سی پیک کو زیادہ کارکردگی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے، اسے اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کا نمونہ بنائیں گے، چینی سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن پانگ چنکسو کا آئی آئی سی آر کے زیراہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب

154
سی پیک کو زیادہ کارکردگی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے، اسے اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کا نمونہ بنائیں گے، چینی سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن پانگ چنکسو کا آئی آئی سی آر کے زیراہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب

اسلام آباد۔1دسمبر (اے پی پی):چینی سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن پانگ چنکسو نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان مشترکہ طور پر چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کو زیادہ کارکردگی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اسے اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کا نمونہ بنائیں گے۔

انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف کنفلیکٹ ریزولوشن (آئی آئی سی آر) کے زیر اہتمام منعقدہ "CPEC’s Defining Moment: Prospect and Challenges” کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ فریقین راہداری کے تحت منصوبوں کی تیزی سے تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کا بھرپور استعمال کریں گے۔

پانگ چنگسو نے سی پیک کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بی آر آئی ۔۔سی پیک کے تاریخی منصوبے نے نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے ہیں، 25.4 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری لانا، 6040 میگاواٹ بجلی، 886 کلومیٹر نیشنل ٹرانسمیشن نیٹ ورک اور 510 کلومیٹر ہائی ویز شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کی کمی کو کافی حد تک دور کیا گیا ہے، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا گیا ہے، اور مقامی لوگوں کو بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع ملے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چین ہمیشہ تعاون کے لیے پاکستان کو اپنی ترجیحات میں رکھے گا اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کام کرے گا۔ سیشن کے ماڈریٹر پروفیسر ڈاکٹر اظہر محمود نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ سی پیک ایک ایسا موقع ہے جسے پاکستان کے جیو سٹریٹجک محل وقوع کے نتیجے میں استعمال کیا گیا۔

اسی وجہ سے اسے چین کے ون بیلٹ ون روڈ انیشیٹو میں بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ مشرقی مغربی رابطے کا افزودہ اور مختصر ترین راستہ ہے جو نہ صرف خطے بلکہ تہذیب کو بھی رابطہ فراہم کرتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہر اعوان نے سی پیک کے سیاسی پہلوئوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ چیلنجز ہیں اور ہمیں ان سے نمٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے چینی دوستوں سے کچھ خیالات لینے کی ضرورت ہے اور یہی سی پی سی "جدید کاری” پر مرکوز ہے۔

پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق آئیڈیا کو استعمال اور لاگو بھی کر سکتا ہے، پاکستان کو ابھرتی ہوئی دنیا کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے جدیدیت کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انڈسٹری اور انسٹی ٹیوٹ کو جوڑنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو سی پیک کے چیلنجز کو ادارہ جاتی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ سری لنکا سے شمولیت اختیار کرتے ہوئے، ڈاکٹر جارج نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہر ملک اپنے نقطہ نظر میں منفرد ہے اور کسی کو بھی دوسرے کی نقل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اس کے بین الاقوامی برادری کے ساتھ منفرد تعلقات ہیں۔

دائود بٹ نے کہا کہ ابھرتی ہوئی دنیا تجارت سے زیادہ سیاست کی بات کر رہی ہے اور اس وقت پاکستان کو سی پیک پر شکوک و شبہات کی بجائے فخر محسوس کرنا چاہیے، ہمیں خود کا جائزہ لینا چاہیے لیکن اس کی پیداواری صلاحیت اور پاکستان کے لیے فائدہ پر شک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ چین جی ڈی پی میں سب سے آگے ہے۔ پاکستان چین کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے والا نمبر 1 ہے۔

ہمیں سی پیک کے بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارہ جاتی اتفاق رائے ہے کہ سی پیک پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جغرافیہ اہم ہے لیکن تاریخ بھی اتنی ہی اہم ہے اور پاکستان کو چینی تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے جو لچک سے بھرپور ہے۔

\پروفیسر شاہد رضا نے کہا کہ سی پیک تمام چیلنجز کے درمیان ہوگا، اس میں تھوڑا زیادہ وقت لگ سکتا ہے لیکن اسے پورا کیا جائے گا۔ جاوید اقبال نے سی پیک کے تکنیکی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جدید دنیا کی اولین ضرورت سی پیک منصوبے میں کہیں نظر نہیں آتی۔