راولپنڈی۔21نومبر (اے پی پی):نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز(نمز) کے ڈیپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنا شان نے کولمبیا یونیورسٹی کے میل مین سکول آف پبلک ہیلتھ اور گلوبل کنسورشیم آن کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ ایجوکیشن کی طرف سے نشر ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز میں شرکت کے دوران پاکستان میں حالیہ بدترین سیلاب سے صحت کی سہولیات کی تباہی پر روشنی ڈالی۔
پوڈ کاسٹ سیریز کا اہتمام کنسورشیم آن کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ ایجوکیشن (جی سی سی ایچ ای) نے اپنے کلائمیٹ کلینک میں کیا تھا ۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنا شان نے کہا کہ سیلاب سے بعض علاقوں میں صحت کی سہولیات تباہ ہو جانے کے نتیجہ میں خواتین اور بچے خاص طور سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ انہوں نے عالمی ماہرین سے اپیل کی کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کے لیے صحت عامہ اور فطرت کے درمیان ربط کو سمجھیں۔
کولمبیا یونیورسٹی نے تباہ کن سیلاب، موسمیاتی بحران اور پاکستان میں صحت عامہ کے نقطہ نظر سے حائل رکاوٹوں کے بارے میں تفصیلی بحث نشر کی۔ نمز نے اکتوبر 2022 میں کنسورشیم آن کلائمیٹ اینڈ ہیلتھ ایجوکیشن میں شمولیت اختیار کی جو کہ صحت کے شعبہ سے منسلک پروفیشنلز کی آواز کو منظم و بااختیار بنانے اور اس میں اضافہ کے لیے ایک پلیٹ فارم ہے ۔ یہ صحت کے پیشہ ور اداروں اور تنظیموںکا عالمی نیٹ ورک ہے جو صحت کے شعبہ سے منسلک پروفیشنلز کو آب و ہوا اور کرہ ارض کی صحت میں تربیت دیتا ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ہماری صحت کو کس طرح نقصان پہنچا رہی ہے اور موسمیاتی حل اسے کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حنا شان نے کہا کہ پاکستان کے 80 سے زائد اضلاع میں تقریبا 33 ملین افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں جو تباہی ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دریائے سندھ نے اپنے گردونواح کے وسیع و عریض علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی اور گھروں، فصلوں اور مویشیوں کو نقصان پہنچا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ سیلاب سے 7.6 ملین سے زیادہ گھر تباہ ہوئے جبکہ 5.7 ملین سے زیادہ لوگ امدادی کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صورتحال بہت سنگین ہے اور یہ ایک المناک حقیقت ہے۔ سیلاب نے کم از کم صحت کی 1500 سہولیات کو تباہ کر دیا، ہزاروں کلومیٹر سڑکیں، پل اور ریلوے ٹریکس زیر آب آنے سے شہروں کے درمیان رابطے معطل ہو گئے جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک رسائی مشکل ہو گئی۔ ڈاکٹر حنا نے کہا کہ یقینی طور پر انتہائی موسم اور موسمیاتی تبدیلیوں اور پاکستان کے درمیان تعلق ہے اگرچہ دنیا بھر میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا آٹھواں ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ یہ انصاف کا سوال ہے کہ پاکستان اس چیز کی قیمت چکا رہا ہے جو دوسروں کا کیا دھرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ موسمیات کے بیان کے مطابق حالیہ سیلاب اگست 1951 کے بعد پاکستان میں سب سے بڑا سیلاب تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے جنوبی ایشیا کو ”کلائمیٹ ہاٹ سپاٹ” قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بحال کرنا سب سے بڑا چیلنج تھا کیونکہ تباہ کن سیلاب نے مختلف مسائل کو جنم دیا ہے۔