات کی تصدیق کرے گا کہ یہ فتنہ مارچ ہے اور فساد برپا کرنے کی ایک سازش ہے اور جس طرح سے ان کے ایک قریبی ساتھی نے چار دن قبل انکشاف کیا کہ یہ خونی مارچ ہو گا اس میں مجھے خون ہی خون، لاشیں ہی لاشیں اور بڑے بڑے لوگوں کے جنازے نظر آ رہے ہیں تو شیطانی فتنہ نے بغیر ضابطے کی کارروائی کے اسے فوری طور پر پارٹی سے باہر نکال دیا ۔

کیونکہ اس نے آپ کا انتہائی ملک دشمن اور گھٹیا ایجنڈا بے نقاب کردیا اور اب اس کی آپ کو ضرورت نہیں رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک فتنہ ہے، یہ قوم کو تقسیم اور نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور یہ سیاستدان نہیں اور اس کا رویہ بھی جمہوری نہیں ہے کیونکہ سیاستدان ایسا نہیں کہتاکہ اپوزیشن کو نہیں چھوڑوں گا، اپوزیشن سے مذاکرات کی بجائے موت کو ترجیح دوں گا، ایسی باتیں کوئی سیاستدان اور جمہوریت پر یقین و ایمان رکھنے والانہیں کر سکتابلکہ صرف فتنہ ہی ایسی بات کرسکتا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ فتنہ شیطانی کھیل کو اس شیطانی مارچ کے ذریعہ پوراکرنا چاہتا ہے ، اسلام آباد آ کر جلسہ کرنا اس کا مقصد نہیں اور جن جگہوں کا سپریم کورٹ نے تعین کیا ہے وہاں دھرنا دینا بھی اس کا مقصد نہیں ہو سکتا، اس کا مقصد ہے کہ یہ لاشیں گرائے، امن و امان کی ایسی صورتحال پیدا کرے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لوگ الجھ پڑیں اور اس عمل سے جو نقصان ہواس کا خمیازہ اور ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈال دیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ فتنہ اسی قسم کی تیاری کیلئے لگاہوا ہے جسے نہ تو اس بات پر شرمندگی ہے اور نہ ہی ملک کے نقصان کی کوئی فکر ہے بلکہ اس نے اس وقت بھی یہ نہ سوچا جب اس نے سائفر کی سازش رچائی اور ڈھٹائی اور سکون کے ساتھ اپنے سیکرٹری کو کہتا رہا کہ ہم نے اس سے کھیلنا ہے اور رجیم چینج کا بیانیہ گھڑا۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور ثبوت پیش کرنے جا رہا ہوں اور اس طرح کی غیر اہم شخصیات کے بہت سے ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں جو فتنہ فساد مارچ کی سازش کو بے نقاب کرتے ہیں، ایک سابق وفاقی وزیر کی گفتگو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو ریکارڈ پر ہے جس میں بہت سارے چھوٹے چھوٹے کریمینل گروپس کو جس میں گجرات بھی پیش پیش ہے انہیں بھی اس کام پر لگایا ہواہے کہ خون خرابہ ہو۔

وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کو علی امین گنڈا پور کی ریکارڈ شدہ گفتگو بھی سنائی جس میں علی امین گنڈا پور کسی نامعلوم شخص کو کہہ رہے کہ بندوقیں کتنی ہیں، کیا پوزیشن ہے۔پی ٹی آئی راہنما اور سابق وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کی نامعلوم شخص سے بندوقیں اور بندے لانے کی آڈیو لیک کا متن کچھ اس طرح ہے ” نامعلوم شخص: جی علی خان علی امین گنڈا پور: صدر صاحب کیا پوزیشن ہے ؟نامعلوم شخص: سر پوزیشن تو اے ون ہے۔ آپ سنائیں؟علی امین گنڈا پور:

بندوقیں کتنی ہیں؟نامعلوم شخص: بہت ہیں علی امین گنڈا پور : لائیسنس ؟نامعلوم شخص: لائیسنس بھی بہت ہیں؟ علی امین گنڈا پور: بندے ؟نامعلوم شخص: بندے بھی جتنے چاہئیں ہوں گے سر علی امین گنڈا پور: ا چھا! ہم یہاں کیمپ لگا رہے ہیں ساتھی ہی قریب ہی کالونی میں، نامعلوم شخص: جی علی امین گنڈا پور: یہاں قریب ترین جگہ کون سی ہے آخر میں ؟کون سی کالونی ساتھ لگ رہی ہے۔ نامعلوم شخص: ہمارے ہاں ؟علی امین گنڈا پور: بارڈر پہ ۔۔ بارڈر پہ ۔۔ اسلام آباد پنڈی کے بارڈر پر ۔ ٹول پلازے کے بعد لیفٹ سائیڈ پر ۔

کون سی جگہ ہے ۔ ٹاپ سٹی ہے یا کیپیٹل نامعلوم شخص: ٹاپ بھی ، کیپیٹل بھی ہے، بہت ساری ہیں بتائیں علی امین گنڈا پور: ٹاپ تو ائیر پورٹ پر ہے ناں نامعلوم شخص: ٹاپ تو ائیر پورٹ والی سائیڈ پر ہے ناں۔۔ میں نے پورا نقشہ بھیجاتھا آپ کو علی امین گنڈا پور: وہ ملا ہوا ہے مجھے ، وہ ہے میرے پاس علی امین گنڈا پور: بس بندے اور سامان آپ ریڈی رکھیں وہاں پر نامعلوم شخص : سر کوئی مسئلہ نہیں، ان شااللہ علی امین گنڈا پور: بس پھر رابطے میں ہیں ، ان شااللہ نامعلوم شخص: جی سر، ان شااللہ”۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اب سوال یہ ہے کہ جس نے بات عام کی اسے تو آپ نے پارٹی سے نکال دیا اور اب یہ کیا کرنے کیلئے ایسا کہا جا رہا ہے، یہ لاشیں گرا کر سانحہ پیداکرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح انہوں نے ایک صحافی کی تصاویر کو اپنے لانگ مارچ میں ڈسپلے کیا اورجس طرح اس کا غم منایا اور مذموم مقصد کیلئے استعمال کیا اسی طرح اس گفتگو سے ثابت ہوگیا ہے کہ یہ آدمی ایک فتنہ ہے، یہ ملک کو فتنہ اور فساد سے دوچار کرنا چاہتا ہے، اس کا قوم کو ادراک کرنا چاہئے اور اس فتنہ کا سر ابھی کچلنا چاہئے ورنہ یہ ملک اور قوم کو کسی حادثہ سے دوچار کردے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے، بطور وزیر داخلہ یہ میری ذمہ داری ہے اور اگر ہم یہ ذمہ داری پوری کرتے ہیںتو کسی جانب سے یہ آواز نہیں آنی چاہئے کہ پرامن احتجاج ہے اور یہ پرامن احتجاج کی اجازت دی جائے، پرامن احتجاج کی آئین اور جمہوریت میں گنجائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شخص تو آئین اور جمہوریت کومانتا ہی نہیں، جمہوریت میں مخالف رائے کو عزت دینا پڑتی ہے اور احترام کرنا پڑتا ہے۔

یہ کہتا ہے میں چھوڑوں گا نہیں۔ اس لئے یہ ہماری، اداروں،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ ان باتوں کو منظرعام پر لائیں، انہیں چیلنج ہے کہ یا تو یہ گفتگو کو غلط ثابت کریں یا چیلنج کریں، اس کا فرانزک آڈٹ کرالیتے ہیں اور اگر درست ثابت ہوجائے تو اس پر ایکشن لینا حکومت کی ذمہ داری اور فرض ہے اور اگر وہ اس سے بھاگتے ہیں، کوئی جواز گھڑتے ہیں اور کوئی بیانیہ بناتے ہیں ، اسے کسی خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ ہم ہر قیمت پر وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کے جان و مال، املاک، عمارتوں کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کریں گے اور کسی مسلح جتھےکوچڑھائی کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علم میں اور بھی جتھے ہیں جن کی تیاریاں، گفتگو ہمارے علم میں ہے لیکن ان کے نام اتنے معروف نہیں، ان کے خلاف وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایکشن لینا پڑے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کے پی کے کی حکومت خاص طور پر آئی جی اور چیف سیکرٹری کو خبردار کرتا ہوں کہ اس بات کا نوٹس لیں، علی امین گنڈا پور اور گفتگو کرنے والا شخص آپ کی حدود میں ہے، انہیں اور جن بندوں کو لانے کی بات کی جارہی ہے انہیں گرفتار کریں اور اسلحہ اپنی تحویل میں لیں اور اگر اس قسم کا کوئی گروہ کے پی کے سے اسلام آباد کی حدود یا اس کے قرب و جوار میں جمع ہوتا ہے تو آپ براہ راست اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

اسی طرح پنجاب حکومت اور آئی جی اور چیف سیکرٹری سے بھی کہوں گا کہ ہم نے آپ سے معلومات شیئر کی ہیں، کل بھی مسلح لوگ لبرٹی چوک سے شامل تھے اور آج بھی شامل ہوئے، گجرات کے لوگ شامل ہونے کی بھی اطلاعات ہیں اورگجرات میں بھی مخصوص حالات اور سیاست کی وجہ سے بندوقیں اور بندے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ انہیں کہوں گا کہ آپ قوم اور ریاست کے خدمت گار ہیں، آپ کسی ایسے بدبخت اور شیطانی عمل جو اس ملک میں فتنہ فساد، افرا تفری، انارکی پھیلانا چاہتا ہے اس کے بیانیہ میں نہ آئیں اور قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کریں۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وفاقی قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا بھرپور کردار کریں گے اور پوری طرح الرٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں یہ بات مجھے کہنا پڑ رہی ہے جو کہنا نہیں چاہتا تھا اور اگر نہ کہوں تو فرض ادا کرنے سے قاصر رہوں گا۔ اور وہ بات یہ ہے کہ وہ معصوم لوگ کچھ تو اس کے گمراہ کردہ ہیں، دس پندرہ کا وہ ٹولہ جو ہر جگہ پہنچا ہوتا ہے اور اس کے پہنچنے کی وجوہات مختلف ہیں جس پر یہاں روشنی نہیں ڈالی جاسکتی۔ وہ وجوہات نہ ہوں تو شاید یہ تعداد گھٹ کر ڈیڑھ دو ہزار پر آجائے۔

یہ وہی ٹولہ ہے جو جلسوں میں ہوتا ہے، وہی لبرٹی چوک میں تھا اور وہی آج شاہدرہ میں تھا اور لاہور کے شہر یوں نے فتنہ مارچ کو بری طرح مسترد کردیا ہے، لاہور 10 سے 15 ملین آبادی کا شہر ہے اور ملحقہ علاقوں قصور اور شیخوپورہ کوساتھ ملا لیں تو 20 ملین سے زائد آبادی بنتی ہے جس نے انہیں مسترد کردیا ہے۔میرا اندازہ ہے اسلام آباد تک اتنے ہی لوگ پہنچ پائیں گے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ میری پاکستان کے محب وطن شہریوں اور گمراہی کا شکار لوگوں کے عزیزوں، ان کے والدین سے میری اپیل ہے کہ اپنے بچوں اور عزیزوں کو سمجھائیں اور اس گمراہی سے نکالیں اور اس شیطانی مارچ کا حصہ بننے سے روکیں اور اپنا قومی فرض ادا کریں اور اس کے بعد جو صورتحال سامنے آئے گی ہم اپنا فرض بھرپور عزم کے ساتھ نبھائیں گے اور کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری ٹیم کینیا پہنچ چکی ہے،

معلومات ایک دو دنوں میں مکمل ہوجائیں گی اور اس موضوع پر معلومات میڈیا سے شیئر کردیں گے۔ شیطانی فتنہ مارچ سے متعلق جو ثبوت ملے ہیں وہ میڈیا کے سامنے رکھے ہیں اور ہمارے پاس تو ثبوت ہے کہ یہ گفتگو علی امین کی ہے اور بھی باتیں ہمیں معلوم ہیں کہ اسلحہ اور لائسنس انہوں نے کہاں سے لیا ہے۔ اس لئے چیلنج بھی کیا کہ ابھی فرانزک کرکے بھی ثابت کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ لاشیں گرانے کی انہوں نے سازش تیار کر رکھی ہے۔ علی امین گنڈا پور اس وقت کے پی کے میں ہے اور اگر کے پی کے حکومت اسے نہیں پکڑتی تو اس کی ذمہ داری بھی وہ ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہت سی چیزیں کسی بھی کارروائی سے پہلے منظر عام پر لانا ضروری ہوتی ہیں اور کچھ چیزوں کو آپریشن کی کامیابی سے پہلے بے نقاب کرنا ضروری تھا تاکہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ کسی پرامن سرگرمی کو روکنے کیلئے پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اختیارات آئین میں درج ہیں، آئین اور قانون کے مطابق ہی کردار ادا کریں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ گجرات کی سرگرمیاں ان کے علم میں ہوں گی انہیں بھی چاہئے کہ وہ اسے روکیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ کردار ادا کریں۔

میری کنوینر شپ میں 13 لوگوں کی کمیٹی کا مقصد تمام پیش رفت ڈسکس کی جائیں اور ان رہنمائوں کی مشاورت سے کوئی فیصلہ لیا جائے۔ وزیراعظم ایک اہم دورے پر تشریف لے جارہے ہیں، یہ کمیٹی جو رہنمائی کرے گی اس پر عمل کریں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک طرف بندوقیں اکٹھی کر رہے ہیں دوسری طرف مذاکرات کی بات ہو رہی ہے۔ سیاست میں مذاکرات بہتر عمل ہوتا ہے اور جب ہم نے مذاکرات کی پیشکش کی تو اب فواد چوہدری کہتے ہیں کہ گھبرا کر مذاکرات کی بات کر رہے ہیں، ایسے فسادیوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں موثر انتظامات کر رکھے ہیں تاکہ کوئی مسلح یا غیرمسلح لوگ گردونواح میں جمع نہ ہوں، جہاں کسی دہشت گردی یا نقص امن کا خطرہ ممکن ہے وہاں کارروائی کی جارہی ہے اور مکمل سکیورٹی الرٹ ہے، لیکن اگر کوئی بندہ کے پی کے یا پنجاب کی حدود میں ہے تو سب سے پہلا فرض اور آئین وقانون کا تقاضا ہے کہ متعلقہ صوبے کے آئی جی، چیف سیکرٹری کو کہا جائے کہ وہ کارروائی کریں بصورت دیگر اختیار وفاقی اداروں کے پاس بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی تذبذب والی بات نہیں ہم بالکل کلیئر ہیں کہ ایسے مسلح جتھے کے لوگوں کو کسی قیمت میں معاف نہیں کیا جائے گا اور نہ کسی قسم کی کوئی رعایت دی جائے گی۔