اسلام آباد۔27فروری (اے پی پی):سسٹینیبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کے زیر اہتمام پاکستان میں انسانی سودا گری کی روک تھام سے متعلق 2 روزہ بین الاقوامی کانفرنس پیر کو یہاں شروع ہوگئی۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور پاکستان یو ایس ایلومنی نیٹ ورک (پی یو اے این) کے تعاون سے ہونے والی کانفرنس کا بنیادی مقصد انسانی سودا گری کی روک تھام ، قانونی چارہ جوئی اور متاثرہ افراد کی بحالی کے حوالے سے اداروں کی استعداد کاری کرنا اورقانونی فریم ورک کے نفاذ کے لیے مختلف شراکت داروں کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینا ہے ۔
کانفرنس میں پاکستان و امریکہ کے سرکاری، نجی اور ترقیاتی شعبے کے اداروں کے نمائندوں سمیت وفاقی و صوبائی محکموں کے سینئر افسران، پارلیمنٹیرینز، سینئر پولیس و ایف آئی اے کے نمائندے، سفارت کار ، قومی اور بین الاقوامی این جی اوز اورمیڈیا کے نمائندے نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ انسانوں کی سودا گری صدیوں پرانا مسئلہ ہے جس کے لئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے اور تعاون کے لئے جدید طریقے تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مجرم سودا گری کے مقصد کے لیے جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے کہا کہ انسانی سودا گری اپنی نوعیت کی ایک آفت ہے جس سے خاص طور پر خواتین اور بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
غربت اور ناخواندگی کے ساتھ ساتھ امن و امان کا فقدان اور عدم توازن انسانوں کی سودا گری کو ایک آسان فعل بنا دیتا ہے ۔ شہلا رضا نے کہا کہ سندھ حکومت متاثرین کے لئے قانونی امداد اور بحالی کی فراہمی پر کام کر رہی ہے۔ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس نے انسانی سودا گری کے مسئلے کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے اور اسے مرکزی دھارے میں لانے کے لئے تما م اسٹیک ہولڈرز کے مابین شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اسے انسانی سودا گری (ٹی آئی پی) کے لئے ایک آسان ماحول فراہم کرتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی ٹی آئی پی پر سالانہ رپورٹ میں 2015 سے اب تک پاکستان پانچ مرتبہ ٹیئر ٹو(درجہ دوم) واچ لسٹ ممالک میں شامل ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2022 کی امریکی رپورٹ میں پاکستان کو ٹیئر ٹو(درجہ دوم) سے نکالنے کی وجہ پاکستان میں انسانی سودا گری کی روک تھام سے متعلق ہونے والی قانون سازی ہے، خاص طور پر "انسانی سودا گری کی روک تھام ایکٹ 2018 اور حکومت و شراکت داروں کے باہمی تعاون نے موثرکردار ادا کیا ہے ۔پی یو اے این کے صدر صاحبزادہ عامر خلیل نے تجویز پیش کی کہ متاثرین پر مبنی قانون سازی سے انسانی سودا گری سے متاثرہ افراد کی فلاح و بہبود اور مدد حاصل ہو سکے گی۔ کانفرنس میں پینل سیشن بھی ہوئے جہاں پاکستان اور امریکہ کے ٹی آئی پی ماہرین نے انسانی سودا گری کے مسائل، پاکستان میں اس کی اہمیت، موجودہ قانونی فریم ورک اور اس پر عمل پر تبادلہ خیال، پالیسی میں موجود مسائل اور پاکستان میں افراد کی سودا گری کی روک تھام کے لئے بین الاقوامی بہترین طریقوں سے سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ۔
کانفرنس میں موجود مختلف شراکت داروں کے ورکنگ گروپس بھی اس کانفرنس کا حصہ تھے تاکہ ارکان پارلیمنٹ، پالیسی سازوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے لیے مشترکہ طور پر سفارشات تیار کی جا سکیں۔ واضح رہے کہ ایس ایس ڈی او، امریکہ کے تعاون سے صلاحیت سازی، روابط کو مضبوط بنانے اور انسانی سودا گری کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے حوالے سے کام کر رہی ہے ۔ یہ کانفرنس اس مقصد کے لئے کیے جانے والے اقدامات میں سے ایک ہے جہاں شرکاء اور پینلسٹس نے یکساں طور پر پاکستان میں افراد کی سودا گری کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔