موجودہ حکومت نےبین الاقوامی برادری سےمسلسل اعلیٰ سطحی روابط کےذریعےدوستانہ خارجہ تعلقات کو بحال کرنے کے لئے دانشمندانہ خارجہ پالیسی پر عمل کیا

96
موجودہ حکومت نےبین الاقوامی برادری سےمسلسل اعلیٰ سطحی روابط کے ذریعے دوستانہ خارجہ تعلقات کو بحال کرنے کے لئے دانشمندانہ خارجہ پالیسی پر عمل کیا

اسلام آباد۔22دسمبر (اے پی پی):موجودہ حکومت نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مسلسل اعلیٰ سطحی روابط کے ذریعے دوستانہ خارجہ تعلقات کو بحال کرنے کے لئے ایک دانشمندانہ خارجہ پالیسی پر عمل کیا اور کشمیر اور ماحولیاتی تبدیلی سے لے کر مسلم دنیا کے مسائل تک متعدد محاذوں پر پاکستان کا کیس مؤثر طریقے سے پیش کیا۔ موجودہ اتحادی حکومت کو ایک تباہ حال خارجہ پالیسی وراثت میں ملی جس نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دیا تاہم وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں قریبی اتحادی ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔

اتحادی جماعتوں کے حکومت بنانے کے فوراً بعد، ملک بدترین سیلاب کی زد میں آ گیا جس سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے اور قومی معیشت اور بنیادی ڈھانچے کو تقریباً 30 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔ کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہونے کے باوجود موجودہ حکومت نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں عالمی برادری کو آگاہ کیا۔ موجودہ حکومت کی دانشمندانہ خارجہ پالیسی کا تازہ ترین کریڈٹ ڈیمیج اینڈ لاس فنڈ کا قیام ہے جو کوپ- 27 سربراہی اجلاس میں ترقی پذیر دنیا کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی آفات سے پہنچنے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے مدد فراہم کرنے سے متعلق ہے۔ اس سے قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے پاکستان کے اخراج کی صورت میں دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے اقدامات اور بیک وقت دو ایکشن پلان کے کامیاب نفاذ کی حکومت کی زبردست کوششوں کا بھی اظہار ہوتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دوطرفہ اور علاقائی تعاون کے دائرہ کار کو بڑھا کر تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے امریکہ، چین، سعودی عرب، ترکی اور دیگر دوست ممالک کی قیادت سے بار بار رابطے قائم کئے۔ اپریل میں وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تاکہ دوطرفہ اقتصادی، سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔

وزیر خارجہ کی "تنازعہ اور غذائی تحفظ” پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کھلی بحث اور مئی میں دوسری عالمی کوویڈ-19 سمٹ میں شرکت کے علاوہ، وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے یوکرین کے لیے اعلیٰ سطحی بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے سی پیک کے منصوبے کو آگے بڑھانے پر بات چیت کے لیے چین کا اپنا پہلا سرکاری دورہ کیا اور مئی میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ 31 مئی سے 2 جون 2022 تک وزیراعظم کے دورہ ترکی میں دونوں ممالک نے سیاحت، تعلیم، لاجسٹکس، سول ایوی ایشن اور مواصلات کے شعبوں میں اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق کیا۔

جرمن وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان، بلاول بھٹو کا دورہ مشہد، سیکرٹری جنرل کا دورہ پاکستان، شنگھائی تعاون تنظیم اور تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ کی شرکت اس سال جون اور جولائی میں پاکستان کی سفارتی مصروفیات کی جھلکیاں ہیں۔ اگست میں وزیراعظم نے قطر کا دورہ کیا جبکہ وزیر خارجہ نے جرمنی، ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کے سرکاری ریاستی دورے کئے۔ تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان اور اقوام متحدہ نے مشترکہ طور پر "فلیش اپیل” کا آغاز کیا جس میں متاثرہ علاقوں میں بچاؤ اور امدادی کارروائیوں کے لیے عالمی برادری کی مدد طلب کی گئی۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے اظہار یکجہتی کے لیے ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا جنہیں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں سیلاب کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اسی مہینے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کے موقع پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث رونما ہونے والی آفات کے باعث ضیاع اور نقصانات پر پاکستان کی طرف سے منعقدہ اعلیٰ سطحی تقریب کی صدارت کی اور عالمی برادری کو بتایا کہ سیلاب سے ہر سات میں سے ایک پاکستانی متاثر ہوا اور پاکستان کی جی ڈی پی کے 10 فیصد کے برابر نقصان پہنچا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے ملاقات کی جس میں فرانس نے سال کے اختتام سے قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی پر اتفاق کیا جس کا مقصد سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو میں کردار ادا کرنا ہے۔ اس سال اکتوبر میں، پاکستان اور اقوام متحدہ نے غیر معمولی موسمیاتی سیلاب سے متاثر لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 816 ملین ڈالر کی نظرثانی شدہ فلیش اپیل جاری کی۔ جنرل اسمبلی نے تباہ کن سیلاب کے تناظر میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور حمایت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔

سی آئی سی اے سربراہی اجلاس کے لیے اپنے دورہ قازقستان کے دوران، وزیر اعظم شہباز نے آذربائیجان، بیلاروس، قازقستان، تاجکستان اور ازبکستان کے صدور سے دوطرفہ ملاقاتیں کرنے کے علاوہ دیگر رہنماؤں سے بھی بات چیت کی۔دوسرے ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات کی وکالت کرتے ہوئے، موجودہ حکومت نے کشمیریوں کی بھرپور حمایت کی اور قرار دیا کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری 5 اگست 2019 کے بھارتی یکطرفہ اقدامات کی واپسی پر منحصر ہے ۔ حالیہ امریکی دورے کے دوران میڈیا سے بات چیت کے دوران، وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے نریندر مودی کو ’’گجرات کا قصائی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ بی جے پی ہٹلر سے متاثر ہے۔

مختلف ممالک کے رہنماؤں سے بات چیت کے دوران، پاکستان کی قیادت نے بار بار جنگ زدہ افغانستان کے عوام کی بہتری کے لیے عبوری افغان حکومت کے ساتھ تعمیری روابط کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے افغان فریق پر بھی زور دیا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔ 10 سے 12 دسمبر تک پاکستان کے دورے کے دوران او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہم طحہ نے بھی آزاد جموں و کشمیر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے بھارتی غیر قانونی زیرتسلط جموں وکشمیر کے مظلوم عوام کے لیے او آئی سی کی حمایت کا اعادہ کیا۔ 19 نومبر کو حنا ربانی کھر نے کابل کا ایک روزہ دورہ کیا اور عبوری حکومت کی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور تعلیم، صحت، زراعت، تجارت،سرمایہ کاری، علاقائی رابطوں، عوام سے عوام کے رابطوں اور سماجی و اقتصادی شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔