بچوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، انجنیئر امیر مقام

325

اسلام آباد۔31اکتوبر (اے پی پی):مشیر برائے وزیراعظم ، سیاسی و عوامی امور، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن انجنیئر امیر مقام نے کہا ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اکادمی ادبیات پاکستان ملک میں ادیبوں شاعروں اور پاکستانی ادب کے فروغ کیلئے کام کرنے والا واحد قومی ادارہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام دائرہ علم و ادب پاکستان کے اشتراک سے منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انجینئر امیر مقام تقریب کے مہمان خصوصی اور سینیٹر عرفان صدیقی مہمان اعزاز تھے ۔ وفاقی سیکرٹری ، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن فارینہ مظہرنے اظہار تشکر پیش کیا۔ چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر یوسف خشک نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ امجد اسلام امجد اور محمود شام نےکلیدی گفتگو پیش کی۔نظامت قاسم یعقوب نے کی۔

کانفرنس میں بچوں کے ادب کے حوا لے سے مختلف پروگرامزسے متعلق بیرو ن ممالک سے آن لائن جبکہ پاکستان میں موجود بچوں کے ادب کے ماہرین بھی شریک تھے۔ کانفرنس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق شخصیات نے بھر پور شرکت کی۔ انجنیئر امیر مقام نے کہاکہ میں آپ تمام اہل قلم کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں بلاشبہ یہ ایک یادگار تقریب ہے جس میں پاکستان اور مختلف ممالک کے بچوں کے ادب سے وابستہ سکالرز کی اتنی بڑی تعداد کو ایک جگہ اکٹھادیکھ کر خوشی ہورہی ہے۔

اکادمی ادبیات پاکستان ملک میں ادیبوں شاعروں اور پاکستانی ادب کے فروغ کے لیے کام کرنے والا واحد قومی ادارہ ہے۔ آج کی تقریب اس انتہائی اہم ادارے کے شایان شان ہے۔ہمیں بچوں کی فلا ح و بہبود اور تعلیم و تربیت کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور آج کی تقریب اس حوالے سے ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ترقی یافتہ قوموں نے جتنا کچھ اپنے بالغ عوام کی فلاح اور تعلیم و تربیت کے لیے کیا اس سے بڑھ کر بچوں کے لیےبھی کیاہے۔

ہمیں بھی بچوں کو تعلیم کی آسان سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اس ایوان میں بچے بھی موجود ہیں اور ان کے لیے لکھنے والے ادیب اور اس تمام عمل پر گہری نگاہ اور بصیرت رکھنے والے ماہرین بھی موجود ہیں اور آج کی تقریب کی صورت میں اکادمی ادبیات پاکستان نے ایک کہکشاں سی سجا دی ہے۔ ان ادیبوں اور ناقدین سے میری گزارش ہے کہ ملک و قوم کی خاطر بچوں کے ادب تخلیق کرنے کی روایت کو فروغ دیں۔ وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ بچوں کو جھوٹ سکھانے کے بجائے مثبت سرگرمیوں کی طرف لانا چاہیے۔

انجینئر امیر مقام نے کہا کہ بچوں کو جھوٹ سکھانا قوم کی خدمت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو ایسے عناصر سے دور رکھنا چاہیے جو ہر وقت جھوٹ بولتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ہم آج قومی سطح پر بہت سے مسائل سے نبرد آزماہیں۔ ہم اپنے بچوں کے کردار اور اخلاق کی آج حفاظت کریں گے، تو یہ کل کوپوری قوم کے کردار کی حفاظت کا فر یضہ انجام دیں گے۔ یہ ہمارے لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہوئے اسلام کے اصولوں اور ہماری مشرقی اعلی انسانی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں۔حب الوطنی کا بھرپور جذبہ بچوں میں اسی عمر میں پیدا کیا جا سکتا ہے۔میں سجھتا ہوں کہ اکادمی ادبیات پاکستان اور ہمارے سکالرز، اور ادیب اور شاعر اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں اور اس عمل میں مزید بہتری لانے کی ان میں مکمل اہلیت اور گنجائش موجود ہے۔

میں ایک بار پھر تمام ادیبوں کو وفاقی سیکرٹری فارینہ مظہر اور اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اسی جذبے کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت جاری رکھیں گے ۔آخر میں انہوں نے خصوصی اعلان کرتے ہوئے کہاکہ آئندہ سے بچوں کا ادب تخلیق کرنےوالے لکھاریوں کو دو ایوارڈز دیے جائیں گے اسی طرح بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے بچوں کو بھی دو ایوارڈ دیئے جائیں گے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے ۔ ان کے تخلیق کاروں کو ایوارڈ اور وظائف دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے اہم بات ہے کہ ہمیں اُس بچے کو تلا ش کرنے کی ضرورت ہے جو اس دنیا کی چکا چوند میں کھو چکا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پہلے والدین بچوں کو کہانیاں سناتے تھےجس سے بچوں میں کہانیاں سننے کا شوق بڑھتا تھا۔ آج والدین کے پاس وقت نہیں ہےکہ وہ بچے پر نظر رکھیں کہ وہ کہاں کھو گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے ادب کو الماریوں میں رکھنے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کو کتاب پڑھنے کی طرف راغب کریں ۔انہوں نے کہا کہ بچوں کو کتاب کی طرف راغب کرناوقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر بنتا یا انجنیئربھی بنے لیکن اسے اردوزبان پڑھانی چاہیے تا کہ وہ ادب و ثقافت سے روشناس ہو اس سے اس کی زندگی پر بڑا خوشگوار اثر پڑے گا۔

فارینہ مظہر،وفاقی سیکرٹری نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت پاکستان قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن قوم کی تعمیر و ترقی میں ادب کی اور خاص کر بچوں کے ادب کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اور یہ کہ پاکستانی ادب کی ترویج کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حوصلہ افزائی اس کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔

اس لیے بچے ہر قوم کی ایک بڑی ذمہ داری بھی بنتے ہیں ان کی اخلاقی، سماجی اور ثقافتی تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری قوم کو نبھانی پڑتی ہے ۔ یہ کانفرنس اور اس میں آپ کی موجودگی اس ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس بہترین کوشش کے لئے آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اور اس کی پوری ٹیم کی اس کوشش کو ضرور سراہنا چاہوں گی کہ ان کی قیادت میں یہ ادارہ بہت فعال انداز میں کام کر رہا ہے ۔ آج کی تقریب یقیناً بچوں کے ادب کے حوالے سے بہت سے موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے گی اور اس کے نتیجے میں ایسی سفارشات سامنے آئیں گے جن پر عمل کر کے ہم بچوں کے ادب کی روایت کو تقویت دینے اور اس کی تاثیر میں گراں قدر اضافہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

میں ایک بار پھر امیر مقام صاحب مشیر وزیر اعظم برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن اور سینیٹر عرفان صدیقی اور تمام اکابرین علم و دانش کا شکریہ ادا کر تی ہوں کہ آپ نے اس کانفرنس کے انعقاد میں مکمل تعاون اور راہنمائی فرمائی اور اس تقریب میں شریک ہو کر اس کی شان میں اضافہ کیا اور ہماری عزت افزائی کی۔ ڈاکٹر یوسف خشک،چیئرمین ، اکادمی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے میں آپ تمام معزز پاکستانی مہمانوں کا اور بیرون ممالک سے کانفرنس میں آن لائن شامل سکالرز کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس کانفرنس میں شرکت فرما کر اس محفل کو رونق بخشی۔ ہمارے لیے یہ بہت افتخار اور اعزاز کی بات ہے کہ مشیر وزیر اعظم امیر مقام اور معرف ادیب شاعر و سینیٹر عرفان صدیقی ہمارے درمیان موجود ہیں۔

آپ کی اس محفل میں موجودگی ہمارے لیے اور قوم کے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔ بچوں کے ادب پر ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں آپ کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ حکومت ادب اور خاص کر بچوں کے لیے لکھے جانے والے ادب کے فروغ کے لیے کس قدر پرعزم ہے اور ان امور کا گہرا شعور رکھتی ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے جو وسائل ہمیں درکار ہیں ان میں ادب کا وسیلہ سب سے مؤثر اور کارگر ہے۔ ادب نہ صرف بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے بلکہ یہ ان کے کردار اور اخلاق کی تعمیر میں کردار ادا کرتا ہے ۔ پاکستانی ادب میں ہر دور میں بچوں کے لیے لکھنے والے مایہ ناز اہل قلم موجود رھے۔

ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال اصل میں بچوں کے بھی سب سے بڑے شاعر ہیں۔انھوں نےاپنی شاعری کے ذریعے بچوں کو جو پیغامات دیے، وہ انھیں حفظ ہیں اور ہمیں ایک اچھے مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔ دنیابھرکےبڑےادیبوں کی طرح پاکستان کے ہر بڑے ادیب نےبھی لکھنے کاآغازبچوں کے ادب سے کیا۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچوں کا ادب وہ نرسری ہے ،جو دنیاکو بڑے ادیب مہیا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کا مینڈیٹ جہاں قومی و علاقائی ادب کو فروغ دینا ہے۔ وہاں پر بچوں کے ادب کو بھی فروغ دینا ہمارے دائرہ کار میں شامل ہے۔انھی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ’’ بچوں کا ادب: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کے موضوع پر اس تین روزہ بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا انعقد کیا ہے۔

اورملک بھر سے بچوں کے ادیبوں اور بچوں کے ادب پر کام کرنے والے محققین سے مقالوں کی تلخیص بھیجنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ماضی میں بھی اکادمی کے زیر انتظام مختلف اوقات میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے مختلف علمی و ادبی منصوبے جاری کیے گئے اور کتب و جرائد شائع ہوئیں۔ لیکن آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ پاکستان کی اس ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر صرف اس ایک سال میں اکادمی ادبیات پاکستان نے سہ ماہی ادبیات اطفال کےچا ر خصوصی نمبر شائع کیے ہیں جس میں1947 سےلے کر2022تک پاکستان کے بچوں کے ادب کی تاریخ محفوظ کر دی گئی ہے اور الحمد اللہ آج اکادمی ادبیات پاکستان کےپلیٹ فارم سے حکومتی سطح پر بچوں کی پہلی عالمی کانفرنس کا افتتاح ہو رہا ہے ، اس کے تین دن میں اندرون و بیرون ملک سے 24 زبانوں کےڈیڑھ سو اسکالرز اپنے بچپن کے تجربات کے ساتھ تحقیقی، تنقیدی و تخلیقی تجربات پیش کریں گے ۔

محمود شام نے65سال پہلے کے بچوں کے رسائل ، اخبارات کا خصوصی ذکر کیا۔ بچوں کے رسالوں اور مواد کو ڈیجیٹلائز ڈکرنے اور سرکاری لائبریریوں کو ثقافت ڈویژن کے تحت ڈیجٹلائزڈکرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کا ادب لکھنے والے ادیبوں کو بھی سرکاری طور پر ایوارڈز دینے چاہیے۔ بچوں کے لیے چینل قائم کرنے چاہیےجو صرف بچوں کے حوالے سے پروگرام دکھائے۔

امجد اسلام امجد نے کہا کہ پی ٹی وی واحد چینل ہے جو شروع سے بچوں کے پروگرام کرتار ہا ہے ۔ بچوں کی سو چ اور کام کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے ۔ پرائمری سے مڈل تک بچوں کو اپنی زبان میں پڑھانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کے لیے ایسے ادب کی ضرورت ہے جس سے وہ سچا، بہادر، اور بہتر فیصلہ کرنے والا انسان بن جائے۔ بچوں پر خصوصی توجہ دینے سے آئندہ دس سال میں ہمارے بچے بھی دنیا کے بچوں کے ہم پلہ ہو سکیں گے۔